Android Founder

اینڈرائیڈ کی محبت

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد بلال اکرم کشمیری

آپ نے اینڈرائیڈ (Android)کا نام تو سنا ہوگا۔آج تقریبا ً زیادہ تر سمارٹ فونز اور ٹیبلٹس میں گوگل کا بنایا ہوا اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم موجود ہے ۔اس آپریٹنگ سسٹم کے متعارف ہوتے ہی بہت سی موبائل کمپنیوں نے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم (OS) کے لیے موبائل بنائے ۔ان کمپنیز میں سیم سنگ سر فہرست رہی جس نے گلیگسی کے نام سے باقاعدہ ایک سیریز شروع کی اور ایپل کے مقابلے میں آگئی۔

یہ مسابقت تاحال جاری ہے ۔بہت سے قارئین کے ذہن میں یہ بات ہو گی کہ شاید گوگل نے اس آپریٹنگ سسٹم  کو بنانےکے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کوئی اصطلاح استعمال کی ہے۔مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے ،چلیے آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اینڈرائیڈاصل میں ہے کیا ؟

لفظ اینڈرائیڈ تقریبا ً ایک ہزار برس قبل بھی موجود تھا ،جس کا معنی ہے ’’انسان جیسا‘‘،لفظ ’’Android‘‘ یونانی زبان سے ماخوذ ہے ،جو دولفظوں سے مل کر بنا ہے ۔’’Andro‘‘کا معنی ’’انسان‘‘ جب کہ ’’eides‘‘ کا معنی ’’جیسا ‘‘ یا ’’شکل و صورت ‘‘ ہے۔تو اگر ہم اس کو جوڑیں تو ترجمہ بنتا ہے ’’انسان جیسا‘‘۔12ویں صدی عیسوی میں البرٹ میگنس نے جب خودکاری (automaton) کے تصور کو متعارف کروایا تواسے اینڈرائیڈ کا نام دیا ۔

موجودہ دور کی اصطلاح میں بات کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ جب البرٹ نے روبورٹ بنایا تو اسے ’’انسان جیسا ‘‘ کہا۔اور یہاں سے ہمیں اس بات کا بھی پتہ چل گیا کہ جو پہلا روبوٹ تھا اس کا نام ’’اینڈرائیڈ‘‘ تھا۔البرٹ میگنس (1206-1280)کو اس دور کے لوگ ایک جادوگر اور بہترین کیمیا دان تصور کر تے تھے ۔اس وقت کے ادب کے مطابق البرٹ نے دھاتیں اور مادے تخلیق کرنے کے لیے مافوق الفطرت اشیا کا سہارا لیا۔پھر اس نے ان دھاتوں کو ستاروں اور سیاروں کے مطابق استعمال کیا،تب جا کر اس نے ’’اینڈرائیڈ‘‘ کو تخلیق کیا۔

بعض دستاویزات کے مطابق اسے ربورٹ بنانے میں تیس برس کا عرصہ لگا۔وہ ربورٹ بول سکتا تھا ،سوچ سکتا تھا اور کچھ کا اعتقاد ہے کہ اس میں روح بھی تھی،لیکن اس کی یہ ایجاد زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور البرٹ کے ایک شاگرد سینٹ تھومس ایکواینس (St Thomas Aquinas)نے اس ’’اینڈرائیڈ‘‘ کو یہ کہہ کر تباہ کر دیا کہ یہ شیطانی چرخہ ہے ۔

ناول:مستقبل کی عورت

                        اینڈرائیڈ کا تذکرہ 1863میں امریکی پیٹنٹ میں ملتا ہے ،جہاں چھوٹے انسان یا خو د کار کھلونے بنانے کے لیے اس کا استعمال کیا جا تا تھا تاہم اسے شہرت 1886میں ملی جب ایک مشہور فرنچ مصنف اگسٹ ویلیئرز (Auguste villiers)نے اسے اپنے سائنس فنکشن ناول ’’دی فیوچر ایو‘‘ (The Future Eve) (مستقبل کی عورت)میں استعمال کیا۔ناول میں سائنس دان ایڈسن ایک میکینکل لڑکی بناتا ہے جس کا نام وہ  ہاڈالے(Hadaly) رکھتا ہے ،اینڈرائیڈ ہاڈالےنہ صرف خوبصورت ہوتی ہے بلکہ وہ ذہین اور مضبوط شخصیت کی مالک بھی ہوتی ہے ۔

اسی ناول میں ایک اور کردار لارڈ ایوالڈ(Lord Ewald)ہے جو خودکشی کرنا چاہتاہے اس کہ وجہ اس کی منگیتر ایلیسیا کلیرے(Alicia Clary) ہے جو ایوالڈ کو کہتی ہے کہ وہ جسمانی طور پر تو ٹھیک ہے لیکن جذبات اور احساسات سے خالی ہے ،منگیتر کی یہ بات اسے مایوسی میں دھکیل دیتی ہے جس کے بعد وہ خود کشی کا فیصلہ کرتا ہے مگر اسی دوران اس کی ملاقات ایڈسن سے ہوتی ہے جو ایوالڈکے لیے ایک اور ’’اینڈرائیڈ‘‘ اس کی منگیتر کے نام پرتیار کرتا ہے۔جو بالکل اس کی منگیتر ایلیسیا سے ملتی ہے مگر اس کی شخصیت سے خالی ۔

ایوالڈاس کی محبت میں دیوانہ ہو جاتا ہے اور اس کے ہمراہ  بحری جہاز  پرنامعلوم منزل کی جانب روانہ ہوجاتا ہے۔لیکن منزل پر پہنچنے سے قبل ہی بحری جہاز  ڈوب جاتا ہے اور اس طرح   ایوالڈ لارڈ اور ’’اینڈرائیڈ‘‘ کی کہانی بھی تمام ہوجاتی ہے ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں