چینی فوج نے بھارتی فوج کے قبضے سے لداخ میں کئی کلومیٹر کا علاقہ چھڑوالیا ہے، اب بھارت منت سماجت کے ذریعے علاقہ واپس لینے کی کوشش کررہاہے لیکن چین کا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی فوج نے بھارت کے زیرکنٹرول لداخ میں پانچ سے چھ کلومیٹر اندر تک بھارتی فوج کو دھکیل دیا ہے۔ جبکہ بعض دیگر ذرائع کے مطابق بھارتی فوج سے پینتیس کلومیٹر تک کا علاقہ چھڑوالیاگیا ہے۔ یہ ایک آپریشن ہے جس میں ہزاروں فوجیوں پر مشتمل تین چینی بریگیڈز حصہ لے رہے ہیں۔ ایک سابق بھارتی کرنل اجے شکلا نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
اہم ترین پیش رفت یہ ہے کہ چین نے وادی گلوان کو اپنا حصہ قرار دیدیا ہے۔
بھارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ چینی فوج مختلف مقامات سے اس علاقے میں داخل ہوئی۔ اس نے بھارتی فوج کی چوکیوں اور پلوں کو تباہ کردیا۔ اور وہاں پر نہ صرف اپنے خیمے لگا لئے ہیں بلکہ خندقیں بھی کھود لی ہیں۔
اسی طرح چینی فوج شیوک دریا کی طرف سے بھی داخل ہوئی۔ بھارت نے یہ بھی اعتراف کیا کہ چینی فوج نے پینگانگ جھیل کی طرف سے بھی داخل ہوکر بھارتی فوج کو کئی کلومیٹر اندر تک دھکیلتے ہوئے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ یادرہے کہ یہ علاقہ بھارتی ریاست اترکھنڈ کے قریب ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان ٹکرائو کی یہ صورت حال معمولی نہیں ہے۔ اس تناؤ کو سنہ 1999 میں انڈیا کے روایتی حریف پاکستان کے ساتھ کارگل میں ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی کشیدگی کہا جا رہا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ فوج کو خراب ترین صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اس کے لیے اپنی تربیت اور جنگی تیاری کی سطح میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ فوری طور پر اور مؤثر ڈھنگ سے کسی بھی قسم کی پیچیدہ صورتحال سے پوری قوت سے نمٹ سکے اور قومی سلامتی، سکیورٹی اور ترقیاتی مفادات کا دفاع کر سکے۔‘
بی بی سی کے مطابق انڈیا اور چین کے درمیان جاری کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے ڈویژن کمانڈر سطح پر ہونے والی مذاکرات کے کئی دور ناکام رہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ” انڈیا اور چین کے درمیان بڑے ٹکراوٴ جیسی صورتحال ہے“۔ انھوں نے ثالثی کی پیشکش کی جسے چین نے فی الفور ٹھکرادیا۔
معروف مغربی جریدے ” دی اکانومسٹ“ کے مطابق چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازعہ اب سنگین ہوتا جارہا ہے۔ مئی کے اوائل میں چینی اور بھارتی فوجی گتھم گتھا ہوئے، متعدد زخمی ہو کر ہسپتال پہنچے، تب بھارتی آرمی چیف جنرل ایم ایم ناراوائن اسے معمولی سمجھ رہے تھے لیکن پھر انھیں ایک ہی ہفتہ بعد فوری طور پر چودھویں کور کے ہیڈکوارٹرز نزد لیہہ جانا پڑا۔ تب انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ کچھ بہت سنگین ہونے والا ہے۔ اور پھر وہ سب کچھ ہوگیا جو اِس وقت ساری دنیا کو نظر آرہا ہے۔
چیبی فوج جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، بھارتی فوجیوں نے اپنا سارا سازوسامان چھوڑ کر دوڑ لگادی۔ بھارت اس علاقے میں ایک سڑک تعمیر کررہا تھا، اس کی مشینری اب بھی وہاں پڑی ہوئی ہے جسے چینی فوجی استعمال کرکے نہ صرف اپنے لئے بنکرز تعمیر کررہے ہیں بلکہ دیگر انفراسٹرکچر بھی۔ ان کی سرگرمیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہاں تک آ چکے ہیں، وہاں سے واپس نہیں جائیں گے۔ نیچے چین کی زمینی فوج ہے اور فضائوں میں چینی فضائیہ کے طیارے مسلسل پرواز کررہے ہیں۔
بھارتی سیاسی اور فوجی قیادت روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز کررہی ہے اور موجودہ صورت حال سے باعزت طور پر نکلنے کا راستہ تلاش کررہی ہے۔ چین کی فوج نے پانچ، چھ کلومیٹر کا علاقہ بھارتی قبضے سے چھڑوایا ہو یا پینتیس کلومیٹر کا، بھارت کو ہزیمت کا سامنا ضرور کرنا پڑا ہے۔ اب بھارت بھی اپنی فوج اس علاقے میں جمع کررہاہے، ایک ایسی فوج جس کا مورال بہت زیادہ ڈائون ہے۔ ساتھ ہی ساتھ چین کی منت سماجت بھی کی جارہی ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو واپس بلا لے۔
امریکی اخبار”نیویارک ٹائمز“ نے لکھا ہے کہ ’بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی جو اپنے ملک کے دفاع کے معاملات میں ضرورت سے زیادہ بولتے ہیں، حالیہ انڈیا چین کشیدگی پر خاموش ہیں‘۔
شاید وہ ان حالات میں بولنے کی ہمت نہیں رکھتے جب کہ انڈیا میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے، لاک ڈائون کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت میں تیزی سے خراب ہورہی ہے، جب ہرطرف سے ملکی سرحدوں پر چیلنجز ابھر رہے ہیں، چین کے نئے دوست نیپال نے بھی ملک کا نیا نقشہ جاری کیا جس میں بھارت نیپال کے درمیان متنازعہ علاقے کو اپنا علاقہ قرار دیدیا ہے۔ بھارت اس پر تلملایا ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ بھی کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔
کسی دور میں نیپال اور بھارت میں خوب قربت تھی لیکن سن دوہزار پندرہ میں بھارت نے نیپال کا تجارتی محاصرہ کیا تو نیپال چین کے قریب ہوگیا۔ گویا بھارت نے اپنے اردگرد مشکلات کو خود ہی کھڑا کیا ہے۔
چین نے مالدیپ اور انڈیا کے درمیان ایک جزیرے کا بھی کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ جزیرہ بھارت کے ساحل سے زیادہ دور نہیں، چین نے اسے اپنا بحری اڈہ بنانا شروع کردیا ہے۔ بھارت محسوس کررہا ہے کہ اس کا محاصرہ کیا جارہا ہے۔ بھارتی آرمی کے سابق جنرل ڈی ایس ہودا کا کہنا ہے کہ واضح طور پر چین بھارت کو دبائو میں لا رہا ہے۔
بھارت کے سابق آرمی چیف وی پی ملک کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال اس سے مختلف ہے جیسی چین کی جانب سے ماضی میں حرکتیں ہوتی رہی ہیں۔ ’ایک ہی وقت میں اتنے وسیع سرحدی علاقے میں ایسا ہونا ایک مختلف بات ہے۔ میرے خیال میں فوجی سطح پر اس معاملے کے حل کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ یہ کشیدگی ابھی کافی لمبی چلے گی اور اب شاید اس کا حل سیاسی اور سفارتی سطح پر ہی ہو گا۔‘
بی بی سی کے مطابق ماضی میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر فوجیوں کے درمیان چھوٹے موٹے اختلافات ہوتے تھے، جو بحث وتکرار تک محدود رہتے تھے لیکن اب چینی فوج کا رویہ پہلے کے مقابلے زیادہ جارحانہ اور سخت ہے۔ انڈیا میں یہ بات اب شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ انڈیا-چین سرحد کے متنازعہ علاقوں میں چین کا رویہ اپنے علاقائی دعوے کے ضمن میں منظم طریقے سے سخت ہوتا جا رہا ہے۔
چین کے اخبار’ گلوبل ٹائمز‘ نے لکھا ہے:
’کچھ لوگوں کو اب یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ وہ سرحدی معاملے میں چین کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ بلا شبہ خطرناک اور گمراہ کن ہے‘۔
اجے شکلا جیسی متعدد بھارتی عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی فوجیوں سے علاقے سے نکالنے کے لئے ان پر گولیوں کی برسات کردینی چاہئے۔ تاہم ان عسکری ماہرین کو اندازہ نہیں ہے کہ بھارت کے پاس آپشنز بہت کم ہیں۔ انھیں شاید بھول چکا ہے کہ اس سرحدی تنازعہ پر انیس سو باسٹھ کی جنگ میں بھارت کو بری شکست ہوئی تھی، اس تنازعہ پر ہلاک ہونے والا آخری فوجی بھی بھارتی ہی تھا، جو 1975 میں موت کے گھاٹ اترا تھا۔