جویریہ ریاض :
یہ ایک حیران کن لیکن پر لطف حقیقت ہے کہ پونو پیرو (puno peru ) شہر کے قریب جھیل ’ٹیٹیکاکا‘ میں تیرنے والے 42 جزیرے ہیں جہاں یوروس(Uros) لوگ رہتے ہیں۔ یہ لوگ پیرو، بولیویا اور ایکواڈور کے قدیم ترین باشندے ہیں، پانچ سو سال پہلے یہاں ان کی سلطنت قائم کی تھی۔ ان لوگوں کے بنائے ہوئے جزیرے اس وقت یہاں کی سیاحت کے زبردست مرکز و محور بنے ہوئے ہیں۔
ان لوگوں کی تصویریں پہلی بار 1940 میں نیشنل جیوگرافک میگزین میں شائع ہوئی تھیں، تب سے اب تک لوگ ان جزیروں کو دیکھنے کو آرہے ہیں۔ اب اسی بڑھتی ہوئی سیاحت کی وجہ سے جزیروں پہ مقیم یوروس کی زندگی میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ وہ اپنی اصل زبان بھولتے جارہے ہیں، اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ بھی سیاحت کے ذریعے کماتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ معاشی زندگی کی بنیاد سیاحت جہاں فوائد دیتی ہے ، وہاں کچھ مسائل بھی پیدا کرتی ہے ۔
بروس ٹوٹین ایک خوش قسمت انسان ہے جس نے2011ء میں جھیل ’ٹیٹی کاکا‘ کے تیرتے جزیروں کا دورہ کیا، اس نے ’یوروس‘ کی اور اپنے ناقابل فراموش سفر کی تصاویر بھی لیں جو اس مضمون میں شامل ہیں۔
انسانوں کے تیار کردہ یہ جزائر سرکنڈوں سے بنائے جاتے ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جتنا ان پہ چلا جائے اتنی ہی نمی ان میں جذب ہوگی اور یہ جلد خراب ہوجاتے ہیں لہذا ہر تین ماہ بعد ان میں نئے سرکنڈے شامل کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر جزیرے30 سال تک قائم رہ سکتے ہیں۔
ان جزائر کی دلچسپ خاصیت ان کا تیرنا ہے، اس کی بنیاد وہ گیسیس ہیں جو سرکنڈوں کے گلنے سڑنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ بڑے جزیروں پر دس کے قریب جبکہ چھوٹے جزیروں میں دو سے تین مکان بنائے گئے ہیں۔ پرانے وقتوں میں یہ جزائر دفاعی طور پر استعمال ہوتے تھے جنھیں اس طرح سے لنگرانداز کیا جاتا تھا کہ خطرے کے وقت بہ آسانی منتقل کیا جا سکے۔
یوروس کھانا پکانے کےلیے آگ کا استعمال کرتے ہیں، ان کے گھروں کی چھتیں بھی واٹر پروف ہیں۔ یہ لوگ بجلی کے حصول کی خاطر شمسی توانائی کو استعمال کرتی ہیں۔ ٹی وی، ریڈیو، لائٹس، سی ڈی پلئیروغیرہ۔ چھ گھروں میں آلات چلانے کےلیے سولر پینلز ہیں اور گھروں کو روشن رکھنے کےلیے بھی سولر لائٹس ہر گھر میں موجود ہیں۔ مزید برآں مرکزی جزیرے میں ایک ریڈیو سٹیشن بھی ہے جو دن میں کئی گھنٹوں تک موسیقی بجاتا ہے۔
ان جزیروں پر سکول بھی قائم ہیں، نتیجتاً زیادہ تر بچے تعلیم یافتہ ہیں، وہ سرکنڈوں کی بنائی گئی کشتیاں استعمال کرتے ہوئے مرکزی جزیرے کی طرف جاتے ہیں، وہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
کچھ کشتیاں سجاوٹ کے طور پر جانوروں کے سروں کی طرح دکھتی ہیں۔ یہاں کے باشندے اپنے آپ کو دھوپ سے بچانے کےلیے زیادہ تر اونی لباس اور ٹوپیاں پہنتے ہیں ، چوہوں کو گھروں سے دور رکھنے کےلیے یوروس کی پالتو بلیاں موثر کردار ادا کرتی ہیں۔
زیادہ تر افراد مرکزی جزیرے پر منتقل ہو گئے ہیں جبکہ چند سو ابھی بھی ان جزائر کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اور اہم بات، سطح سمندر سے ساڑھے بارہ سو فٹ بلند ہونے کی وجہ سے یہ جزائر کافی ٹھنڈے ہوتے ہیں۔
سیاحت یہاں آتے ہیں تو یوروس انھیں اپنی ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزیں فروخت کرتے ہیں، وہ اپنی مصنوعات مہنگے داموںہی فروخت کرتے ہیں۔ انھیں رعایت کرنے پر آمادہ کرنا کافی مشکل کام ہوتاہے۔
سیاح یہاں آتے ہیں تو ان کا پہلا اور سب سے اہم سوال یہی ہوتاہے کہ آپ یہ جزیرے کیسے بناتے ہیں؟ وہ یوروس کی ثقافت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں، بعض لوگ راتیں بھی یہاں گزارتے ہیں تاہم زیادہ تر دن کے وقت آتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔