ڈاکٹر میمونہ حمزہ :
یہ یوگنڈا کے صدر یووری موسیونی کی حالیہ تقریر کا ترجمہ ہے جو انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرونا وائرس کے سلسلے میں اپنی قوم کے غیر ذمہ دارانہ رویے پہ بطور تنبیہہ کیا:
”خدا کو بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔ اسے پوری دنیا کا نظام دیکھنا ہوتا ہے۔ اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ صرف یہاں یوگنڈا میں بیٹھ کر احمقوں کی نگہداشت کرے“
”جنگ کے زمانے میں کوئی کسی سے نہیں کہتا کہ گھروں میں بند ہوجائیں۔ آپ برضا و رغبت نہ صرف گھروں میں مقید ہوجاتے ہیں بلکہ اگر آپ کے پاس بیسمنٹ ہو تو آپ حالات بہتر ہونے تک خود کو وہیں تک محدود کرلیتے ہیں“۔
”جنگ کے دنوں میں آپ آزادی کا مطالبہ نہیں کرتے۔ آپ اپنی زندگی کی خاطر اپنی آزادی قربان کر دیتے ہیں۔ دوران جنگ آپ ”بھوک“ کا شکوہ نہیں کرتے۔ آپ اس امید پہ بھوکا رہنا گوارہ کرتے ہیں کہ زندگی رہی تو پھر باہر نکل کر کھا لیں گے“۔
”جنگ کےدوران آپ اپنا کاروبار کھولنے کا مطالبہ نہیں کرتے۔آپ اپنی دکانیں بند کردیتے ہیں۔ اگر اس کا بھی وقت ملے تو اور یہ دعا کرتے ہیں کہ جنگ سے بچ جائیں اور واپس آ کر کاروبار دوبارہ شروع کرلیں گے بشرطیکہ اس دوران میں دوکان لوٹ نہ لی گئی ہو یا مارٹر کے گولوں سے تباہ نہ ہو گئی ہو“۔
”دوران جنگ آپ ہر نئے دن پہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایک اور دن آپ کو زندہ رکھا۔ دوران جنگ آپ اس بات پہ قطعاً پریشان نہیں ہوتے کہ آپ کے بچے اسکول نہیں جا رہے، آپ یہ دعا مانگتے ہیں کہ حکومت ان کی جبری بھرتی کر کے اسی اسکول کی حدود میں جو اب فوجی ڈپو بنا دیا گیا ہے عسکری تربیت کے لیے نہ بلالے“۔
”دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ ایسی جنگ جو بندوقوں اور گولیوں کے بغیر لڑی جارہی ہے۔ ایسی جنگ جس میں جنگی سپاہی نہیں ہیں، ایسی جنگ جس کی کوئی سرحد نہیں، ایسی جنگ جس میں کسی جنگ بندی کے معاہدے کی کوئی امید نہیں، ایسی جنگ جس میں جنگی منصوبہ بندی کے لیے کوئی ”وار روم“ نہیں ہے“۔
”اس جنگ میں لڑنے والی فوج بے رحم ہے۔ اس میں انسانی ہمدردی کا کوئی عنصر قطعاً نہیں پایا جاتا۔ اس کے دل میں بچوں، عورتوں یا عبادت گاہوں کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ فوج جنگ کی تباہ کاریوں سے لاتعلق ہے۔ اسے حکومت یا نظام حکومت بدلنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسے زیر زمین دستیاب معدنی وسائل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اسے مذہب ، فرقے یا کسی خاص نظریاتی تسلط سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ کسی خاص نسل کی برتری اس کا مقصد نہیں۔ یہ نادیدہ اور ظالمانہ حد تک موثر فوج ہے“۔
”اس کا مقصد صرف اور صرف ”موت“ ہے۔ اس کی شکم سیری ساری دنیا کو موت کا میدان بنانے سے ہی ہوگی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کی صلاحیت شک و شبہ سے بالا ہے۔ زمین پہ کسی خاص جگہ پہ بنیاد یا کسی جاسوسی کےنظام کے بغیر یہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہے۔ اس کی نقل و حرکت کسی جنگی قواعد کے ماتحت نہیں۔ مختصراً یہ اپنی ذات میں خود ”قانون ہے۔اسے COVID-19 بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنی تباہ کاریوں کا آغاز 2019 میں کیا ہے“۔
”اللہ کا شکر ہے کہ اس فوج کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں اور اسے شکست دی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمارے اجتماعی اقدامات ، تنظیم اور رواداری کی ضرورت ہے۔ COVID-19 سماجی فاصلوں میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ صرف اسی صورت میں پنپ سکتا ہے اگر آپ اس سے رابطے میں آئیں اور اس سے محاذآرائی کریں۔ یہ محاذ آرائی کو پسند کرتا ہے۔ یہ اجتماعی طور پہ سماجی اور جسمانی دوری کی صورت میں ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یہ حفظان صحت کے اصولوں کے سامنے سرنگوں رہتا ہے۔ یہ بالکل معذور ہوجاتا ہے۔ جب آپ اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور انہیں حتی الامکان ”سینیٹائز“ کرتے رہتے ہیں“۔
”یہ ضدی بچوں کی طرح روٹی مکھن کے لیے رونے پیٹنے کا وقت نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مقدس کتاب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ انسان صرف روٹی پہ ہی زندہ نہیں رہ سکتا۔
تو آئیے۔ ہم اطاعت گزار بنیں اور خالق کی ہدایات پہ عمل پیرا ہوں۔ آئیے کہ ہم COVID-19 کی قوس کو چپٹا کریں۔ صبر کا مظاہرہ کریں۔ بہت جلد ہم اپنی آزادی، سماجی و کاروباری زندگی دوبارہ حاصل کرلیں گے۔ ایمرجنسی کے دوران ہم دوسروں کی خدمت اور دوسروں سے محبت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس پہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔
خدا آپ سب کا حامی و ناصر ہو“۔
اس تقریر کے بارے میں مباحث ہورہے ہیں کہ یوگینڈا کے صدریووری موسیونی نے خدا کا انکار کیا ہے یا اس کے بارے میںنامناسب انداز اختیار کیا ہے۔
یوگنڈا کے صدر کا یہ خطاب ایک باپ کے خطاب سا ہے جو اپنے ناسمجھ اور جلد باز اور بے صبرے، غیر ذمہ دار بچوں سے کرتا ہے۔ کرونا وائرس کے بارے میں اتنی جامع اور دانشورانہ تقریر ابھی تک کسی نے نہیں کی۔ صدر نے خطاب کا آغاز ایک ترش جملے سے کیا ہے:
”اللہ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ صرف یہاں یوگنڈا میں بیٹھ کر احمقوں کی نگہداشت کرے“۔
اس جملے میں اللہ تعالی مخاطب نہیں ہے، بلکہ وہ عوام مخاطب ہیں جو دنیا پر چھائی ہوئی کورونا وبا کے تدارک کے لئے وہ اقدامات نہیں کر رہے جو حفاظت کے لئے مطلوب ہیں۔ اس لئے یوگنڈا کے صدر نے بغیر ذکر کئے اپنی قوم کے احمقوں کو اللہ کی سنت بتائی ہے،
دوسرے معنوں میں انہیں خبردار کیا ہے کہ اللہ کو ایسا غفور الرحیم نہ سمجھو کہ تم زہر بھی پیو تو وہ تمہارے لئے تریاق ثابت ہو۔ اس لئے احمق نہ بنو، اور سمجھو کہ نئے حالات میں تمہیں کس طرح جینا ہے۔
یہ آزمائش کا ایسا وقت ہے جس میں ہر شخص کو اپنے آپ کو بچانے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے، اور یہ سب کسی خارجی جبر اور دباؤ کے نتیجے میں نہیں بلکہ برضا و رغبت کرنے سے ہی فائدہ مند ثابت ہو گا۔ جیسے جنگ کے زمانے میں حالات کی بہتری تک لوگ خود بھی گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔
جنگ میں لوگ اپنی آزادیوں کے راگ نہیں الاپتے بلکہ از خود ان سے دست بردار ہو جاتے ہیں
بلا شبہ جنگی حالات میں بھوک سے بڑھ کر زندگی اہم ہو جاتی ہے، اس لئے زندہ رہنے کے لئے بھوک سے کمپرومائز کیا جاتا ہے، اور بطور خود اس کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
جنگي حالات میں نقصانات کے تخمینے مختلف ہو جاتے ہیں، جہاں عمومی حالات میں آدمی کی نظر اس کی دن بھر کی کمائی اور منافع پر ہوتی ہے تو جنگي حالات میں وہ صرف اصل زر کے محفوظ ہونے پر ہی مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے اہم شے زندگی اور حفاظت بن جاتے ہیں، وہ کمتر کے ساتھ بھی مطمئن ہو جاتا ہے اور بہت سی خواہشوں اور فراخی کو اچھے دنوں کے لوٹ آنے کی امید پر موخر کر دیتا ہے۔
اس وقت دنیا حالت جنگ میں ہے، مگر یہ جنگ بہت عجیب، بہت مختلف ہے، یہ ایک نہ دکھائی دینے والی جنگ ہے، مگر جنگ حقیقی ہے۔
یہ نہ آلات حرب سے لڑی جا رہی ہے، نہ سیاسی طور پر، نہ ہی اس جنگ کی کوئی سرحد ہے، نہ یہاں جنگ بندی کا کوئی معاہدہ کام آ سکتا ہے، بس اتنا یاد رکھیں:
1۔ یہ جنگ لڑنے والی فوج بڑی بے رحم ہے۔ جو اس کی زد میں آئے اس کا شکار کر لیتی ہے، نہ جنس کی قید، نہ عمر کی نہ جغرافیے کی نہ مذہب کی، اسے یہ بھی پرواہ نہیں کہ اس نے کتنے جیتے جاگتے نفوس ملیامیٹ کر ڈالے۔
2۔ اس کا مقصد صرف اور صرف موت ہے، یہ اپنے انداز میں پھیل اور آگے بڑھ رہی ہے، یہ صرف covid-19 کے قانون کی پاسدار ہے۔
اس سے بچنے کے خواہش مندوں کو معلوم ہو کہ اس کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں، اور اسے شکست بھی دی جاسکتی ہے:
1۔ سماجی فاصلہ (اس لئے اس سے لڑنے کے بجائے اس سے دوری اختیار کریں)
2۔ یہ حفظان صحت کے اصولوں کے سامنے سرنگوں کر دیتا ہے۔ جب آپ اپنی صفائی اور ”سینیٹائزنگ“ کو یقینی بناتے ہیں، تو گویا آپ اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔
یوگنڈا کے صدر نے اپنی قوم کے ضدی بچوں کو نصیحت کی کہ اس وقت روٹی مکھن کھانے کی ضد نہ کریں، بلکہ اس الہامی عقیدے سے قریب ہو جائیں کہ انسان صرف پیٹ کی خاطر نہیں جیتا، بلکہ خالق کی اطاعت کے لئے زندگي گزارتا ہے۔ اور اللہ کی بندگی ہی سے ہم covid-19 کی ”کوس“ کو ”چپٹا“ کر سکتے ہیں۔
اس ساری سرگرمی میں صبر کا مظاہرہ کریں۔
اگر اس مرحلے پر ان باتوں کا خیال کر لیا تو ہم زندہ رہیں گے، اور وہ سب کچھ پا لیں گے ، جس سے آج محروم ہو رہے ہیں۔
ایمرجنسی میں دوسروں کی خدمت اور محبت کی اہمیت کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا رہیں۔
حقیقت میں صدر نے طنزیہ انداز میں اللہ تعالیٰ کی سنت کو بیان کیا ہے احمق عوام کے لئے۔ اور ”شکوہ“ (اقبال)والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اور یہ جملہ اس کی باقی باتوں کو سننے اور پڑھنے میں مزاحم ہوگیا ہے۔ حالانکہ وہ صرف وبا کے اثرات کو بیان کررہے تھے کہ اگر احتیاطی اقدامات نہ کرو گے تواس کا شکار ہوجائو گے۔زہر اپنا اثر دکھائے گا، یہ نہ سمجھنا کہ اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا اور تمہاری بے احتیاطی کسی زمرے میں نہ آئے گی۔