ابو ریحان
امریکی ذرائع ابلاغ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تعلقات بگڑنے کے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سعودی ولی عہد نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد درپیش بحران سے نکلنے کے لیے اسرائیل کے انتہائی وفادار ٹرمپ کے داماد اور اسرائیل سے مدد طلب کی ہے، جب کہ صدر ٹرمپ نے داماد کو محمد بن سلمان سے رابطے سے روک دیا ہے۔ تین امریکی اخبارات نیویارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جنرل اور واشنگٹن پوسٹ کی ویب سائیٹس پر ٹرمپ اور بن سلمان کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کی ریکارڈنگ نشر کی ہے۔ اس گفتگو میں ٹرمپ کو سعودی ولی عہد کو سخت لہجے میں خاشقجی کے قتل کے جرم کے حوالے سے بات کرتے سنا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ کہہ رہےہیں کہ آپ نے خاشقجی کے قتل کا سنگین جرم کیوں کیا ہے۔ اس کے بعد وہ کال بند کردیتے ہیں۔
اخباری رپورٹس کےمطابق ٹرمپ نے اپنے داماد جارڈ کوشنرکو جو سعودی ولی عہد کے دوست سمجھے جاتے ہیں محمد بن سلمان سے رابطے سے روک دیا ہے۔ وزیر دفاع جیمز میٹس نے بھی سعودی ولی عہد سے ٹیلیفون پر سخت بات کرتے ہوئے بات مکمل کیے بغیر ہی کال کاٹ دی تھی۔
ادھر ترک ذرائع ابلاغ میں انکشاف کیا ہے کہ ترک پولیس نے خاشقجی کے قتل کے واقعے کے روز ایک مشتبہ شخص کو استنبول کے ہوائی اڈے سے حراست میں لیا ہے۔ اس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا مگر وہ اس 15 رکنی قاتل ٹیم کا رکن جس نے خاشقجی کے قتل میں مدد کی تھی۔ پیشے کے اعتبار سے وہ فارینزک ڈاکٹر ہے۔حراست میں لیے جانے کے بعد اس نے وہ تمام کہانی ترک حکام کے سامنے کہہ دی ہے کہ خاشقجی کو کیسے قتل کیا گیا۔ اس نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ خاشقجی کو قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد بے ہوشی کا ٹیکہ لگایا گیا۔ اس کے بعد اس کا سرتن سے جدا کردیا گیا۔ اس کی ٹانگوں اور بازوں کے چار چار ٹکڑے کیے گیے جنہیں ایک لکڑی کے صندوق میں ڈال کر سعودی عرب لے جایا گیا۔ گرفتار جلاد نے بتایا کہ محمد بن سلمان نے حکم دیا تھا کہ خاشقجی کا سر کاٹ کرمیرے سامنے پیش کرنا تاکہ میں اس کی تصدیق کروں کہ خاشقجی کو قتل کردیا گیا۔ اس ہدایت پر عمل کیا گیا۔ خاشقجی کا چہرہ سلامت رکھا گیا اور سر محمد بن سلمان کے سامنے پیش کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی پراسیکیوٹری جنرل نے گرفتار سعودی فارنزک ماہر کی ریاض حوالگی کا مطالبہ کیا مگر ترک حکام نے یہ مطالبہ مسترد کریا ہے۔ ملزم کو سخت ترین سیکیورٹی میں رکھا گیا ہے تاکہ وہ خود کشی نہ کرسکے۔ اب تک وہ دو بار خود کشی کی کوشش کرچکا ہے۔ خود کشی سے روکنے کے لیے اسے زیادہ تر غنودگی کی دوائی دی جاتی ہے۔ اس نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے بھی تین گھنٹے تفیصیلی بات چیت کی اور وہ سب کچھ جو انہوںںے خاشقجی کے ساتھ کیا، کس کے حکم پر کیا اور اس کا منصوبہ کیسے کیسے تیار کیا گیا اگل دیا ہے۔
ترک حکومت کے مصدقہ ذرائع کا کہناہے کہ خاشقجی کیس سعودی عرب کا ساتھ دینے پر ترکی کو 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا لالچ اور قطر کا محاصرہ ختم کرنے کی بھی پیش کش کی گئی مگر ترکی نے سعودی لالچ مسترد کردیا ہے۔