ڈاکٹرنزیداحمد شہید

اڑتالیس سال پہلے آج کا دن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بنت ڈاکٹر نذیر احمد شہید:

اڑتالیس سال پہلے آج ہی کے دن اس وقت ڈیرہ غازی خان کے ڈسٹرکٹ ہاسپٹل کے سامنے پورا ڈیرہ غازی خان اُمڈ آیا تھا، آنکھوں میں آنسو، ہونٹوں پر کلمہ اور ہاتھوں میں لاٹھیاں لیئے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیئے جسم کو ہاتھ بھی لگایا گیا تو ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔

ڈاکٹروں نے یقین دلایا کہ صرف گولیاں نکالنے کی اجازت دے دیں تو وہاں کی جماعت اسلامی کے سرکردہ لوگوں کی آپریشن تھیٹر میں موجودگی کے دوران صرف گولیاں نکالی گئیں اور جسد مطہر کو عاشقانِ ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے سپرد کر دیا گیا۔

میں اتنی چھوٹی تھی کہ مجھے احساس ہی نہیں تھا کہ میں نے کیا کھو دیا ہے میں تو صرف اس لیئے رو رہی تھی کہ میری پیاری امی جان روئے چلی جارہی تھیں گھر میں بہت زیادہ رش تھا ، عورتیں ہمیں امی سے الگ کرنے کوشش کر رہی تھیں۔

اباجی کے کمرے کے دروازے کے نیچے سے ان کا خون بہہ کر زنانہ حصے میں آرہا تھا اور عورتیں دیوانہ وار اس خون کو اپنے دوپٹوں اور ٹوپی برقعے کے پلوؤں کے ساتھ صاف کر رہی تھیں ان کے خون کا ایک قطرہ بھی ان خواتین نےنالی میں نہیں جانے دیا۔

مجھے خواب کی طرح یاد ہے کہ امی جان نے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے، آنکھوں سے آنسو جاری تھے، گود میں تین ماہ کا حسین تھا اور میں نے ان کی انگلی پکڑی ہوئی تھی۔ ہم ابا جی کے کمرے میں جاتے تھے اور 10 منٹ کے بعد وہاں سے نکال دیئے جاتے کہ اب مردوں کی باری ہے۔ زنانہ طرف کا دروازہ بند کر دیا جاتا۔

ان پر لکھی سوانح عمری تو بہت مختصر کتاب ہے، ان کی اصل کتاب تو امی جان اور وہ گوہر نایاب پہاڑوں کا بیٹا ڈاکٹر عطااللہ خان قیصرانی ہیں جنھیں وہ تونسہ شریف سے بہت آگے جنگل میں بکریاں چراتے اور ساتویں جماعت کی کتابیں پڑھتے بارہا دیکھتے تھے۔ان کا پڑھائی کا شوق دیکھتے ہوئے اس بن ماں کے بچے کو ان کے باپ کی اجازت سے اپنے ساتھ ڈیرہ غازی خان لے آئے،

پڑھایا لکھایا، پھر ہومیوپیتھک تعلیم کے لیئے کراچی بھیج دیا۔ وہاں سے واپسی پر اپنا کلینک ان کے سپرد کیا اور پھر اپنی پیاری اور سب سے بہادر بیٹی کے ساتھ ان کی شادی کر کے گھر بھی ان کے سپرد کیا اور خود راہی ملک عدم ہو گئے۔

امی جان اور بھائی جان ابا جی کے متعلق جو باتیں بتاتے ہیں۔ انھیں سن کر میں نے امی جان سے سوال کیا تھا۔

”امی! کوئی انسان بھلا اتنے اور ایسے کام کیسے کرسکتا ہے! اباجی کوئی جن تھے؟“ وہ اپنے کام سے عشق اور وقت کی کمی کی وجہ سے بچوں کے ساتھ زیادہ نہیں بیٹھ پاتے تھے۔

اس لئے قریبی علاقے کے دورے پر جاتے ہوئے ابوبکر بھائی جان کو ساتھ لے جاتے۔ امی منع کرتیں تو کہتے میں گھر بیٹھ کر نا اس کو وقت دے سکتا ہوں نا تربیت کر سکتا ہوں لہٰذا اس کو میرے ساتھ جانے سے نا روکو سفر میں یہ دونوں کام ہو جائیں گے۔

ایک دفعہ فورٹ منرو کے دورے سے واپس آ کر امی کو ہنس کے بتارہے تھے کہ تمہارا بیٹا اتنا بہادر ہے کہ سارا سفر سیٹ کے نیچے چھپ کر آیا ہے ، اور پھر 12 سال کے اسی ابوبکر کو ذمہ داریوں کے کوہ گراں کے ساتھ چھوڑ کر خود داعی اجل کو لبیک کہا،

جب کسی دورے سے واپس آتے تو صحن میں بازو پھیلا کر بیٹھ جاتے اور آواز دیتے ”جو میرا پیارا بچہ ہے وہ سب سے پہلے بھاگ کر میری بانہوں میں آجائے ،“ پھر سب بچوں کی دوڑ لگ جاتی کہ وہ سب سے پہلے اباجی کی بانہوں میں سما جائے،

اباجی کا قد 6 فٹ تھا اور ان کے دوست سعید چاچا اتنے لمبے چوڑے تھے کہ جب وہ ابا جی کے آگے کھڑے ہوتے تو اباجی نظر نہیں آتے تھے۔ پے در پے قاتلانہ حملوں کے بعد سعید چاچا نے اپنے آپ کو اباجی کے منع کے باوجود انکا گارڈ مقرر کر لیا اور سائے کی طرح ان کے ساتھ رہنے لگے۔

سعید چاچا کا پورا نام سعید احمد خاکسار تھا۔ آٹھ جون کو صرف 15 منٹ کے لیئے کھانا کھانے گھر گئے اور پھر وہ ساری زندگی اپنے آپ کو کوستے رہے کہ
”سعید! ہک ٹیم دی روٹی نا کھاویں ہا تے مر تاں نا پوویں ہا“

پورے ڈیرہ غازی خان میں ہمارے صرف تین رشتے تھے ، چاچا ،چاچی اور بُوا ۔ کوئی خالہ یا ماموں نہیں کہلواتا تھا،

دکھ کی شدت سے امی جان ننھے حسین کی بھوک مٹا نہ پاتیں اور حسین جو صرف 3 ماہ کا تھا مدر فیڈ کا عادی بوتل کے دودھ کو منہ لگانے کو تیار نہیں تھا۔

اباجی تونسہ شریف کے دور افتادہ پہاڑی گاؤں سے اپنی جماعت کے لیئے ایک ہیرا چن کے لائے: مولانا غلام حسین بزدار۔ ان کو اپنے گھر کے اوپر والے پورشن میں جگہ دی۔ مولانا غلام حسین بزدار صاحب کو ابا جی نے اپنا قیم بنایا، پھر وہ کافی عرصہ تک امیر ضلع بھی رہے۔ انھیں عربی پر کافی عبور حاصل تھا۔ آپا روتے ہوئے حسین کو بہلانے اُوپر گئیں تو چاچاجی نے پوچھا:

”حسین کیوں رو رہا ہے؟“ وجہ معلوم ہوئی تو چاچی کو حکم دیا کہ ”اپنے بیٹے ناصر کے ساتھ حسین کو اپنا دودھ پلانا شروع کرو۔“

چاچی کی حسین سے بے تحاشا محبت آج بھی برقرار ہے ۔ ایک دفعہ مسجد میں قاری صاحب سے پڑھتے ہوئے ہم سب بچوں کی پٹائی ہوئی تو چاچی برقعہ پہن کر مسجد آگئیں اور قاری صاحب سے خوب لڑائی کی اور کہا:
”بے شک! میرے سارے بچوں کی پٹائی کرو مگر حسین کو ہاتھ نا لگانا“۔
حسین اور ناصر نرسری سے لے کر ایم بی بی ایس تک کلاس فیلو رہے ، اس طرح انھوں نے ابا جی سے اپنی محبت کا قرض ادا کیا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں