محمد بلال اکرم کشمیری
اس وقت عوام جہاں ایک جانب کرونا جیسی مہلک وبا سے پریشان ہے وہاں پل پل بدلتے حکومتی فیصلوں سے بھی خائف ہے ،جہاں وفاق ایک فیصلہ کرتا ہے تو صوبے اپنی مرضی کا فیصلہ نافذ کر دیتے ہیں ۔عوام مسلسل دوہرے عذاب میں مبتلا ہے ،معیشت کا پہیہ تو جیسے رک سا گیا ہے ۔عوام غیر یقینی صورت حال سے دوچا ر ہے ۔دوسرا بڑا اور اہم مسئلہ کرونا کے وجود اور عدم وجود پر بحث ہے ،اس سلسلے میں بہت سے جھوٹے مفروضے بھی گردش کر رہے ہیں۔صوتی اور بصری خبریں ملاحظہ کریں تو لگتا ہے جیسے قیامت آچکی ،مارکیٹوں کا رخ کریں تو لگتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں،درست معلومات کا اس قدر فقدان ہے کہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کس بات پر یقین کیا جائے اور کسے رد کیا جائے؟ سماجی ،مذہبی اور معاشرتی معاملات میں مسلسل بگاڑ پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے ۔یہاں تک کہ ماہرین طب بھی اس وباکو ’’بے حد خطرناک‘‘ اور ’’خطرناک ‘‘ جیسے درجہ دینے میں متفق نظر نہیں آرہے ۔
اب معاشرے میں پھیلے چند سوالات اور نظریات پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں،پہلا مکتبہ فکر جس کا نظریہ ہے کہ کرونا محض ایک ڈرامہ ہے ،اس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ،ورنہ کرونا کے مریض صرف ہسپتال میں ہی کیوں دم توڑتے ہیں ،باہر سے اب تک کرونا سے وفات کو کوئی واقعہ کیوں رپورٹ نہیں ہوا؟درحقیقت حکومت وقت اس وبا کو جوا بنا کر قومی اور بین الاقوامی امداد اکٹھاکرنا چاہتی ہے جس سے وہ اپنی معاشی ناکامی پر پردہ ڈال سکے۔
دوسرا مکتبہ فکر کہتا ہے کہ یہ ایک سازش ہے جسے بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم دنیا کی بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے پھیلایا گیا ہے ۔مسلمانوں کو ان کی عبادت گاہوں سے دور رکھنا ،انہیں اس مہلک وائرس کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارنا سازش میں شامل ہے ۔علاوہ ازیں دنیا کی بڑھتی آبادی سے کچھ بڑوں کو بہت تکلیف تھی کیونکہ ان کے وسائل کو بلواسطہ یا بلا واسطہ استعمال کیا جا رہا تھا۔ان کے دلائل کچھ ناول اور کچھ فلمیں ہیں۔
تیسرے مکتبہ فکر کا نقطہ نظر بھی خاصہ دلچسپ ہے،ان کے بقول یہ ورلڈ آرڈر کی ایک مشق ہے ،جیسے سب کے سب 20سکینڈ تک ہاتھ دھویں ،تو اس وقت بلا تمیز و امتیاز ،تمام مشرق و مغرب 20سیکنڈ ہاتھ دھونے میں مصروف عمل ہے ۔یہ پہلا حکم نامہ تھا جسے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت جاری کروایا گیا ،دوسرا حکم نامہ جو کہ پہلے حکم کی ذیلی شق تھی کہ ماسک کا استعمال کیا جائے ۔لہذا اس حکم پر بھی من و عن بنا کسی کمی پیشی کے عمل درآمد شروع ہو گیا،بلکہ بعض ممالک بشمول ترقی پذیر ممالک نے ماسک بنانے اور اسے برآمد کرنا بھی شروع کر دیئے۔
ایک چوتھا مکتبہ فکر بھی ہے جس کے دو گروہ ہیں ،ایک کا خیال ہے کہ یہ امریکہ کا چین کے خلاف اقدام ہے ،جبکہ دوسرے گروہ کا خیال اس کے برعکس ہے ۔ان کا مشترک خیال یہ ہے کہ دنیا میں بڑھتی ہوئی مادی ترقی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے غرض سے یہ حیاتیاتی حملہ کیا گیا ہے تاکہ بڑھتی معاشتی ترقی کو لگام دی جا سکے ۔مگر پھر یہ پھیلاؤ قابو سے باہر ہو گیا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔
ان مکاتب فکر کے علاوہ جو سب سے اہم چیز عدم مشاہدے سے مشاہدے میں آئی وہ یہ کہ امرا جس قدر محتاط اور ذمہ داری کا ثبوت دیتے نظر آئے وہاں غریب اتنا ہی سڑک کنارے ،بازاروں میں ،ریڑھیوں پر ان امرا کے منتظرنظر آئے۔اس افراتفری اور ہنگامی صورتحال میں متعدد بار اس مرض سے نجات کے لیے مقامی جامعات اور ماہرین طب کی جانب سے ویکیسین کی ایجاد کی بھی خبریں امریکہ اور چین کو جلانے کے لیے سامنے آتی رہیں،مگر ان کا فالو اپ تادم تحریر سامنے نہیں آسکا۔بین الاقوامی ادارہ صحت کی جانب سے کرونا کی وبا سے متاثر ہونے کی نئی نئی علامات بھی وقتا فوقتا تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔علاوہ ازیں ملکی روایت برقرار رکھتے ہوئے مختلف انواع کے قہوے اور دیسی علاج زبان زد عام ہیں۔
مگر ان سب باتوں میں جس چیز کی کمی ہے اسے ’’حقیقت‘‘ کہتے ہیں،عوام کو کیا بتانا چاہیے ؟ کیسے بتانا چاہیے اور کتنا بتانا چاہیے ،اس پالیسی کی کمی ہے ،کیونکہ اس سے قبل موجودہ بنی نوع اس صورت حال سے اس قدر سختی سے دوچار نہیں ہوئی۔ارباب حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام میں خو ف کے بجائے حوصلہ پیدا کریں،منفی کے بجائے مثبت کو جگہ دی جائے ۔اموات کے بجائے صحت یابی کو خبر کا موضوع بنایا جائے ۔ماہرین معیشت دکان بندکروانے کے بجائے دکان چلانے کے مختلف طریقے بتائیں،اپوزیشن تنقید کے بجائے تجویز پر زور دے۔محض ہاتھ دھونے کے بجائے وضو کی فضیلت بتائی جائے۔وقت گزارنے کے بجائے وقت قیمتی بنانا سکھایا جائے۔