سید منورحسن، سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان

سیدمنورحسن کے کمالات

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فیض اللہ خان :

کامریڈ منور حسن جب کال مارکس و لینن کے قبیلے میں تھے تو پچھلی نہیں اگلی صف کے جنگجو تھے، نجانے کون سا لمحہ تھا جب ان کے دل پہ سید مودودی کے لٹریچر نے نقب لگائی، کمیونزم کی پکی دیوار ڈھنے لگی اور دھیرے دھیرے وہ اپنی اول صف چھوڑ کر اپنے بدترین نظریاتی مخالفین کی صفوں میں جا پہنچے، وه بھی بالکل اگلی ۔

کہنے کو یہ ایک قبیلے سے دوسرے کو ہجرت تھی مگر یہ سب اتنا آسان نہ تھا کامریڈ منور اب مجاہد منور تھے ۔ نظریات کی اس تبدیلی نے ایسے شاندار فکری سیاسی سماجی اثرات مرتب کئیے کہ دوست تو دوست دشمن بھی ان کی استقامت، حق گوئی، یکسوئی ، سادگی، قناعت اور دیانت کے مداح ٹھہرے۔

سید منور حسن کی کہانی صدیوں پہلے گزرے کسی کردار کی نہیں یہ اسی تیز رفتار جدید اور ٹیکنالوجی سے آراستہ دنیا کے جیتے جاگتے ایسے شخص کی کہانی ہے کہ جس کے عہد میں رہنا، اس سے ملنا، اسے سننا بلاشبہ ایک سعادت تھی اور میں شکر و فخر کے جذبات کے ساتھ کہتا ہوں گاہے مجھے ان کی صحبت میسر رہی ۔

سید منور حسن کے بارے میں کہاں سے شروع کریں ؟ کیا کہیں ؟ کیا چھوڑ دیں ، سمجھ ہی نہیں آتا ۔
سید اپنے کردار و افکار میں ماضی کا ایسا افسانوی درویش نظر آتے جو زماں و مکاں کی قید سے ماورا ہوکر ہمارے درمیان آن کھڑا تھا ، اس حوصلے ہمت اور جرات کے ساتھ کہ لوگ ان کی شخصیت پہ اش اش کر اٹھے۔

کئی بار انہوں نے یوں حیران کیا کہ انگلیاں دانتوں تلے داب کر لوگ ششدر دیکھتے رہ گئے کیونکہ وه بات جسے بولنے میں طاقتور گروہوں کا کلیجه منه کو آتا ، یوں آسانی سے کہ کر اپنی راه لیتے گویا یه محض ایک بات هو اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

سید منور حسن نے ساٹھ کی دہائی میں جب سوشیالوجی کی سند امتیازی نمبروں سے حاصل کی تھی تو امکانات ایک جہاں ان کے آگے در وا کیے کھڑا تھا۔ ملک بنے کم ہی عرصہ ہوا تھا نوکری تو اسے بھی اچھی مل جاتی جو میٹرک پاس ہوتا یہاں تو معاملہ ہی اور تھا نہ صرف سوشیالوجی بلکہ اسلامی اسٹڈیز میں بھی ایم اے کرچکے تھے۔

نوکری اور وہ بھی اچھی نوکری ہاتھ باندھے کھڑی تھی مگر رگوں میں دوڑتا حسینی خون کچھ اور ہی فیصلہ کرچکا تھا۔ سی ایس ایس کرکے ڈی ایم جی گروپ کا حصہ بننے کا سوچا نہ ہی کسی تعلیمی ادارہ کا پروفیسر بن کر وائس چانسلر کی نشست پہ نگاہ رکھی۔

یہ تو درویش صفت انسان تھا۔ نظریات کا آدمی جو اپنے فکر و فلسفے علمیت اور تقریر سے آگے بڑھنے طاغوت اور اس کے سہولت کاروں کو للکارنے ان کی صفیں الٹنے کا سودا کرچکا تھا۔ جاننے والے جانتے ہیں دیکھنے والے دیکھتے ہیں سید زادے نے پھر آخری سانس تک اس عہد کو نبھایا جو اس نے چڑھتی جوانی میں اپنے رب سے کیا ۔

جماعت اسلامی کے سربراہ بنے تو سیاست اس رخ پہ لے گئے جو یہاں پاپولر نہ تھی مگر نه صرف دلوں میں جگه بنانے لگے بلکه‌ گیلیپ سروے میں مقبول قیادت کی صف میں بھی نظر آئے جیسا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو امریکی جنگ قرار دے کر اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی سے کم و بیش ہر جلسے میں سود و زیاں کا براه راست حساب طلب کرتے۔

ڈرون حملے ہوں جعلی مقابلے گمشدگیاں یا بلوچ و قبائل کے مسائل و مطالبات وہ بلند آہنگ اس پہ بات کرتے، سوال اٹھاتے، تحرک‌ پیدا کرتے، مہمات چلاتے۔ اب ظاہر ہے کہ میڈیا ایسی تقاریر کی براہ راست کوریج کرنے سے تو رہا سو انہیں خاص وقت نہ ملتا لیکن سید اس سے بے پروا تھے۔ وہ پاپولر مؤقف کے ساتھ نہیں درست بات کے ساتھ کھڑے تھے۔

یه بھی فسانہ ہے کہ آج پوری ریاست حال دل سناتے بولتی ہے که بلاشبہ وه ہماری نہیں غیروں کی جنگ تھی۔ فرق یه ہے کہ جب سید یهی بات بتاتے تو برا لگتا ۔ سید کا ایک کمال یہ تھا کہ اپنی ہر تقریر میں بلوچوں کا ذکر کرتے ریاست سے ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا مطالبه کرتے۔ یوں انہوں نے جماعت کے لوگوں کی توجہ شام وعراق اور افغان و کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ بلوچستان و قبائل کے مسلمانوں کی طرف بھی خوب متوجہ کرائی ۔

درویش صفت سید منور حسن کی عظمت ایسی کہ سر بلند کرکے دیکھو تو دستار گر پڑے۔ جو راستہ سید نے اختیار کیا اس پہ دستار تو ایک طرف سر ہی سلامت نہیں رہتا لیکن جذبہ عشق و مستی کا مسافر اپنی دھن میں مگن چلتا رہا۔ طنز، طعنے، ملامت، گالیاں، بلاوے، نوٹس، دھمکیاں، کوئی اس کی راہ کھوٹی کر ہی نہ سکے۔

عجیب شخصیت تھی، بیک وقت، تندی و نرم خوئی ،طنز و مزاح اور استقامت کے کوہ گراں۔

سید ہمارے عہد کے وہ سیاست دان تھے کہ زندگی کے آخری بیس دن ناظم آباد کے ایک ایسے اسپتال میں گزارے جسے سارے کراچی کے لوگ بھی شاید نہ جانتے ہوں ۔ سید متوسط طبقے کے علاقے شادمان ٹاؤن میں ایک سو بیس گز یا پانچ مرلے کے مکان میں رہتے تھے۔ دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا کسی سیاسی مذہبی جماعت کا قائد پانچ مرلے کے مکان میں زندگی گزارتا ملے گا؟

ایسا نہیں کہ سید دنیا کما نہیں سکتے تھے۔ واللہ دنیا ان کے آگے ایسے جھولی پھیلائے کھڑی تھی کہ ہم جیسے تادم مرگ اس کی حسرت کرتے رہیں مگر معاملہ اس درویشی، خدا خوفی اور نظریات سے محبت اور دنیا سے بے رغبتی کا تھا کہ ویسے بھی اپنی دنیا سے محبت کا تو یہ عالم ہے کہ احد کے پہاڑ جتنا سونا مل جائے تو ہم‌ جیسا انسان کہے گا ایک اور، ایک اور مل جائے کہے گا ایک اور ، اور پھر ایک اور ، اس کے بعد محسن انسانیت نبی علیہ السلام نے فرمایا:
بیشک انسان کے پیٹ کو قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔

میری خوش قسمتی اور سرمایہ حیات میں بہترین اضافہ سید کی رفاقت رہی۔ گو کہ بہت زیادہ نہ تھی لیکن جتنی تھی، بےتکلفی سے عبارت تھی۔ ایک بار زاہد علی خان صاحب کے ہمراہ دوپہر کے کھانے پہ بلایا۔ دال چاول سلاد اور سبزی پیش کردی۔ پھر چائے کے بعد گفتگو کا طویل دور چلا ۔

اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں صبح دس تا تین بجے تک روز ہی ملتے۔ ان کی میز نت نئی کتب سے بھری رہتی۔ میری سعادت کہ میری کتاب طویل عرصے تک ان کی میز کی زینت رہی۔ صاحب مطالعه تھے۔ حیرت کہ پڑھنے، تقاریر کرنے، سیاست و تنظیم دیکھنے اور عبادات میں مگن رہنے کا وقت آسانی سے نکال لیتے،

سید چلے گئے ان کے ساتھ وہ عہد بھی چلا گیا جس کے روشن تذکرے طویل عرصے تک ہوتے رہیں گے۔

اللہ پاک اس نفس مطمئنہ کو اپنی ابدی جنتوں کا مکین بنائے جس کے حصول کی خاطر اس نے عارضی مگر آنکھوں کو خیرہ کرتی چمک والی دنیا کو حقیر جانا اور موت سے پہلے موت کے بعد والی زندگی کی تیاری کی۔
رحمه الله


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں