ابن فاضل :
اگر میں آپ سے کہوں کہ میں ایمپوریم یا پیکجز مال میں پنسار کی دکان کھولنے جارہا ہوں تو یقیناً آپ حیران ہوں گے، بلکہ کچھ دوست تو پریشان بھی ہوں گے۔ شفقت سے سمجھائیں گے کہ یہ ایک گھاٹے کی سرمایہ کاری ہے لیکن اگر میں آپ سے کہوں کہ میں نے ایسے ہی زبردست شاپنگ مالز میں ایسی درجنوں دکانیں دیکھ رکھی ہیں اور کسی ایک ملک میں نہیں کم از کم نصف درجن یا اس سے بھی زائد ممالک میں۔
جی ہاں! ترکی، ایران، ملائشیا، چین، سنگاپور، تائیوان وغیرہ میں آپ کو زبردست مارکیٹ میں زبردست سجی سجائی پنساراور ڈرائیڈ فروٹ کی دکانیں ملیں گی. اور اس کی وجہ ظاہر ہے، یہ ہے کہ ان ممالک کے باسیوں نے اپنا طرزِ حیات فطرت کے قریب رکھتے ہوئے قدرتی اشیاء اور جڑی بوٹیوں کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنارکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم اپنے ملک میں بلند فشار خون یا امراض قلب اور ذیابیطس کی شرح کا موازنہ ان ممالک سے کرتے ہیں تو ہمیں ہوشربا نتائج ملتے ہیں
صرف ذیابیطس کا شرح موازنہ ہی حیران کن ہے۔ پاکستان جنرل آف میڈیکل سائنسز میں شائع ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً پندرہ فیصد لوگ اس مرض کا شکار ہیں جبکہ دی نیشن اخبار کی طرف سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچواں شخص اس مرض میں مبتلا ہے۔ دوسری طرف چین اور سنگاپور میں یہ شرح دس فیصد سے بھی کم ہے. جبکہ دنیا بھر کا اوسط 8.8 فیصد ہے. یہی حال دل کی بیماریوں اور دیگر امراض کا بھی ہے.
اصل میں ہم نے اپنے طرز حیات پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔ ہماری ساری کی ساری خوراک ہی غیر صحت مندانہ ہے. پراٹھے، بھنے ہوئے کھانے، پکوڑے، سموسے، مٹھائی، ڈبوں میں بند جوسز اور کولاز اور دودھ والی چائے کا بے دریغ استعمال۔
سب کی سب انتہائی خطرناک عادات اور پھر اس غیرذمہ دارانہ طرزِ زندگی کی وجہ سے جب مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں تو بے دریغ اینٹی بائیوٹکس اور دیگر ادویات جن سے پہلے سے تباہ شدہ مدافعتی نظام کا مزید بیڑا غرق ہوجاتا ہے.
میں آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ مہمان کی مدارت کیلئے کولاز، ڈبہ کا جوس یا چائے ہی کیوں! دودھ ، لسی یا تازہ پھل اور جوس کیوں نہیں. حالانکہ قیمت کا بھی فرق نہیں. اگر یہ سٹیٹس سمبل ہے تو پھر یقیناً ہم نے سٹیس سمبل بھی بنا سوچے سمجھے ہی بنا رکھے ہیں۔
حالانکہ بہترین اور قابل فخر تو وہی ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ مفید ہیں. ایران میں بازاروں میں جتنے لوگ جوس اور سلش وغیرہ فروخت کرتے ہیں سب قدرتی اجزاء پر مشتمل، نہ کہ ہماری طرح ایسنس اور فوڈ کلر. خاک شیر ایک تخم لنگاہ کی طرح کے بیج ہیں جن کا شربت سا بنایا جاتا ہے، ہر شخص وہی بیچتا اور پیتا ہے.
ترکی میں کھانوں کے ساتھ کولا کی جگہ آریان یا آئرن پیتے ہیں جو زبردست گاڑھی لسی ہوتی ہے. ملایشیا میں بازاروں میں مالز میں حتی کہ سڑکوں کے کنارے بھی تازہ پھلوں کے جوسز اور ملک شیک ہی ملتے ہیں. چائے کا تصور بھی نہیں۔
کولاز کا استعمال بہت محدود ہے. پھراچھے سے اچھے شاپنگ مالز میں ہر طرح کی جڑی بوٹیاں اور ڈرائیڈ فروٹ کی بھرمار. ظاہر ہے لوگ بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں تو ہی وہ لوگ بیٹھے ہیں.
چین کا تذکرہ تو بارہا کیا جا چکا، سب کھانے ابلے ہوئے، تلی اشیاء سے مکمل اجتناب۔ کھانوں میں گھی کا شائبہ بھی نہیں. سینکڑوں اقسام کے قہوے اور خشک شدہ پھل. ہر خوراک فطری۔
ہمارے ہاں تنگ سی گلی میں سب سے چھوٹی اور تاریک سی دکان پنسار کی ہوتی ہے. وہ بھی خال خال. نہ ہمارے ذہنوں میں فطرت کی پذیرائی ہے نہ زندگیوں میں قدرتی اشیاء کا چلن. اب جبکہ اس آفت کی وجہ سے ہم بہت زیادہ خوراک اور قوت مدافعت پر توجہ دے رہے ہیں تو میری گزارش ہے کہ رہن سہن پر بھی غور کریں،
مضر صحت کھانوں اور اشیاء کو زندگی سے رفتہ رفتہ کم کرتے ہوئے ختم کردیں. کولاز اور ڈبہ جوس سے مکمل پرہیز کریں. دودھ، دہی لسی اور تازہ جوس کو رواج دیں. شوربہ والا کھانا کھائیں۔ کھانسی، پیٹ کے امراض، زکام یا چھوٹی موٹی بیماریوں کیلئے دیسی ادویات اور فطری چیزوں کا استعمال کریں.