مشاہیر کی آپ بیتیاں،انٹرویوز بہت راہنمائی فراہم کرتی ہیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ایک مشہور مقولہ ہے کہ آج کا ریڈر(قاری) کل کا لیڈر ہوتا ہے، میں نے اپنی زندگی میں کوئی لیڈر نہیں دیکھا جو کتاب دوست نہ ہو اور ہر کتاب دوست کو رہنمائی کے منصب پر فائز دیکھا۔ افسوس کہ ہمارا معاشرہ شدید انحطاط کا شکار ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ آج شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد مطالعہ کتب کو ایک فضول مصروفیت خیال کرتی ہے لیکن ایسے بھی صحافی ہیں جواپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے گرداب میں پھنس کر بھی کتاب کو نہیں بھولتے، ایسے ہی لوگ اپنے شعبے کے امام ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہیں سید صحافت میں ایم فل ڈگری کے حامل نوجوان تحقیقاتی صحافی۔ ریڈیو ، ٹی وی اور اخبارات میں ملازمت کا خوب تجربہ رکھتے ہیں ۔ پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے جوائنٹ سیکرٹری بھی منتخب ہوئے اور لاہور پریس کلب کی لٹریری ایونٹس کمیٹی کے رکن بھی رہے ۔ ان دنوں پاکستان کونسل آف میڈیا رائیٹرز کے صدر ہیں ۔
سید بدرسعید کی دو کتب شائع ہو چکی ہیں جن میں تحقیقاتی کتاب ‘خودکش بمبار کے تعاقب میں’ کو ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کالجز اور لائبریریز کے لئے منظور کیا جبکہ ان کی دوسری کتاب “صحافت کی مختصر تاریخ ،قوانین و ضابطہ اخلاق ” مختلف جامعات میں صحافت کے طلبہ کو پڑھائی جاتی ہے ۔ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی سمیت مختلف چینلز کے لئے سکرپٹ رائیٹنگ بھی کرتے ہیں اور روزنامہ نئی بات میں ہفتہ وار کالم بھی لکھ رہے ہیں.
سید بدرسعید ان دنوں روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد کی نئی کتاب “نواز شریف میرا دوست” اور سینئر صحافی وناول نگار طارق اسمعیل ساگر کی آپ بیتی “مجھے کھا گئے ” پڑھ رہے ہیں ۔ کہتے ہیں:” ضیا شاہد صاحب کی کتاب کی تو حال ہی میں تقریب رونمائی ہوئی ہے ۔ طارق اسمعیل ساگر صاحب کی کتاب پہلے بھی پڑھ چکا ہوں ، ان دنوں دوبارہ پڑھ رہا ہوں ۔ اس کے بعد “پاکستانی سحافت کے راز دان صحافی ” اور “میڈیا منڈی ” کا ایک بار پھر مطالعہ کروں گا” ۔
پوچھا:”کن موضوعات پر زیادہ تر مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں؟ اورپسندیدگی کی وجہ؟”
کہتے ہیں:’’میں وہ سب پڑھتا ہوں جو مجھے میسر ہو ان میں ڈائجسٹ ، عمران سیریز ، ناول روزانہ کم از کم آدھ درجن اخبارات شامل ہین لیکن خاص طور پر سیاست ، تاریخ ،کلاسیک ادب اور آپ بیتیاں پڑھتا ہوں ۔ مشاہیر کی آپ بیتیاں ، انٹرویوز دراصل ہماری تاریخ کا ایک ایسا حصہ ہیں جو ہم ایسے صحافیوں اور قلم مزدوروں کی بہت راہنمائی کرتے ہیں‘‘۔
“کون سا مصنف یا کون سے مصنفین آپ کے پسندیدہ ہیں؟ ”
سیدبدرسعید کا کہنا تھا”’’مجھے بنیادی طور پر کہانی پسند ہے ۔ تحقیق اور داستان گوئی کا فن متاثر کرتا ہے ۔ بہت سارے مصنفین میں سے اگر دوچار کا انتخاب کرنا ہو تو مستنصر حسین تارڑ ، اے حمید اور عنایت اللہ مرحوم نے متاثر کیا۔ مجھے تاحال ان کی جگہ لینے والا نظر نہیں آ رہا ۔ جدید ناول نگاری میں عمیرہ احمد ، امجد جاوید اور ہاشم ندیم کی تحریر میں جادو ہے ۔ موٹیویشنل راءیٹنگ میں ڈینئل کارنگی کا مجموعہ کلام ایک بار پڑھ چکا ہوں اب اکثر زیر مطالعہ رہتا ہے ۔ انٹرویوز کے فن میں مجھے رئوف رئوف کلاسرا کا طرز تحریر پسند ہے ان کی ایک کتاب انٹرویوز پر مشتمل ہے جو کہ انٹرویوز سے زیادہ کہانی اور تاریخ کا رنگ لئے ہوئے ہے‘‘۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں