سیدمنور حسن، سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان

سیدمنورحسن کے بارے میں چند باتیں جو کم ہی لوگ جانتےہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد :

سیدمنورحسن، ایک جرات مند سیاست دان، ان جیسا دلیرشخص کم ہی دیکھنے کو ملا۔ ہمارے ایک صحافی دوست عثمان جامعی تو انھیں پاکستانی تاریخ کے سب سے دلیر سیاست دان کہتے ہیں۔ اصل میں سید ایک واضح ، خالص نظریاتی شخص تھے، انھوں‌ نے زندگی پورے شعور کے ساتھ گزاری۔

”کبھی سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے“ کے نعرے لگاتے تھے لیکن پھر سیدابوالاعلیٰ مودودی کی فکر کا مطالعہ کیا، ان کی کتابیں پڑھیں تو اپنے نظریات میں یکسر تبدیلی پیدا کی۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ سیدمودودی کی کتابیں نہیں پڑھنی چاہئیں ، یہ انسان کو طرزکہن سے ہٹاتی ہیں، اقبال نے کہا تھا کہ

آئین نو سے ڈرنا ، طرزکہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں‌کی زندگی میں

سیدمنورحسن خالص سرخے تھے لیکن پھر سبز ہوگئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی تبدیلی لانا بھی بڑے دل گردے کا کام ہوتاہے۔ ورنہ انسان ساری عمر چونکہ، چنانچہ اور اگر، مگر کرتے ہی گزار دیتاہے۔ مداہنت، مصلحت کی زندگی ہی گزارے چلاجاتاہے۔ سید کی زندگی میں ان بے کار باتوں کی کوئی جگہ نہ تھی۔

میں نے سیدمنورحسن کی متعدد تقاریر سنیں، ایک تقریر کا منظر آج تک اوجھل نہیں ہوپایا، لاہور کی مشہور جلسہ گاہ موچی دروازہ کے باہر سڑک پر جماعت اسلامی نے ایک بڑا جلسہ کیا، یہ نوازشریف کا پہلا یا دوسرا دورتھا۔ سیدمنورحسن نے ایک طویل تقریر کی جس نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کی سوچ و فکر کو بالکل تبدیل کردیا، انھوں نے نوازشریف پر نہایت کڑی تنقید کی، اس قدرسخت تقریر شاید ہی کسی کے بس کی بات ہو۔ جب وہ تقریر ختم کرکے اپنی نشست کی طرف بڑھنے لگے تو قاضی حسین احمد، امیرجماعت اسلامی پاکستان اٹھے اور انھوں نے سید منورحسن کی پیشانی پر بوسہ ثبت کیا۔

سید منورحسن پہلے کراچی جماعت کی قیادت کرتے رہے، بعدازاں مرکزی سیکرٹری جنرل بنے، جماعت اسلامی اُس وقت اپنے سیکرٹری جنرل کو ” قیم “ کہتی تھی۔ عمومی طور پر ایک امیر کے مزید امارات سے انکار کے بعد جماعت اسلامی کے ارکان سیکرٹری جنرل ہی کو امیرجماعت اسلامی منتخب کرتے تھے، قاضی صاحب نے صحت کی خرابی کے باعث اپنے ارکان سے کہا کہ وہ کسی اور کو امیر منتخب کرلیں، تب ارکان جماعت نے سید منورحسن ہی کو منتخب کیا۔

اس وقت میں نے جماعت اسلامی کے ارکان کے اس فیصلے کے بارے میں بہت سوچا، مجھے لگا کہ جماعت کی امارت کے لئے سید منورحسن سے زیادہ زیادہ موزوں شخص کوئی نہ تھا۔ ان کے امیر جماعت بننے پر ہمارے بعض تجزیہ نگار، کالم نگار سخت تلملائے۔ سبب یہ تھا کہ جماعت اسلامی اسٹیبلشمنٹ سے دوستی والا رشتہ قاضی حسین احمد کے دور ہی سے ختم کرچکی تھی۔ اس دوستی کے خواہش مندوں کا خیال تھا کہ قاضی صاحب کے بعد اگلا امیر جماعت کو واپس اسی ٹریک پر لے آئے گا اور جماعت جو اپنی دعوت، تربیت سب کچھ بھول کر دوسروں کو اپنے کندھوں‌پر بٹھا کر ایوان اقتدار میں پہچانے کے کھیل میں پڑچکی تھی ، مزید اسی کھیل میں‌ الجھی رہے گی۔

سید منورحسن کے آنے سے جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے دوبارہ ہاتھ ملانے کے امکانات مکمل طور پر ختم ہوگئے تھے۔ جماعت کو ایسا امیر ملا جو ضیا الحق کے مارشل لا کا سخت مخالف تھا حالانکہ اس وقت کے امیرمیاں‌طفیل محمد ضیا الحق کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔

2001 میں پاکستان امریکی جنگ میں شامل ہوا تو قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی نے جنرل پرویزمشرف کی امریکا نواز پالیسیوں کی سخت مخالفت کی حتیٰ کہ جنرل پرویز نے قاضی صاحب کو غیرمتوازن شخص قراردیا۔ اس وقت امریکی استعمار کے خلاف نعرے لگانے والی جماعتیں بھی امریکی ڈالروں سے جھولیاں بھرنے میں سرگرم تھیں۔ وہ پیپلزپارٹی ہو یا اے این پی۔

سید منورحسن امیر جماعت بنے تو انھوں نے امریکا کی جنگ کے تناظر میں ایسے سوالات اٹھائے اور ایسی باتیں کہیں کہ ایک طوفان بپا ہوگیا۔ اس وقت امریکا کے سب دیوانے خوب زور سے چیخنے چلانے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نوازشریف سمیت بڑے بڑے سیاست دان اسٹیبلشمنٹ‌ کے سامنے چوں‌ نہیں کرتے تھے۔ سیدمنورحسن نے جو کہا، اس پر بہت سوں کا خیال تھا کہ شاید اب جماعت اسلامی وضاحت کے عنوان سے معذرت کرے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ پوری کی پوری جماعت اسلامی اپنے امیرکے ساتھ کھڑی ہوگئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو باتیں اس وقت سیدمنورحسن نے کہیں، وہی باتیں آنے والے برسوں میں پاک فوج کے ترجمان نے بھی کہیں، امریکی جنگ کو پہلے اپنی جنگ کہا جاتا تھا پھر امریکی جنگ کہا گیا، غیروں کی جنگ کہا گیا۔ سیدمنورحسن امریکا کے خلاف اسامہ بن لادن اور ان کے گروہ کی جدوجہد کو جائز سمجھتے تھے، اس وقت وہ تنہا آواز تھی، ابھی گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے پورے شعور کے ساتھ اسامہ بن لادن کو شہید کہا۔ جناب عمران خان نے پہلے انھیں‌ ہلاک کہا لیکن پھر اپنا جملہ درست کیا اور انھیں شہید قرار دیا۔

کہاجاتاہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک واضح موقف اختیار کرنے پر جماعت اسلامی کے ارکان نے سید منورحسن کو اگلی مدت امارت کے لئے منتخب نہ کیا۔ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ میری رہائش جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ کے بہت قریب تھی، جامع مسجد منصورہ کے قاری وقاراحمد چترالی نہایت دل نشین اندازمیں تلاوت قرآن مجید کرتے تھے، اسی خاطر نماز فجر وہاں پڑھنے جاتا۔ بعض اوقات باجماعت نماز کے وقت سے کافی پہلے پہنچ جاتا، دیکھتا کہ سیدمنورحسن تن تنہا، کامل خشوع وخضوع سے نوافل ادا کئے جارہے ہیں، اس دوران مجھے ان کی صحت میں شدید خرابی کے آثار بھی نظر آتے تھے۔

2014 میں ان کی مدت امارت ختم ہونی تھی ۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اپنے ارکان کی سہولت کی خاطر تین نام تجویز کرتی ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی امیرجماعت منتخب کرسکتے ہیں۔ جماعت کے ارکان ان تینوں‌ ناموں‌کے علاوہ بھی کسی فرد کو امیر منتخب کرسکتے ہیں۔

سیدمنورحسن نے مجلس شوریٰ کے اجلاس میں کہا کہ ان کی صحت کافی خراب ہوچکی ہے، اس لئے امارت کے اگلے انتخابات کے لئے مجوزہ ناموں‌میں ان کا نام شامل نہ کیا جائے۔ تاہم مجلس شوریٰ کے اراکین کا خیال تھا کہ اگر سید منورحسن کا نام شامل نہ کیا گیا توعمومی تاثر یہی بنے گا کہ جماعت نے فوج کی پالیسی کے خلاف بیان دینے پر سید صاحب کو فارغ کردیاہے۔ اس لئے سید صاحب کی معذرت قبول کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ بھی ارکان جماعت کو بھیجا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ارکان جماعت نے سید صاحب کی معذرت قبول کرلی اور جناب سراج الحق کو نیا امیر منتخب کرلیا۔

بعدازاں جب تک سید منورحسن کی صحت نے اجازت دی، وہ جناب سراج الحق کی صدارت میں ہونے والے مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے۔ یہ ایک خوبصورت روایت ہے کہ جماعت اسلامی میں عہدوں سے لوگ دور، بہت دور بھاگتے ہیں، کوئی شخص نیا امیر منتخب ہوتاہے تو سب سے زیادہ خوشی ، اطمینان اور سکون کا اظہار سابق ہونے والا امیر ہی کرتا ہے۔ وہ الگ دھڑا بنا کر نہیں بیٹھ جاتا بلکہ نئے امیر کو اپنا امیر سمجھتاہے۔

معروف صحافی جمال عبداللہ عثمان کہتے ہیں:
بیٹی کی شادی ہوئی۔ ملک کی اہم ترین سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ بلامبالغہ لاکھوں روپے کے تحفے تحائف آئے ہوں گے۔ لیکن تقریب ختم ہوئی تو کہنے لگے:
”یہ جتنے تحفے ہیں، انہیں لے جاکر جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرادیں۔ یہ میری ذات کے لیے نہیں آئے، یہ جماعت اسلامی کے منصب کے باعث مجھے ملے ہیں۔ سو ان پر حق بھی جماعت اسلامی کا ہے۔“

سیدمنورحسن، نظریاتی جدوجہد کا ایک مکمل اور بھرپور دور تھے۔ پاکستانی قوم ایسے لوگوں سے محروم ہوتی جارہی ہے، اور اسے کہتے ہیں قحط الرجال۔ جب قحط الرجال ہوجائے تو پھر تنزلی اور پستی کا سفر تیز ہوجاتاہے۔ مجھے اس وقت سیدمنورحسن ایسا شعور اور جرات رکھنے والا کوئی سیاست دان نظر نہیں آتا۔ جماعت اسلامی کو ایسےلوگ پیدا کرنے چاہئیں، یہ کام جماعت اسلامی ہی کرسکتی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں