ذرا سی بات / محمد عاصم حفیظ:
سوشل میڈیا پر آج لبرلز آنٹیاں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ ایک کے خاوند نے دوسری کے ساتھ تعلقات بنائے۔ بیوی اپنے خاوند کو تو سمجھا نہ سکی البتہ شوہر کی محبوبہ کو اپنی بہن اور گارڈز کے ساتھ جاکر خوب پیٹا، زخمی کرکے لہو لہان کر ڈالا ،اور تیل چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی۔ ویڈیو بھی بنائی اور خود وائرل بھی کی۔
اب بے چاری لبرل آنٹیاں پریشان ہیں کہ کس طرح ”خواتین حقوق“ کا ڈھنڈورا پیٹیں، دونوں طرف اپنا ہی طبقہ ہے، کسے مظلوم کہیں اور کسے ظالم ۔ درمیان میں کوئی ”داڑھی والا “ تو ہے ہی نہیں ۔ وجہ بھی اتنی شرمناک ہے کہ اس کا دفاع کس طرح کیا جا سکتا ہے۔
لبرل طبقے کے طرز زندگی کا گھٹیا ترین روپ بھی سامنے آ رہا ہے کہ ان کے ہاں کس طرح کے تعلقات ہوتے ہیں۔ بیوی اپنے خاوند کی محبوباؤں کو ڈھونڈتی پھرتی ہے اور بھی دو سگی بہنیں، جن کے ساتھ خاوند جی عیاشی کرتے پکڑے گئے اور ویڈیو بھی وائرل ہو گئی۔
جی ہاں! یہ ہے روپ جو لبرل طبقے کے طرز زندگی کا ہے۔ کمال تو یہ بھی ہے کہ کسی کا گھر اجاڑنے کی کوشش کرنے والی بھی لبرل عورت ( جو باقاعدہ پوسٹر پکڑے عورت مارچ کا حصہ تھی) مار پیٹ کرنے والی بھی ماڈرن عورت ۔ ویڈیو بنانے والی اور وائرل کرنے والی بھی عورت ۔ اب ”عورت کارڈ“ کیسے کھیلا جائے!
عورت مارچ میں ”میرا جسم میری مرضی“ کا نعرہ انہی عورتوں نے لگایا تھا۔ اب پتہ چلا ہو گا کہ جب یہ سب ”سچ“ہو جاتا ہے تو پھر کتنا فساد برپا ہوتا ہے۔ کس طرح ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات لگائے جاتے ہیں اور گھروں میں گھس پر تیل چھڑک کر مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ خود ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی جاتی ہے ۔
اس ویڈیو کا دلچسپ پہلو ایک اور بھی ہے کہ خاتون لڑائی کے عروج پر بھی لڑکی کی جانب سے خود کو ”آنٹی“ کہنے پر ڈانٹ دیتی ہے کہ میری ابھی عمر ہی کیا ہے، تم سے چند سال بڑی ہوں، تمہاری آنٹی نہیں۔ یعنی ایلیٹ کلاس کی یہ خواتین لڑائی میں بھی عمر کو ذہن میں رکھتی ہیں ۔ یادرہے کہ مار کھانے، زخمی ہونے والی مشہور ماڈل اور فلم سٹار بھی ہے۔
جی خبر یہ ہے کہ ملک کے معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کی دو بیٹیوں عنبر ملک اور پشمینہ ملک نے اپنے مسلح گارڈز کے ہمراہ دو ماڈل بہنوں عظمی خان اور ہما خان کے گھر گھس کر انہیں مارا پیٹا۔ زخمی کیا اور تیل چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش بھی کی ۔ اس سارے واقعے کی ویڈیو بنوائی اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔
اس سارے واقعے کا سبق یہ ہے کہ ”میرا جسم میری مرضی“ اور ہر ایک کو ”مرضی کی زندگی“ جینے کا حق دینے کے نعرے دراصل خود لگانے والوں کے ہاں بھی کھوکھلے ہی ہیں۔ جب خود پر پڑتی ہے تو طوفان مچا دیتی ہیں اور اپنے خاوندوں کو مرضی نہیں کرنے دیتیں بلکہ خوں خوار حملہ آور بن جاتی ہیں ۔
دوسرا سبق لبرل طرز زندگی کا بدبودار روپ ہے کہ جہاں اس طرح کے تعلقات اور تماشے آئے روز سامنے آتے ہی رہتے ہیں ۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ کاش ہمارے ہاں کے مغرب زدہ لبرل یہ سمجھ جائیں کہ ہمارا معاشرہ مغربی طرز زندگی اور سوچ نہیں اپنا سکتا کیونکہ یہاں کی عورت ابھی اتنی بے حس نہیں ہوئی کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی خاوند کی عیاشیوں کو برداشت کرتی رہے۔
خاندانی فسادات سے بچنے کےلئے ضروری ہے کہ خاندانی طرز زندگی بھی اپنایا جائے ۔ اپنا اور اپنے خاندان کا تماشہ بنوانے کی بجائے اولادوں کو رشتوں کا تقدس سمجھایا جائے اور ایک پاک باز زندگی کا تصور دیا جائے ۔ اس سے ہی ایک بہتر معاشرتی طرز عمل جنم لے سکتا ہے، خاندانوں کی عزت بچ سکتی ہے اور تماشوں سے بچا جا سکتا ہے۔
مغرب زدہ کھوکھلے نعروں کی بجائے اپنی دینی و سماجی روایات کے تحت خاندانی تعلقات اور طرز زندگی بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک تبصرہ برائے “قصہ عظمیٰ خان، آمنہ عثمان کا: تین سبق جو ہم سیکھ سکتے ہیں”
اس پوری تحریر میں آمنہ عثمان کا کہیں ذکر نہیں، پھر ٹائیٹل میں یہ کیوں آیا؟