حاجی محمد یوسف، محمد عمر، امرکوٹ عمرکوٹ، سندھ

عمرکوٹ کو آباد کرنے والے باپ، بیٹا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمنہ عمر:

صحرائے تھر سے کون واقف نہیں۔ اس بیابان میں ایک ٹیلے پہ شہر امرکوٹ واقع ہے جو اب عمرکوٹ کے نام سے مشہور ہے۔ عمرکوٹ بھارتی ریاست راجستھان کے بارڈر سے جڑے پاکستان کے صحرائی علاقے کا ایک شہر ہے جو بھارت سرحد کے قریب آباد ہے۔ رات کے وقت عمرکوٹ کی ایک یونین کونسل کھوکراپار کے بلند مقامات سے ایل او سی کی چمکتی بتیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔

قیام پاکستان کے وقت میرے بابا محمد یوسف (یعنی داد جنھیں ہم بابا کہتے تھے) لمبے، تڑنگے، قدآور اور بردبار شخصیت کے مالک نوجوان پولیس میں بطور سپاہی تعینات تھے، ان کی ڈیوٹی امرکوٹ کی خارجی حدوں پر تھی۔ پاکستان کے وجود میں آتے ہی میرے بابا دین اسلام کی محبت میں اپنے ماں باپ، تین بھائی بیوی ایک بیٹے یامین اور دو بہنوں سے جدا ہوکر تنہا امرکوٹ آ بسے۔

امرکوٹ اس وقت بالکل چھوٹا صحرائی شہر ایک اجاڑ بیابان کا منظر پیش کرتا تھا۔ جہاں دور دور تک ویرانی پھیلی ہوتی تھی۔ ایسے حالات میں وہاں بسیرا کرنا کوئی بھی پسند نہ کرتا۔ ہجرت کے دو تین برس بعد ہی خدا پر بھروسہ کرکے بابا نے پولیس کی محفوظ اور دبدبے والی سرکاری ملازمت سے جماعت اسلامی کی رکنیت کی خاطر استعفی دے دیا، اور اماں اور خالو ( دادی اور تایا) کو بھی لے آئے۔

جماعت اسلامی کے رکن بن کر میرے بابا واقعی ”مرجع خلائق“ بن گئے۔ صبح و شام لوگوں کی خدمت پر کمربستہ ہوگئے۔ علم سے محرومی اور بےبسی میں گھری عوام کی رہنمائی کے لیے ہر ممکن کوشش میں جڑ گئے۔

سائلوں کے ساتھ سرکاری دفاتر کے چکر لگانا، مریضوں کیلئے علاج اور دوا دارو کا انتظام کرنا، غریبوں اور بے کسوں کیلئے ہر ممکن جستجو کرنا یہاں تک کہ اماں کا زیور بیچ کر قیدی رہا کرانا، بھوک کے ماروں کیلئے کھانے کا بندوبست کرنا، مردوں کو غسل دینا۔ ایسے مردوں کو بھی غسل دیا جو قریبی گٹر کی نہر میں بہتے ہوئے کنارے پہ ملتے جنھیں کوئی ہاتھ نہ لگاتا، بے سہارا نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادی کرانا۔
بابا کو جماعت اسلامی اور مولانا مودودی سے والہانہ محبت اورعقیدت تھی۔ جب مولانا کا نام لیتے زارو قطار عقیدت میں آنسو بہاتے، لوگوں میں لٹریچر کی تقسیم اور دعوتی سرگرمیوں میں ہمہ وقت مشغول رہتے۔ اسی بناء پر انہیں جماعت اسلامی عمرکوٹ کا پہلا امیر منتخب کیا گیا۔

اسی زمانے کا دلچسپ واقعہ ہے کہ وہ سید ابوالاعلی مودودی کی خدمت میں مٹھائی کا ڈبہ لے کر لاہور پہنچ گئے۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ یوسف صاحب! مٹھائی کس بات کی تو بابا (دادا کو ہم بابا کہتے ہیں) نے جواب دیا کہ مولانا صاحب کچھ عرصہ پہلے سالے جی بھی بھارت سے لاہور آباد ہوگئے ہیں۔ ان کی دو بیٹیوں سے اپنے بڑے لڑکوں یامین اور عمر کی بات طے کی ہے لہذا آپ کی خدمت میں میٹھا لے آیا ہوں۔ مولانا نے کہا ارے یہاں تک آگئے! کہاں آپ کی محبت لے آئی ہے۔

شہرآباد کرتے ہوئے جہاں بیابان کے سوا کچھ نہ تھا، نیا کاروبار ہوٹل سے شروع کیا تو کئی گھر جنھیں روکنے پہ آمادہ کیا جب تک ان کے کاروبار نہ تھے مفت کھانے فراہم کرتے رہے۔ اولاد کی ایسی بہترین تربیت کی کہ لوگ کہنے پر مجبور ہوئے، کسی کو اگر اپنی اولاد کی تربیت کروانی ہو تو حاجی محمد یوسف کے گھر اپنے بچے چھوڑ دے۔ خدمت اور تربیت دیکھ کر لوگ ایسے گرویدہ ہوئے کہ عمرکوٹ شہر کے ایدھی کہلانے لگے۔

یہی جذبہ یہی شوق ان کی اولاد میں بھی منتقل ہوا۔ جماعت اسلامی کے بڑے بڑے رہنما گھر آنے لگے، ساتھ ساتھ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنی تنظیم مضبوط کرتی رہیں مگر ان باپ بیٹوں کی تو کشش ہی اور تھی۔
اس زمانے میں عمرکوٹ میں ہندووں کی اکثریت تھی اور مسلمان اقلیت میں ہوتے تھے۔ اسی وجہ سے کئی اسلامی شعائر پر عمل درآمد مشکل تھا۔ ایسے ماحول میں اسلامی شعائر کو زندہ کیا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ آزادی کے باوجود عمرکوٹ میں مسلمان تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے گائے ذبح کرنے سے ہچکچاتے تھے۔ بابا نے گائے اسی جگہ ذبح کرکے دکھائی جہاں قدیم مندر واقع ہے۔

آج بھی آبادی کے تناسب سے مسلم آبادی کم لیکن بٹوارے کے وقت کی نسبت زیادہ ہے جب کہ ہندو اکثریت میں ہی موجود ہیں مگر مذہبی ہم آہنگی خوب ہے اس لیے الحمداللہ مذہبی فسادات کا نام و نشان نہیں۔

جماعت کو پزیرائی نہ مل سکی تو بابا نظریہ جماعت کو لے کر مسلم لیگ فنکشنل کا حصہ بن گئے۔ ساتھ ہی بیٹے عمر خان (میرے والد محترم) کو رکھا اور ابو کو بھی سیاست برائے خدمت کے اصول پر تربیت اور نصیحت کرتے رہے، شہر میں ایم پی اے، ایم این تیار کیے، انھیں سیاست کرنا سکھائی، عوام سے محبت روادری اور مستحق لوگوں تک رسائی دلائی۔

محمد عمر المعروف بہ عمر بھائی سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کے جلسہ میں ان کے عقب میں کھڑے ہیں

زمانے نے کروٹ لی تو سیاست گدلی ہونے لگی لیکن وہ ہمیشہ بیٹوں کو اعلیٰ اخلاق و کردار اور خدمت کے راستہ پر چلنے کی تلقین کرتے رہے۔ اقتدار مقصد بنا تو بیٹے کو نصیحت کر کے الگ ہوگئے۔

پھر بیٹا میرے والد بھی سیاست و خدمت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ بنے۔ اس قبل فنکشنل لیگ میں بابا کے ساتھ رہے۔ کونسلر رہے،ناظم بنے ،چئیرمین بنے۔ اختلاف کی بعد پی پی پی جوائن کی تاہم آخری وقت تک سیاست سے پیسہ بنانے کی روش سے پرہیز کرتے رہے، انھوں‌نے جماعت اسلامی کو بھی نہیں چھوڑا، جماعت کی بڑی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوتے رہے، فنکشنل لیگ اور پیپلزپارٹی والے بھی اعتراض نہیں کرتے تھے،

محمد عمر، سابق وزیراعلیٰ سندھ مظفرحسین شاہ کے ساتھ

میرے والد اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علاقے کے عوام کی دل و جان سے خدمت کی اور مطمئن دل اور پاکیزہ روح کے ساتھ اس فانی دنیا سے 11مارچ 2008 کو رخصت ہوگئے۔ بابا سے یہ غم براداشت نہ ہوا تو3 ماہ 10 دن بعد بابا بھی رخصت ہوگئے، دم رخصت ان کے ہاتھ صاف تھے۔

عام سیاستدانوں کے برعکس ان کے ضمیر پر کرپشن اور غلط کاریوں کا الحمدللہ کوئی داغ نہیں تھا۔ جیب کالے دھن سے اور دل سیاست کی کالک سے آلودہ نہیں ہونے دیے۔ فنکشنل لیگ کے جادم منگریو کئی بار صرف دعا کرانے ان کے پاس آجاتے کہ حاجی یوسف صاحب! آپ درویش آدمی ہیں، میرے لئے دعا کریں۔

ان دو نسلوں کی دیانت کے ساتھ خدمت سے پوراعمرکوٹ واقف تھا۔ اس کا عملی مظاہرہ باپ اور بیٹوں کے جنازوں میں ہوا جن میں شہر اور قرب و جوار کے مسلمانوں، ہندوؤں سمیت دیگر شہروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بہت سے لوگوں نے ان جنازوں میں لوگوں کی والہانہ شرکت پر رشک کیا۔

محمد عمر المعروف عمربھائی

اس وقت کے ایم پی اے سید علی مردان شاہ نے کہا کہ اس نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا جنازہ کبھی نہیں دیکھا اور شاید اتنا بڑا جنازہ میرا بھی نہ ہو اور وقت نے ان کی بات کو سچ ثابت کیا حال ہی میں ان کی بھی رحلت ہوئی ہے۔

اس وقت کے ایم پی اے سید علی مردان شاہ نے کہا کہ اس نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا جنازہ کبھی نہیں دیکھا اور شاید اتنا بڑا جنازہ میرا بھی نہ ہو اور وقت نے ان کی بات کو سچ ثابت کیا۔ حال ہی میں ان کی رحلت ہوئی لیکن بقول مرحوم کے اس کے جنازے میں اتنی تعداد نہ ہوسکی جتنی کہ ابو اور بابا محترم کے جنازے میں رہی۔

بہت سی نامور شخصیات نے کہا کہ بخدا پہلی بار یہ خیال آیا کہ یہ جنازہ ان کا ہوتا۔ اہلِ تشیع کے مرکزی رہنما نے ابو کے لیے تعریفی نوٹ بک میں لکھا کہ لوگ کہتے ہیں عمر چچا نے سیاست سے کیا کمایا، میں اتنا پرسکون چہرہ اور جنازے کا یہ ہجوم دیکھ کہ کہتا ہوں بتاؤ کیا یہ کم کمایا ہے۔

موجودہ ایم پی اے سندھ کلچر ڈپارٹمینٹ کے وزیر سردار علی شاہ نے لکھا کہ عمرکوٹ کو ڈاکٹرز، انجنیئرز اور وکلا کے ساتھ ساتھ عمر بھائی جیسے عوامی کرداروں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کچی آبادی سے غریب و مسکین خواتین نے روتے ہوئے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ آج عمرکوٹ کا بادشاہ دنیا سے جا رہا ہے اللہ کے بعد ہمارا یہ واحد سہارا تھا آج اس کے بچوں کے ساتھ ذرہ ذرہ یتیم ہوگیا۔

میرے والد صاحب کے پاکستان کے سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو سے قریبی تعلقات تھے، جونیجو صاحب ابو کو اپنا بیٹا مانتے تھے اور کہتے تھے اپنے بیٹے اسد کے لیے اور میرے والد محترم کے لئے کہ یہ دونوں میرے بازو ہیں۔

ابو بچوں، بڑے بوڑھوں کے لئے عمر بھائی کے نام سے مشہور تھے، ہم سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ کس کی بیٹی ہو، ہم کہتے ہیں کہ عمر بھائی کی، تو لوگ ہنستے نہیں رکتے کہ اپنے ابو کو بھائی بول دیا، بتائو بھائی ہیں کہ ابو۔ ہم چونک کے کہتے بھائی، کہتے: ”نہیں آپکے ابو ہیں“۔

جب تک ابو اور بابا زندہ رہے انہوں نے اس ترقی پذیر علاقہ کے عوام کی ہر پلیٹ فارم پر رہنمائی کی اور خلوص سے خدمت کرتے رہے. خدمت کا اور جماعت اسلامی کا کام اب بھی ہمارے خاندان کے ذریعہ جاری ہے۔ الحمداللہ

اللہ ہمیں ہمارے بڑوں کی اس وراثت کا امین بنائے اور اس راہ پر اخلاص اور استقامت کے ساتھ عمل کرنے والا بنائے۔ آمین و وما توفیقی الا باللہ


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں