جویریہ ریاض

”باحجاب ہوکرخود کو کمفرٹ زون میں محسوس کرتی ہوں“

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بی ایس کی باحجاب طالبہ جویریہ ریاض ‌سے گفتگو

جویریہ ریاض پاکستان کے صوبہ پنجاب میں‌ ضلع اٹک سے تعلق رکھتی ہیں، بی ایس کی طالبہ ہیں، باحجاب زندگی گزاررہی ہیں، وہ اپنی اس زندگی میں آسودہ ہیں یا مشکلات کا سامنا کرتی ہیں؟ انھیں باحجاب زندگی سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ کچھ ایسے ہی سوالات پر مشتمل ان سے گفتگو کی گئی۔ آئیے! ان کی گفتگو کا مطالعہ کرتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ نئی نسل باحجاب زندگی کے بارے میں کیا سوچ رکھتی ہے:
سوال: آپ نے حجاب کیوں کیا؟
جواب: مجھے حجاب کرنے کی ترغیب میرے مذہب اسلام سے ملی اور اس واقعے سے ملی کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے سر سے دوپٹہ سرکتا ہے اور سورج طلوع نہیں ہوتا۔

سوال: کیا حجاب شعوری طورپر کرتی ہیں یا والدین کے کہنے پر؟
جواب: ایک باشعور مسلم خاتون ہونے کے ناتے میں شعوری طور پر حجاب کرتی ہوں کیونکہ
حجاب مجھے تحفظ فراہم کرتا ہے اور حجاب کیے ہوئے میں خود کو کمفرٹ زون میں محسوس کرتی ہوں۔

سوال: حجاب کا اہتمام کرنے پرآپ کو اپنا آپ کیسا محسوس ہوتاہے؟
جواب: چونکہ پردہ عورت کی زینت ہے۔ارشاد ربانی کا مفہوم ہے کہ مسلمان عورتوں کو پردے کا حکم دو تا کہ وہ پہچانی جائیں اور ستائی نہ جائیں لہذا میں حجاب میں خود کو اپنے لحاظ سے مکمل محفوظ محسوس کرتی ہوں۔

سوال: کیا حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتاہے؟
جواب: حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے یا نہیں، یہ اُس شعبے کے مطالبات پر منحصر ہے جس کا انتخاب آپ ترقی کرنے کےلیے کرتی ہیں۔ بہرحال حیا کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ترقی کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر پیشے کا انتخاب بھی حد میں رہ کر کیا جائے تو حجاب رکاوٹ نہیں بنتا بلکہ عورت کےلیے عزت میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

سوال: حجاب کرنے پر آپ کو کسی سے شاباش بھی ملی؟
جواب: اگر شاباش سے مراد سر اہنا ہے تو مجھے بلاشبہ سراہا گیا اور میری فیملی میں میرے اس اقدام کو پسند کیا گیا کیونکہ جب ایک لڑکی اپنی حفاظت کےلیے حجاب کو فوقیت دیتی ہے تو اس کا اپنا ضمیر بھی مطمئن ہوتا ہی ہے لیکن وہ اپنے والدین کےلیے بھی سکون کا باعث بنتی ہے۔

سوال: حجاب کرنے پر کسی کی طرف سے تنقید ہوئی یا کسی نے مذاق اڑایا ہو یا کسی نے حجاب اتارنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی ہو؟
جواب: میرے معاشرے میں حجاب عورت کےلیے توقیر کا باعث ہے مگر کچھ لوگ آزاد خیالی کے نام پر حجاب کو اپنے لیے بھی ندامت کا باعث سمجھتے ہیں اور با پردہ خواتین کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے قدامت پسندی کا نام دیتے ہیں ۔

سوال: آپ ایسی خواتین کو کیا کہتی ہیں؟
جواب: میں انھیں اتنا ہی کہا کرتی ہوں کہ آزاد خیالی کے نام پہ بے حیائی کو تحریک دینے سے بڑی کم عقلی والی بات اور کوئی نہیں۔

سوال: آپ کے خیال میں اس وقت ہمارے معاشرے میں لڑکیاں اور خواتین حجاب اختیار کررہی ہیں یا حجاب سے بے نیاز ہورہی ہیں؟
جواب: اگر حال ہی کی بات کی جائے تو پھر وہی بات آتی ہے آزاد خیالی والی جس کے نام پہ ملک میں فحاشی پھیلائی جارہی ہے۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی کرتی چلوں کہ اسلام قدامت پسند مذہب نہیں ہے۔ دور جاہلیت میں جب عورتوں کی عفتوں کو سرعام روندا جاتا تھا تب ہی اسلام نے عورتوں کے تحفظ کےلیے پردہ کا حکم دیا تھا۔

اور آج اسی مذہب کے احکامات کو قدامت پسندی کا نام دے کر پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جو خواتین پردہ کرتی بھی ہیں ان میں اکثریت ان کی ہے جو حجاب کو فیشن سمجھ کر کرتی ہیں اور مردوں کو نظر جھکانے پر مجبور کرنے کی بجائے ان کے لیے توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔

سوال: کچھ ایسے واقعات بتائیں جب آپ کو فخر محسوس ہوا ہو کہ آپ باحجاب ہیں؟
جواب: مجھے میرے حجاب اور پردے پر فخر کسی مخصوص واقعہ کی بنا پر نہیں ہے۔ میں جب بھی حجاب میں ہوتی ہوں وہ ہر لمحہ میرے لیے فخر کا باعث ہوتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں