طارق عزیز

طارق عزیز : مہکتے میٹھے مستانے زمانوں کا راج دلارا ہمارا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عزیزابن الحسن :

نیلام گھر شروع میں پسند تھا مگر پھر جوں جوں یہ مقبولِ عام ہوتا گیا توں توں اس کے فارمیٹ، اور اس سے کہیں زیادہ میزبان کے لگے بندھے جملوں، انداز و اطوار کی یکسانیت اور آواز و لہجے کی بناوٹی و نمائشی پیشکاری مجھے کھلنے لگی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ طارق عزیز میرے نیلام گھر سے متعارف ہونے سے کہیں پہلے اپنی فلموں کے زمانے سے بہت پسند تھا۔ میرے ساتھ یہ ہمیشہ سے مسئلہ ہے کئی پاکستانی اور ہندوستانی فلموں کے مرکزی ہیروؤں سے زیادہ عام طور پر کم مقبول اداکاروں سے مجھے زیادہ رغبت رہی ہے۔ جیسے پاکستانی فلموں میں قوی اور طارق عزیز، اور ہندوستانی فلموں میں سمیتا پاٹیل، نصیرالدین شاہ (جس نے اچھی فلموں کے ساتھ ساتھ بری فلموں میں بھی کام کرنے کا ریکارڈ قائم کیا اور بار ہا فلم دیکھتے ہوئے اسنے مجھ سے گالیاں کھائیں) منوج واجپائی(اس کی فلم دل پہ مت لے یار دیکھنے کی سفارش ہے) اور عرفان خان وغیرھما۔

تو بات تھی کہ طارق عزیز مجھے اپنی فلموں کی زمانے سے اپنی آواز لہجے اور مکالمہ کاری کے سبب بہت پسند تھا۔ (سچی بات تو یہ ہے کہ کسی اداکار میں آواز، لہجے، تلفظ اور مکالمہ ادائی کے انداز کے علاوہ اور ہوتا بھی کیا ہے مثلا دلیپ کمار! اور ہاں مجھے امیتابھ بچن بھی شروع میں بہت ناپسند تھا۔ مگر کیا آدمی ہے یہ جوں جوں بوڑھا ہوتا گیا توں توں اس کی اداکاری جوان ہوئی، ہے ناں عجیب بات!)

ہو سکتا ہے کہ فلموں کے دور والے طارق عزیز سے میری دلبستگی بچپنے کی اور بہت سی پسندیدگیوں کی طرح بلا جواز ہی ہو لیکن حقیقت یہی تھی کہ نیلام گھر اسی سبب سے اچھا لگا تھا کہ اس میں طارق عزیز ہے لیکن آخر آخر ناپسند بھی اسی عزیز کی وجہ سے ہوا اور ناپسندیدگی اس حد تک بڑھی کہ 93-1992 میں ptv میں پروڈیوسر کی نوکری کی امیدواری ٹیسٹ میں جب ptv کے “اپنے کسی ناپسندیدہ ترین پروگرام” کے سوال کا جواب لکھا تو اس میں نیلام گھر اور طارق عزیز کو جی بھر کر سیدھیاں سنائیں اور پھر شاید اسی سبب ٹیسٹ میں شاندار طریقے سے فیل بھی ہوا ⁩!

یہ اسباب ابھی اپنی جگہ پر تھے کہ اسی دور میں پتہ چلا کہ طارق عزیز مسلم لیگ میں شامل ہوکر نواز شریف کا دم چھلا بن گیا ہے۔ نواز شریف تو اپنی سیاست کے روز اول ہی سے سے میرا ناپسندیدہ اداکار تھا کہ جس ہدایت کار کی فلم سے اس نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا بہاولپور میں اس کا طیارہ حادثہ بھی میرے دل میں اس کے لئے کوئی نرم گوشہ پیدا نہ کر سکا تھا۔

نواز شریف کے ساتھ طارق عزیز کو دیکھتے ہی بیزاری اور تنفر کے جملہ اسباب گویا جمع ہوگئے۔ رہی سہی کسر سپریم کورٹ پر ہلہ کرنے والے جتھے میں اس کے شمول نے پوری کر دی۔ گو کہ بعد میں اس نے تواتر سے یہ کہنا شروع کیا کہ میں تو آگ بجھانے والوں میں تھا خوامخواہ لگانے والوں میں دھر لیا گیا لیکن اس بات کو مانا کم ہی ہے کسی نے!

طارق عزیز کی پنجابی کتاب “ہمزاد دا دکھ” جب چھپی تو حیدر آباد سے بڑے شوق سے خریدی مگر کچھ مزہ نہیں آیا تھا۔ کتاب میں ایک نظم بڑی عجیب تھی۔ نظم کیا تھی بس صفحات کی تعداد بڑھانے کا ایک نسخہ تھا۔ ایک صفحے پر نظم کا عنوان تھا:

“پرائے گھر چے رہن دا نتیجہ”
اور نیچے ایک مصرے کا متن
“بندے تے الزام لگ جاندا اے”
بس نظم ختم!

سچی بات تو یہ ہے کہ طارق عزیز نواز شریف کے گھر یہ الزام لگوانے کے لئے ہی گیا تھا شاید!

یہ اس سے میری دلچسپی کم ہوتے ہوتے بالکل معدوم ہونے کا زمانہ تھا۔

لیکن پھر چند ایک برس بعد ایک دور اور آیا۔ میرے طالب علم جب مجھ سے اردو کے تلفظ کی بابت پوچھتے تو میں نے محسوس کیا کہ میں انہیں دلیپ کمار اور ضیاء محی الدین کے علاوہ جو تیسرا نام بتایا کرتا ہوں وہ انہیں دونوں کی طرح تیسرے غیر اردو گھرانے کے فرد طارق عزیز کا ہے۔ میرے بچپن کا طارق عزیز میرے اندر پھر زندہ ہونے لگا تھا۔

نیلام گھر کے آغاز میں طارق عزیز ایک شعر بڑے لہتے مہکتے انداز میں پڑھا کرتا تھا
آج اچانک جب طارق عزیز کے انتقال کی خبر ملی تو دل میں دور تک ان مستانے زمانوں کی مہک پھیل گئی مگر ساتھ ہی ایک سناٹے نے آ لیا۔۔۔ سناٹا اور مہک مل جائیں تو تجربہ نہایت بھیانک ہوتا ہے!

طارق عزیز کے رخصت ہونے کے ساتھ میری عمر کے بہت سے لوگوں کے بچپن کا ایک دور رخصت ہو گیا۔ ہائے وہ زمانے اب کہاں سے لوٹیں گے کہ جب گھروں میں ٹی وی نہ ہونے کی وجہ سے مجھ جیسے بہت سے لوگ اپنے گھروں سے باہر، رانی باغوں میں لگے سرکاری ٹی وی پر، نیلام گھر دیکھنے جایا کرتے تھے۔

آئیے سب مل کر طارق عزیز کی یاد میں مجید امجد کی وہ غزل پڑھیں جس کے مہکتے میٹھے مطلعے سے وہ اکثر نیلام گھر کا آغاز کیا کرتا تھا۔

مہکتے میٹھے مستانے زمانے
کب آئیں گے وہ من مانے زمانے
جو میرے کنج دل میں گونجتے ہیں
نہیں دیکھے وہ دنیا نے زمانے
تری پلکوں کی جنبش سے جو ٹپکا
اسی اک پل کے افسانے زمانے
تری سانسوں کی سوغاتیں بہاریں
تری نظروں کے نذرانے زمانے
کبھی تو میری دنیا سے بھی گزرو
لئے آنکھوں میں انجانے زمانے
انہی کی زندگی جو چل پڑے ہیں
تری موجوں سے ٹکرانے زمانے
میں فکر راز ہستی کا پرستار
مری تسبیح کے دانے زمانے

ایک فلم تھی “ہار گیا انسان”۔ اس میں شراب کے نشے میں بدمست اپنی ہستی کے اسیر انسان کے طور پر طارق عزیز کے مکالمے بڑے جاندار تھے: “کون خدا کہاں کا خدا کدھر ہے خدا”۔

مگر پھر اچانک ایک زلزلہ آیا اور سب کچھ تہہ و بالا ہو گیا۔ آخر میں پھٹے حالوں طارق عزیز خدا کے حضور جھک کر اپنی بے چارگی کا اظہار کرتے معافی کا طلب گار تھا۔

اپنی توانائیوں کے عروج اور کامیابیوں کے غرور کے دور میں ہم بھی ایسے ہی گستاخ انسان ہوتے ہیں۔ “کون خدا کہاں کا خدا اور کیسا خدا” کے اس فیشن والے دور میں اگر کرونا کا زلزلہ ہم انسانوں کو اپنی ناطاقتی کا احساس دلاکر اللہ کے قریب کر دے تو، یقین جانیے، یہ وبا بھی ہمارے لئے رحمت بن سکتی ہے۔
آئیے طارق عزیز کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے ہاتھ اٹھائیں:

“اَللّٰهمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا وَ شَاهدِناَ وَ غَائِبِنَا وَ صَغِیْرِناَ وَ کَبِیْرِناَ وَ ذَکَرِناَ وَ اُنْثاَنَا ، اَللّٰهمَّ مَنْ أَحْیَیْتَه مِنَّا فَأَحْیِه عَلَی الِاسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الِایْمَانِ”.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “طارق عزیز : مہکتے میٹھے مستانے زمانوں کا راج دلارا ہمارا”

  1. زبیدہ رؤف Avatar
    زبیدہ رؤف

    بہت بولڈ تحریر ھے۔ لیکن اچھی کیونکہ سچی ھے۔