سید منورحسن، سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان

سید منور حسن کے اثاثے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ذرا سی بات/ محمد عاصم حفیظ :

سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے آخری انٹرویو کی ویڈیو سن لیں تو آبدیدہ ہو جائیں گے۔ ایک ملک گیر جماعت جس کے تحت اربوں کا سالانہ ریلیف ورک ہوتا ہو، جس جماعت کے ٹکٹ پر ممبران اسمبلی اور سینیٹر بنتے ہوں، اسی جماعت کے وہ امیر رہے ۔ وہ اپنے اثاثے ظاہر کر رہا ہے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو۔

کہا کہ ”چھوٹے سے گھر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ ہاں البتہ قرضہ ہے جسے اتارنے کی استطاعت بھی نہیں۔ کوئی اگر ہمدردی رکھتا ہے تو رابطہ کر لے“۔

یہاں کوئی کونسلر بن جائے تو اس کی نسلیں سنور جاتی ہیں ۔ سیاست کے نام پر لوگ ارب پتی بن جاتے ہیں لیکن یہ دینی طبقے کی ایمانداری اور اعلیٰ ترین اخلاقیات کا اظہار ہی تو ہے۔ ایک جماعت میں پوری زندگی گزارنے والا زندگی کی بنیادی سہولیات نہ پوری کر سکا۔ قرض ہے تو اتارنے کی استطاعت ہی نہیں۔ ہمارے ہاں ایسے مناظر کسی معجزے سے کم نہیں کہ جہاں سیاست امارت کے حصول کا ذریعہ ہو ۔

سیاست و دین یکجا ہوں تو ایسے ہی مناظر سامنے آتے ہیں ۔ اگر سیاست کو واقعی دینی فریضہ سمجھ کر کیا جائے، یہی دینی سیاست کا خاصہ ہے۔

کاروبار کرنا، حلال ذرائع سے رزق کمانا ہر ایک کا حق ہے۔ وہ دیندار ہو یا کوئی اور لیکن کمال صرف یہ کہ اختیار ملے، فنڈز وافر ہوں اور پھر بھی ایمانداری کی مثال قائم کی جائے۔ ایسا نہیں کہ دیندار ہوتے ہوئے اچھا کاروباری یا امیر ہونا منع ہے لیکن یہاں بات ہو رہی ہے ایک کارکن کی بے لوث خدمات کی ۔ جس نے زندگی بھر صرف اپنی جماعت تحریک کا سوچا خود اپنے بارے نہیں۔

دوسری جانب دینی جماعتوں کے بڑوں، ان میں موجود ایسے افراد کہ جنہیں اللہ نے صاحب ثروت بنایا ہے، ان کےلئے بھی ایک سبق ہے کہ جو اپنی زندگی کسی تحریک کو وقف کر دے، بے لوث ہو کر ہمہ وقت جماعت اور تحریک کی سربلندی کے لئے سرگرم رہے، کبھی تھوڑا وقت ملے تو اس کے حالات پر بھی نظر ڈال لیا کریں ۔ یقین مانیں افراد قیمتی ہوتے ہیں ۔ اگر وہ آپ کے ادارے، جماعت یا تحریک کے ساتھ جڑے ہیں، باصلاحیت ہیں تو کچھ ان کے حالات پر بھی نظر رکھیں۔

کہیں وہ تحریک، جماعت کی خاطر زندگی کی بنیادی سہولیات سے تو محروم نہیں ہو چکے، یہ نہیں کہ جماعت کی امارت سے فارغ ہوئے تو ایک سوٹ کیس میں روانہ ہونے والے اس درویش کو کسی نے زندگی بھر بعد میں کسی نے پوچھا تک نہیں ۔ وہ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں پتہ نہیں کس جبر کے ساتھ قرض کا ذکر کر رہا ہے۔

یقین مانیں‌ سید منورحسن ، اس مرد درویش نے ایمانداری، جماعت کی بے لوث خدمت کی ایک روشن مثال ہے ۔ وہ اہم رہنما جو بعد ازاں امیر جماعت رہے، ہر کوئی ان سے ملنا اور انہیں اپنے پاس بلانا چاہتا ہو گا لیکن شائد کبھی کسی نے غور ہی نہیں کیا کہ ان کے وسائل اس سب کی اجازت دیتے بھی ہیں کہ نہیں ۔ انہوں نے تو جو کچھ تھا جماعت کی خدمت میں لگا دیا اور اپنے لئے کوئی ”اثاثہ“ نہ بنا سکے۔

سید منور حسن کا روشن کردار دینی جماعتوں، دینی اداروں اور دینی طبقے کے لیے ایک سبق بھی ہے کہ اگر کوئی باصلاحیت، بے لوث ہمہ وقت سرگرم تحریک ادارے یا جماعت کے لئے زندگی وقف کر بیٹھا ہے تو اس کی قدر کریں ۔ یہ نہ ہو کہ وہ زندگی کے آخری ایام میں یوں اظہار کرنے پر مجبور ہو کہ ” مجھ پر قرض ہے ۔ کسی کو مجھ سے ہمدردی ہو تو رابطہ کرے “۔

ایسے دینی جماعتوں ۔اداروں اور تحریکوں سے منسلک باصلاحیت نوجوانوں، بے لوث، ایماندار عہدیداروں کی قدر کریں۔ افراد کے متبادل نہیں ہوتے۔ اگر کوئی اپنی صلاحیتیں، وقت اور خلوص وقف کر بیٹھا ہے تو اس کی زندگی کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا اس کے احباب کا بھی فرض ہے۔

کتنے ہی باصلاحیت ہیرے ہیں جب ان کو گھریلو مجبوریوں نے جکڑ کر رکھ دیا تو وہ تحریک و جماعت کی بجائے معاش کےلئے فکر مند ہو گئے، جن کے منسلک رہنے سے جماعت یا ادارہ مضبوط بن جاتا وہ ساتھ نہ چل سکے اور ان کی جگہ خوشامدی، نو دولتیے اور کم صلاحیت کے حامل افراد نے باگ دوڑ سنبھال لی۔ اور شائد یہی ہمارے ہاں دینی جماعتوں اداروں اور تحریکوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ یہاں باصلاحیت افراد کو منسلک نہیں رکھا جا سکا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں