لاک ڈاﺅن کے دنوں سے ہم نے کوشش کی کہ سوشل میڈیا پر گزارے گئے کچھ گھنٹے کم کر کے پھر سے کتابیں پڑھی جائیں۔ اس پر یکسو ہوچکا ہوں کہ ”سوشل میڈیا“ بھی اپنی طرز کا بلیک ہول ہی ہے۔
بلیک ہول کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہوں گے، وہی جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ پوری کائنات ہڑپ کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا بھی انسان کی توجہ، خیال ، یکسوئی غرض ہرچیزکو اپنے اندر کھینچ لیتا ہے۔ آدمی کے سینکڑوں، ہزاروں گھنٹے یہاں غائب ہوجاتے ہیں۔ بہت بار تین چار گھنٹے فیس بک یا ٹوئٹر پر گزارنے کے بعد آپ واپس دنیا میں لوٹتے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے سوچتے ہیں کہ کیا حاصل ہوا، جواب منفی میں ملتا ہے۔ ملا کچھ نہیں،
الٹا جدید محاورے کے مطابق دماغ کا دہی بنا اورکمنٹس کرتے رہنے سے سردرد شروع ہوگیا۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، کئی بار آپ کو اچھی چیزیں مل جاتی ہیں، ٹرینڈز کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ آخری تجزیے میں سوشل میڈیا مگربرائی ہی ہے۔ کمتر برائی کہہ لیں۔ برائی کا لاحقہ اس سے الگ نہیں ہوسکتا۔
اس لئے اصول یہ بنانا چاہیے کہ سوشل میڈیا پرطے شدہ وقت گزارا جائے۔ ان لوگوں کا انتخاب کیا جائے جن کی رائے جاننا چاہتے ہیں، کمنٹس کے لئے مزید کنجوسی دکھائیں۔ مخصوص وقت سے زیادہ ہرگز نہ گزارا جائے۔ اچھا ہے کہ الارم لگا لیں، پوسٹیں پڑھتے پڑھتے وقت گزرنے کا اندازہ نہیں ہوپاتا۔ ایک اور اصول کہ گھر میں موبائل پر فیس بک سے لاگ آﺅٹ کر لیا جائے تاکہ ایک آپشن کم ہوجائے، واٹس ایپ پرضروری میسج بھی آ جاتے ہیں، اس لئے اسے رکھیں، مگر ویڈیوزدیکھنے سے گریز کریں۔
ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر کتابیں پی ڈی ایف میں پڑھنے کی عادت ڈالنا شروع کی ہے، بعض ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں قانونی طور پر پی ڈی ایف پڑھی جا سکتی ہیں، جیسے ریختہ۔ کئی چیزیں ریختہ اور دیگر جگہوں سے پڑھ رہا ہوں۔ ایک ویب سائٹ کے لنک پر نہایت ضخیم مگر حیران کر دینے والا ناول ”نمل “جون کی ابتدا میں پڑھا۔
مئی میں معروف فکشن نگار طاہر جاوید مغل نے اپنامقبول سلسلے وار ناول دیوی بھجوایا۔ طاہر جاوید مغل کا میں کالج، یونیورسٹی کے زمانے سے مداح ہوں۔ ان کا سلسلہ وار ناول تاوان سرگزشت میں شائع ہوتا رہا، دس گیارہ سال یہ چھپتا رہا اور ہم جیسے مداحین ہر ماہ بے تابی سے نئی قسط کا انتظارکرتے۔ تاوان نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا۔
سرگزشت بہت مختلف مزاج کا پرچہ تھا، اس میں بائیوگرافیز ہی شائع کی جاتی تھیں۔ مکرمی سید انور فراز اس کے مدیر تھے، انہوں نے خوب جان مار کر اسے چمکایا اور مقبول بنایا۔ علی سفیان آفاقی مرحوم فلمی الف لیلہ لکھتے تھے، جو بے حد مقبول ہوئی۔ طاہر جاوید مغل نے تاوان کے بعد للکار، پرواز، دیوی، انگارے جیسے سلسلہ وار ناول لکھے، وہ ایک زمانے میں تاریخی ناول بھی لکھ چکے ہیں۔ آندھی سات حصوں پر مشتمل ہے،
صدیوں سے بھوکے پیاسے شخص کی طرح میں نے یہ تمام حصے دو ڈھائی دن میں پڑھ ڈالے۔ مغل صاحب میری سپیڈ کا سن کر حیران رہ گئے۔ انہیں کیا معلوم کہ ایک زمانے میں کرائے کی لائبریریوں کے پانچ روپے بچانے کے لئے ہم نے کیسے کیسے کشٹ کاٹے اور کتنی محنت سے اپنی سپیڈ بنائی۔ آج کل تو ایسی لائبریوں کا نام بھی کوئی نہیں جانتا، ضرورت بھی شائد نہیں رہی۔
دو تین دن پہلے تین نہایت دلکش، خوش رنگ کتابیں ایک ساتھ ہاتھ آئیں۔ شہرہ آفاق فرانسیسی ناول نگار بالزاک کا ناول یوجین گرینڈ کا اردو ترجمہ ” تاریک راہوں کے مسافر“، خوشونت سنگھ کی کتاب پنجابی، پنجاب اور پنجابیت جبکہ ایک کتاب عالمی ادب سے ترجمہ شدہ افسانوں کی تھی جو ادبی جریدے تسطیر میں شائع ہوتے رہے۔
خوشونت سنگھ کی فکر اور نظریات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں، ان کی تحریر کا مداح ہوں۔ دلی اور ٹرین ٹو پاکستان سے لے کر آپ بیتی، لیسنز آف لائف تک کئی کتابیں پڑھ رکھی ہیں، ان کے کالموں کے مجموعے اور بعض متنازع کتابیں بھی شامل ہیں۔ پنجابی، پنجاب اور پنجابیت ان کی آخری کتاب ہے ، جومرنے کے بعد بیٹی نے شائع کی۔ دلچسپ لگی۔
ان سب میں بالزاک کے ناول کی بات ہی کچھ اور ہے۔ بالزاک(Balzac) کا دور فرانسیسی انقلاب کے بعد کا ہے(1799-1850ئ) ۔بالزاک نے نیپولین کاعہد دیکھا ، اس کا خاصا تخلیقی کام فرانسیسی مرد آہن کے بعد کا ہے۔ بالزاک کا مشہور فقرہ ہے کہ جو کالم نیپولین اپنی تلوار سے نہ کر سکا، میں وہ اپنے قلم سے کروں گا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ بالزاک نے ایسا کر دکھایا۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ بالزاک کو اس کے ایک فقرے کی وجہ سے جانتے ہوں گے، وہی فقرہ جو میاں نواز شریف کو لے ڈوبا ، جس کا الزام گاڈ فادر ناول کے مصنف ماریاپزو پر گیا، حالانکہ وہ ماریا پزو کی تخلیق نہیں تھا،” دولت کے ہر انبار کے پیچھے کوئی جرم پوشیدہ ہوتا ہے۔“
بالزاک کو یورپی لٹریچر میں حقیقت نگاری (Realism) کے بانی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اس نے حیران کن جزئیات کے ساتھ اپنے ناولوں کے کردار تخلیق کئے، ان کا ایسی باریکی اور عمدگی سے نقشہ کھینچا کہ یوں لگتا ہے جیسے کردار سامنے آ گیا۔ یہ بالزاک کا کمال تھا۔ اس کے کردار بھی عجیب ہیں، مختلف تضادات کے شکار، بلیک اینڈ وائٹ کے بجائے گرے۔
کچھ برائی میں ایسے لتھڑے کہ کسی لمحے بھی انہیں رحم نہ آئے، بعض اتنے نیک اور اچھے کہ برا خیال چھو کر نہ جائے ، بہت جگہوں پر امتزاج۔ انسان بھی ایسے ہی ہوتے ہیں، بالزاک نے اپنے عہد کی تصویر ہی کھینچی تھی۔ نیپولین کے بعد کے فرانس کی سب سے عمدہ عکاسی ان کی تحریروں سے ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس نے فرانسیسی زبان کو سنوارا ، اس میں گراں بہا اضافہ کیا۔ بالزاک کو زیادہ نہیں پڑھ سکا، ”بڈھا گوریو“ پڑھنے کے بعد البتہ اس کی عظمت سے مسخر ہوگیا۔ عسکری صاحب نے بڈھا گوریو کے ترجمہ کی بہت تعریف کی ہے۔
” یوجین گرینڈ “ بھی بالزاک کا مشہور ناول ہے، اس نے ہیومن کامیڈی کے نام سے درجنوں ناول لکھے ، پچاس کے لگ بھگ، کسی نہ کسی تعلق کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ اس کی ابتدا یوجین گرینڈ سے ہوئی۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والا ساہوکار، مقامی طور پر امیر ترین شخص موسیو گرینڈ اور اس کی معصوم، نیک دل بیٹی یوجین گرینڈ۔ ناول کمال ہے،
اس کا ترجمہ بھی برادرم رﺅف کلاسرا نے بہت عمدہ کیا ہے۔ ابتدائی چند صفحات پڑھنے ہی سے بالزاک کی عظمت کا پتہ چل جاتا ہے، اس نے قصبے کے مکانات کی ناقابل یقین جزئیات نگاری کے ساتھ ذکر کیا، ناول میں ہر کردار کو یوں دکھایا کہ پڑھنے والے شریک سفر رہتے ہیں۔ رﺅف کلاسرا نے لفظی ترجمہ کرنے کے بجائے قدرے آزاد انداز اپنایا، اس سے تحریر عام فہم اور بہت رواں ہوگئی۔
ایک دلچسپ کام یہ کیا کہ بعض جگہوں پر سرائیکی لفظ اور اصطلاحات بھی استعمال کر ڈالیں۔ ہم سرائیکی تو اس پر خوش ہوئے، ممکن ہے کوئی ٹھیٹ اردو دان اس پر ناک بھوں چڑھائے۔ جب ملازمہ کہتی ہے کہ سئیں تین آدمیوں کے لئے ناشتہ بنانا ہے تو یہ سئیں خوب لگا، یاد رہے کہ سندھی کا سائیں سرائیکی میں آ کر سئیں ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ملازمہ یا کسی اور کردار کی مظلومیت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ شودی لڑکی پریشان ہوگئی۔ سرائیکی میں” شودی“ کا لفظ اردو لفظ بے چارے کی جگہ پر استعمال ہوتا ہے، مگر شودی میں کہیں زیادہ شدت ہے، خاص کر جب کوئی سرائیکی اسے بولے تو وہ شووودی کہے گا، اس کا صوتی تاثر مزید المیہ بنا دیتا ہے۔
رﺅف کے مرحوم بھائی ڈاکٹر نعیم کلاسرا کمال کے سخن فہم، ادب دوست انسان تھے۔ انہوں نے گارشیا مارکیز کے ناول ”تنہائی کے سو سال“ کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ اس میں ایک آدھ جگہ پر اسی انداز میں سرائیکی کا لفظ استعمال کر ڈالا، غالبا علاقے کے لئے” وسیب “ لکھا تھا۔
میری طالب علمانہ رائے کے مطابق اردو میں موزوں اظہار کے لئے علاقائی زبانوں کے الفاظ آسکتے ہیں، ماہرین زبان اس بارے میں زیادہ بہتربتا سکتے ہیں، بہرحال تجربہ برا نہیں۔ ڈاکٹر نعیم بالزک کے زبردست مداح تھے۔ تاریک راہوں کے مسافر(یوجین گرینڈ)پڑھنے کے بعد یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ رﺅف کلاسرا نے اپنے بڑے بھائی کی روح کو سرشار کیا ہوگا۔
بک کارنر، جہلم نے یہ خوبصورت کتاب شائع کی، ایسی نفیس اور دلکش کتابیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔دونوں بھائیوں گگن شاہد، امر شاہداور ان کے والد شاہد صاحب کو اس کا کریڈٹ دینا چاہیے ۔
آخر میں بالزاک کا ایک خوبصورت جملہ جو اس نے اپنے سب سے مشہور ناول بڈھا گوریو میں لکھا:”انسانی دل محبت کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے ممکن ہے کہیں سستانے کے لئے ٹھیر جائے،لیکن نفرت کی ڈھلوان پر رکنا محال ہے۔“ دیکھئے کیسی عالمگیر حقیقت کتنی سادگی سے بیان کر دی۔