رضوان رانا، اردوکالم نگار

سود کے بغیر زندگی ممکن ہے، لیکن کیسے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا :

قرآن مجید فرقان حمید میں کچھ احکام اللہ تعالی نے براہ راست اپنے بندوں پر نافذ کیے جن میں سود نہ صرف سرفہرست ہے بلکہ اسکے متعلق اللہ تبارک و تعالی کا حکم بہت واضح اور اٹل ہے
قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

(ترجمہ) اے ایمان والو! سود دونے پر دونا نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارا چھٹکارا ہو۔ سورۃ آل عمران:130

(ترجمہ) جو لوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے دن وہ نہیں اٹھیں گے مگر جس طرح کہ وہ شخص اٹھتا ہے جس کے حواس جن نے لپٹ کر کھو دیئے ہیں یہ حالت ان کی اس لیے ہوگی کہ انہوں نے کہا تھا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسےسود لینا حالانکہ اللہ نے سوداگری کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے پھر جسے اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اوروہ باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا ہے وہ اسی کا رہا اور اس کا معاملہ الله کے حوالہ ہے اور جو کوئی پھر سود لے وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ سورۃ البقرہ:275

(ترجمہ) اور ان کو سود لینے کے سبب سے حالانکہ اس سے منع کیے گئے تھے اور اس سبب سے کہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ سورۃ النساء:161

سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں. ربا سے مراد معینہ مدت کے قرض پہ وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض خواہ مقروض سے کرتا ہے اور یہ شرح پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے.

اصل مال پر زیادتی ربا کہلاتی ہے لیکن شریعت میں ہر زیادتی کو ربا نہیں کہتے بلکہ وہ زیادتی جو مشروط ہو، سود ہے، شرط کے بغیر اگر مقروض ، قرض دینے والے کو خوشی سے کچھ زائد مال دے تو اسے جائز سمجھا جاتا ہے اور وہ سود کے زمرے میں نہیں آتا.

زیادتی دو قسم پر ہے، حرام وہ قرض ہے جو زیادتی کے ساتھ وصول کیا جائے یا اس سے فائدہ (بطور شرط) حاصل کیا جائے، وہ حرام ہے اور جو حرام نہیں وہ یہ ہے کہ مقروض مدت مقررہ پر اصل رقم پر بطور ہبہ کچھ اضافی مال قرض خواہ کو غیر مشروط دیدے.

شریعت اسلامی میں رباء کا مطلب تجارتی سودے کے بغیر اصل مال پر اضافی منافع وصول کرناہے لہٰذا قرض میں دئیے ہوئے اصل مال پر جو اضافی رقم مدت کے مقابلہ میں شرط اور تعیین کے ساتھ لی جائے وہ سود ہے.

اسی طرح اسلامی قوانینِ معیشت کے مطابق ایسا قرض لینے اور دینے کی قطعاً اجازت نہیں ہے جس قرض کے ساتھ بھی قرض خواہ متعین مدت کے ساتھ تہہ شدہ رقم کا مطالبہ کرے.

وہ سوائے سود کے اور کچھ نہیں کیونکہ یہ ضرورت مند کے ساتھ ظلم اور اس کا استحصال ہے، اور اسلام ایسے ظلم اور استحصال کے خاتمے کا درس دیتا ہے بلکہ اس کے مقابلے میں اسلام کا طرزِ معیشت خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہے، جس میں قرضِ حسنہ کو فروغ دیا گیا ہے.

اس کے ساتھ ساتھ نفع و نقصان کی شراکت کی بنیاد پر مضاربہ کی صورت میں سرمایہ کاری کو جائز قرار دیا گیا ہے.

فقہاء کے نزدیک مضاربت دو فریقین کے درمیان اس امر پر مشتمل ایک معاہدہ ہے کہ ایک فریق دوسرے کو اپنے مال پر اختیار دیدے گا کہ وہ نفع میں سے ایک مقررہ حصہ مثلاً نصف یا تہائی وغیرہ کے عوض مخصوص شرائط کے ساتھ اس مال کو تجارت (یا کاروبار) میں لگا لے.

سود کے متعلق قرآن پاک کا حکم پڑھنے اور سود کے معنی کو اسلام کے اصولوں کے مطابق سمجھ لینے کے بعد ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ کیسے آج کے حالات میں اس برائی سے اپنے آپ کو بچایا جائے اور معاشرے میں اس کی روک تھام کے لیے وہ کیا اقدام کیے جائیں جس سے ہم اللہ تبارک و تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کر سکیں.

اگرچہ بد قسمتی سے ہمارے پیارے ملک پاکستان میں بھی معیشت اور معاشی نظام کار مجموعی طور پر اسی سودی سسٹم کے مطابق چل رہا ہے مگر پھر بھی چند ایک ایسے اقدام ہیں جن کو اپنانے سے ہم انفرادی طور پر اس گناہ سے بچ سکتے ہیں جو اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے.

(1) روز مرہ ضرورت کے تحت بنک میں اپنا اکاؤنٹ صرف اور صرف کرنٹ اکاؤنٹ کھلوائیں جس میں جمع شدہ رقم پر منافع نہیں دیا جاتا اور آپ انٹرسٹ کی مد میں اضافی رقم بطور منافع لینے سے بچ جاتے ہیں.

(2) کسی ادارے یا بینک سے قرض لینے سے پرہیز کریں کیونکہ پاکستان میں ہر بینک دی ہوئی رقم پر انٹرسٹ چارج کرتا ہے جو سود ہے اور اسی طرح بینک میں اپنی جمع شدہ رقم پر منافع لینا بھی سود کے زمرے میں آتا ہے اس لیے اس سے بچیں.

(3) سود پر قرضہ لینے سے بچیں اور دنیاوی ضرورتوں کو بینک یا کسی بھی ادارے سے قرضہ لیے بغیر پورا کریں، کچھ دشواریاں، پریشانیاں آئیں تو اس پر صبر کریں.

(4) اگر ضرورت ایسی ہو کہ قرض لینا بہت ہی ضروری ہے تو کوشش کر کے قرض حسنہ دینے والے اشخاص یا اداروں کو تلاش کریں تا کہ آپ کی ضرورت بھی پوری ہو جائے اور آپ گناہ سے بھی بچ جائیں.

(5) اگر آپ کی رقم بینک میں جمع ہے تو اس پر جو سود مل رہا ہے، اس کو خود استعمال کیے بغیر عام رفاہی کاموں میں لگادیں یا ایسے غرباء ومساکین یا یتیم بچوں میں بانٹ دیں جو کمانے سے عاجز ہیں.

(6) اگر کوئی شخص ایسے ملک میں ہے، جہاں واقعی سود سے بچنے کی کوئی شکل نہیں ہے، تو اپنی وسعت کے مطابق سودی نظام سے بچیں، ہمیشہ اس سے چھٹکارہ کی فکر رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں.

(7) سود کے مال سے نہ بچنے والوں سے درخواست ہے کہ سود کھانا بہت بڑا گناہ ہے،اس لیے کم از کم سود کی رقم کو اپنے ذاتی مصارف میں استعمال نہ کریں، بلکہ اس سے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انکم ٹیکس ادا کردیں، کیوں کہ بعض مفتیانِ کرام نے سود کی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرنے کی اجازت دی ہے.

(8) جو حضرات سود کی رقم استعمال کرچکے ہیں وہ پہلی فرصت میں اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور آئندہ سود کی رقم کا ایک پیسہ بھی نہ کھانے کا عزمِ مصمم کریں اور سود کی رقم کو فلاحی کاموں میں لگادیں.

(9) اگر کسی کمپنی میں صرف اور صرف سود پر قرضہ دینے کا کاروبار ہے، کوئی دوسرا کام نہیں ہے تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا مناسب نہیں ہے، البتہ اگر کسی بینک میں سود پر قرضہ کے علاوہ جائز کام بھی ہوتے ہیں، مثلاً بینک میں رقم جمع کرنا وغیرہ تو ایسے بینک میں ملازمت کرنا حرام نہیں ہے، البتہ جتنا ممکن ہو بچنا چاہیے.

(10) اسی طرح اگر آپ کے ارد گرد کوئی قریبی عزیز سود کے معملات میں پھنس چکا ہے تو کوشش کریں اس کی گردن آزاد کروائیں اور ادا شدہ رقم اس کو بطور قرض حسنہ بتا یا لکھوا دیں. اور پھر قرض حسنہ لینے والے پر بھی فرض ہے کہ وہ پہلی فرصت میں احسان کا بدلہ جلد سے جلد قرض کی ادائیگی کی صورت میں ادا کرے.

اور اگر آپ نے سود پر کسی کو کوئی قرض دیا ہے تو اسے فوراً معاف کر دیں اور صرف اپنا اصل زر اس سے واپس لیں اور جھک جائیں اپنے رب کے حضور استغفار اور توبہ کے لیے جو سب سے بڑھ کر معاف فرمانے والا ہے.

یہ یاد رکھیں کہ ہمارے پیارے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
(آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے. وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے، چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کے دن میں اُن کا سود جو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں.(صحیح مسلم ، باب حجة النبی)

ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہ کرام نےعرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کون سے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما:

(1) شرک کرنا، (2) جادو کرنا، (3) کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (4)سود کھانا، (5) یتیم کے مال کو ہڑپنا، (6)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (7)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاء اور التجا ہے کہ ہماری غلطیوں کو معاف فرمائیں اور ہمیں دین کو سمجھنے ، قرآن کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں…!!!
آمین ثم آمین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں