فینگ ہانگ، چین

سنہ 2050 میں دنیا کی پانچ عالمی طاقتیں کون سی ہوں گی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

تیس برس بعد بڑی عالمی طاقتوں میں امریکا شامل نہیں ہوگا، ویتنام اور فلپائن بھی عالمی طاقت ہوں گے

بریگزٹ، کورونا وائرس اور تجارتی جنگ کی وجہ سے یقیناً اقتصادی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود عالمی معیشت کے بارے میں یہی اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ یہ آنے والے عشروں میں تیزی سے ترقی کرتی رہے گی۔

درحقیقت سنہ 2050 تک عالمی منڈی اپنے موجودہ حجم سے دگنی ہو جائے گی گو کہ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا کی آبادی میں اس دوران 26 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔

اس معاشی نمو سے بے پناہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہوں گی لیکن مستقبل میں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ کہنا انتہائی مشکل ہے۔ اکثر ماہرین اقتصادیات اس بات پر متفق ہیں کہ آج کے دور کی ترقی پذیر معیشتیں مستقبل کی ترقی یافتہ اور معاشی طاقتیں ہوں گی۔

پیشہ وارانہ سروس کی عالمی فرم پی ڈبلیو سی کی رپورٹ ’دی ورلڈ ان 2050‘ کے مطابق 30 برس میں چھ میں سے سات عالمی معاشی طاقتیں وہ ممالک ہوں گے جو آج معاشی لحاظ سے ترقی پذیر ملک ہیں اور امریکا اس فہرست میں دوسرے سے تیسرے درجے پر چلا جائے گا۔

اس طرح جاپان چوتھے سے آٹھویں اور جرمنی پانچویں سے نویں درجے پر چلا جائے گا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنے والے عشروں میں ویتنام، فلپائن اور نائجیریا جیسے ملک بھی معاشی لحاظ سے بے پناہ ترقی کریں گے اور اس فہرست میں بہت اوپر چلے جائیں گے۔

ایسے پانچ ممالک جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں بے حد ترقی کریں گے ہم نے ان میں رہنے والوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ وہ اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کیسے نمٹ رہے ہیں، تیزی سے معاشی ترقی کرتے ہوئے خطوں میں ہونے سے انھیں کیا فوائد حاصل ہو رہے ہیں اور کون سے ایسے مسائل یا مشکلات ہیں جو انھیں درپیش ہیں۔

چین
اگر ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو لوگوں کی مساوی قوتِ خرید جس کا حساب مختلف ملکوں میں قیمتوں کے فرق کو برابر کر کے لگایا جاتا ہے، اس کے اعتبار سے دیکھیں تو چین اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔

ایشیا کے اس سب سے بڑے ملک نے گزشتہ دو عشروں میں بہت تیزی سے ترقی کی ہے لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والی دہائیوں میں جس رفتار سے یہ ترقی کرنے والا ہے اس کے مقابلے میں اس کی اب تک کی ترقی تو آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

چین کے عوام کی نظروں کے سامنے ملک میں تیزی سے معاشی ترقی ہو رہی ہے۔

ایک چینی مصنف رون کوہل جو چین کے صوبے سوچئو کے رہنے والے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 15 برس قبل جب وہ اس شہر میں آئے تھے تو اس پورے علاقے میں کھیت اور پانی کے جوہڑ تھے۔ انھوں نے کہا کہ ان 15 سال میں پورے علاقے کی شکل ہی بدل گئی ہے۔ اب یہ جگ مگ کرتا شہر شاپنگ کی جنت بن گیا ہے جہاں بڑے بڑے شاپنگ مال، صنعتی پارک، اور ریستوران ہیں اور بہت زیادہ ٹریفک ہو گیا ہے۔

یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پورا ملک ہی بدل گیا ہے۔

اس تیز رفتار معاشی ترقی کی وجہ سے ماہر کاروباری حضرات اور بہتر موقعوں کے متلاشی لوگ یہاں کھنچے چلے آ رہے ہیں۔

چین کا سب سے بڑا شہر شنگھائی ہے جہاں بہت سے لوگ اپنے کاروبار کی شروعات کرتے ہیں۔

شنگھائی میں قائم فلکرم سٹریٹجک ایڈوائزری کے بانی امریکی جان پابون کا کہنا ہے کہ شنگھائی بہت کاروباری اور تجارتی ذہن والا شہر ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ علی الصبح گوشت کی مارکیٹ سے لے کر شام گئے تک سڑکوں پر ٹریفک کے اشاروں پر ہارن بجاتی موٹر سائیکلوں کے اژدھام میں پھنسا اور نصف شب تک دفتروں میں کام کرنے والا ہر کوئی ایک دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ تاہم نیویارک شہر کے برعکس جہاں لوگ سب کچھ چھپاتے ہیں، شنگھائی میں ہر کوئی ایک دوسرے کی بات سننے اور بہترین مشورے دینے کو تیار رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں رہنے کے لیے آپ کو چینی زبان مینڈیرن لازمی آنی چاہیے۔ اگر آپ کو زبان نہیں آتی تو کام اور کاروبار کرنے کے مواقع محدود ہیں اور شاید آپ کو سماجی اور ثقافتی تقریبات میں مدعو ہی نہ کیا جائے۔

انڈیا
آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک انڈیا، آنے والی تین دہائیوں میں بہت تیز رفتار سے ترقی کرنے والے ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق انڈیا کی شرح نمو اوسطاً پانچ فیصد رہے گی اور یوں یہ دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل رہے گا۔

توقع کی جا رہی ہے کہ سنہ 2050 تک انڈیا امریکا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن جائے گا اور دنیا کی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ 15 فیصد تک ہو جائے گا۔ اس معاشی ترقی کے مثبت اثرات پہلے ہی لوگوں کی زندگیوں پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

ٹاک ٹریول نام کی کمپنی چلانے والے سورب جندل کا کہنا ہے کہ 20ویں صدی کے اختتام اور 21 ویں صدی کی شروعات میں انھوں نے انڈیا کو بدلتے دیکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس معاشی ترقی سے لوگوں کی زندگیوں میں بہت سے تبدیلیاں آئی ہیں، شہر کی فضا میں اس کا احساس ہوتا ہے، لوگوں کے سماجی رویوں میں اور ملک میں رہنے والوں کی چال ڈھال اور رہن سہن ہی بدل گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پچھلے 15 برسوں میں مثال کے طور پر ٹی وی سیٹ، موبائل فون اور کاروں کے برانڈ ہی بدل گئے ہیں۔ جندل کا کہنا تھا کہ فضائی سفر تک زیادہ رسائی ہو گئی ہے اور لوگوں کے گھر زیادہ پرتعیش ہو گئے۔

اس بہتری نے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بے اندازہ بڑھ گئی ہے لیکن سماجی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کم کی گئی ہے۔ قوانین کا سختی سے نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہوا ہے خاص طور دلی جیسے بڑے شہروں میں۔

اس معاشی ترقی سے لوگوں کو مساوی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ جندل نے کہا کہ ابھی بھی بہت سے لوگ شدید غربت کا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آپ کو بلند و بالا عمارتوں کے درمیان کچی بستیاں نظر آئیں گی۔

معاشرے میں عورتوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا جاتا ہے وہ بھی بہت مایوس کن ہے اور عورتوں کے خلاف جنسی جرائم کی تعداد تشویش ناک حد کو چھو رہی اور ملک کو جیسے ایک بحران کا سا سامنا ہے۔

میسور کی ایک رہائشی نمیتا کلکرنی نے کہا کہ ملک کی ترقی کا تعین اس کے شہریوں کو حاصل انسانی حقوق سے کیا جاتا ہے اور اس ضمن میں ملک کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک عوامی مقامات پر خواتین محفوظ نہیں ہیں اس وقت تک یہ سب ترقی بے معنی ہے۔

غیر ملکیوں کے لیے کلکرنی کا یہ ہی مشورہ تھا کہ وہ انڈیا آنے سے قبل اچھی طرح جائزہ لے لیں کیونکہ انڈیا کے مختلف حصوں میں حالات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مختلف ریاستوں کی اپنی اپنی ثقافت، زبان، رہن سہن، کھانا پینا اور روایات ہیں۔ انھوں نے شمال مشرقی ریاستیں ان کو ذاتی طور پر بہت پسند ہیں۔

جندل کا نئے آنے والوں کے لیے مشورہ تھا کہ وہ اپنے ملکوں کا طرزِ زندگی انڈیا میں مت لے کر آئیں بلکہ ویسا کریں جو انڈیا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر آپ انڈیا کو اپنائیں گے تو انڈیا آپ کو اپنائے گا۔

برازیل
جنوبی امریکا کا یہ ملک سنہ 2050 تک معاشی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں جاپان، جرمنی اور روس کو پیچھے چھوڑتا ہوا پانچویں نمبر پر آ جائے گا۔

معدنی وسائل سے مالا مال اس ملک نے گزشتہ دو دہائیوں میں بڑی تیزی سے ترقی کی ہے لیکن اس کو بدعنوانی اور مہنگائی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

برازیل کے شہری کائیو برسوت کا کہنا ہے کہ انھوں نے 21 ویں صدی کے پہلے عشرے کے اختتام اور دوسرے عشرے کے شروع میں ملک میں معاشی ترقی کے بارے میں پایا جانے والا جوش و خروش دیکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملک میں ایک نئے متمول طبقے نے جنم لیا ہے اور اس خوشحالی کے بارے میں لوگوں میں فخریہ جذبہ پایا جاتا ہے۔

’اس کے ساتھ ہی برازیل کے بڑے شہر ریئو ڈی جنیرو اور ساؤ پالو بہت مہنگے ہو گئے ہیں اور لوگوں کے لیے یہاں رہنا آسان نہیں ہے۔‘

ان کے بقول یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ برازیل نے جس رفتار سے ترقی کی ہے اس کو اس رفتار سے ترقی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

انھوں نے کہا کہ اس ترقی کے ساتھ جو بندرگاہیں، ایئرپورٹ، تجارتی راہداریاں، سڑکیں، ریل کی پٹریاں اور پل تعمیر کیے جانے تھے وہ نہیں کیے گئے۔

معاشی ترقی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کی بنا پر برازیل میں کئی ٹیکنالوجیز جلد اختیار کرنا پڑیں۔ بہت سے ترقی کرتے ملکوں میں اونچی شرح نمو زیادہ مہنگائی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔

ایک ماہر معاشریات انالیسا ناش فرنانڈیز کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے بچت کرنے میں دشواری سے برازیل فن ٹیک اپنانے والا بانی ملک بن گیا۔

انھوں نے کہا کہ پے پال اور ونمو جیسے آن لائن ایپ تو برازیل میں گزشتہ 20 برس سے لوگوں کی زندگیوں کا حصہ ہیں اس وقت سے جب ابھی سمارٹ فون اور اے ٹیم ایم مشینوں کا رواج نہیں ہوا تھا۔

سنہ 2016 میں معاشی کساد بازاری سے ملک کو سخت دھچکا لگا تھا لیکن معیشت میں بہتری کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں اور ملک میں نئے صدر کے حکومت سنبھالنے کے بعد سنہ 2020 انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

برازیل کی ایک اور رہائشی سلوینا فرپیئر نے کہا کہ ملک کو اب بھی معاشی مشکلات کا سامنا ہے لیکن یقینی طور پر یہ اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

انھوں نے کہا کہ برازیل صنعت، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں بہت بڑا ملک ہے لیکن یہاں سروسز کاشعبہ بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اب یہاں سیاحتی شعبے میں بھی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

معاشی ترقی سے قطع نظر نئے آنے والوں کا یہاں ہمیشہ ہی خیر مقدم کیا گیا ہے، خاص طور پر اگر وہ زبان سیکھنا چاہیں۔

انھوں نے کہا کہ برازیل ایک بہت ہی پیار کرنے والا ملک ہے جو باہر سے آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ برازیل کے لوگ بہت ملنسار ہوتے ہیں۔ جب کوئی غیر ملکی ان کی ثقافت اور زبان میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے تو انھیں بہت اچھا لگتا ہے۔ پرتگالی زبان سیکھ کر یہ آپ کو اپنے گھر کی طرح لگنے لگے گا۔

میکسیکو
سنہ 2050 تک میکسیکو دنیا کی ساتویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس وقت وہ گیارہویں نمبر پر ہے اور وہ چار درجے اوپر آ جائے گا۔ اس کی صنعتوں اور برآمدات پر خصوصی توجہ سے حالات میں بہتری آئی ہے لیکن معاشی حالات میں مشکلات کی وجہ سے وہ اس کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا سکا۔

سفر پر بلاگ لکھنے والے فیڈریکو آرزابالاگا کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 برس میں میکسیکو نے معاشی لحاظ سے ترقی ضرور کی لیکن اتنی نہیں جتنی میرے خیال میں اسے کرنی چاہیے تھی یا یہ کر سکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایندھن کی قیمتیں دگنی ہو گئی ہیں اور ڈالر کے مقابلے میکسیکو کی کرنسی پیسو کی قیمت آدھی رہ گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر آپ محنت کرنا جانتے ہیں اور آپ مواقع کی تلاش میں ہیں تو آپ یہاں بہت کچھ کر سکتے ہیں اور بہت سے دوسرے ملکوں سے زیادہ پیسہ کما سکتے ہیں۔

امریکا، کینیڈا اور یورپ کے مقابلے میں میکسیکو میں علاج اور ٹرانسپورٹ بہت سستی ہے۔

امریکی صحافی سوز ہسکن کا کہنا ہے میکسیکو شہر میں اوبر ٹیکسی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں اوسطاً چار ڈالر سے دس ڈالر کرایہ بنتا ہے۔

بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک کی طرح یہاں سڑکوں اور معاشرتی ڈھانچے کا حال کوئی اتنا اچھا نہیں لیکن برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی خبر کے مطابق حال ہی میں حکومت نے اگلے چار برس میں 44 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

میکسیکو کا ہر علاقہ موسم اور ثقافت کے اعتبار سے دوسرے علاقوں سے بالکل مختلف ہے اسی لیے باہر سے آنے والوں کو یہ ہی صلاح دی جاتی ہے کہ وہ یہاں آنے سے پہلے معلومات حاصل کرلیں۔

مقامی لوگوں کی مہمان نوازی باہر سے آنے والوں کو یہاں آباد ہونے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے اور خاص طور پر اگر آپ ہسپانوی زبان کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔

ہسکن کا کہنا تھا کہ لوگ آپ کی مدد کرنے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں اور آپ کو بات چیت میں آنے والی دشواریوں کو دور کرنے کے لیے مدد دیتے ہیں۔

نائجیریا
افریقہ کی ایک بڑی معیشت، جو سنہ 2050 تک بہت ترقی کرنے والا ہے۔ وہ ہر سال سوا چار فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرتا ہوا سنہ 2050 سے معاشی لحاظ سے ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں 22ویں نمبر سے 14ویں نمبر پر آ جائے گا۔

نائجیریا کی حکومت کرپشن میں الجھی ہوئی ہے لیکن لوگوں میں کاروباری رجحان ملک کی ترقی کا پیہہ چلا رہا ہے۔

عالمی کاروبار کے اعداد و شمار کے مطابق نائجیریا کے 30 فیصد افراد کا ذہن کاروباری ہے اور وہ کسی نہ کسی کاروبار کے مالک یا مینجر ہیں جو کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

ایک مقامی ٹی وی چینل کے مالک کولیت اوتشیو کا کہنا ہے کہ ہر طرف ہل چل ہے۔

’نائجیریا کے لوگ بہت محنت کش ہیں وہ بیک وقت ایک سے زیادہ چیزوں پر کام کر رہے ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر طرف کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔‘

ملک کے مسائل بھی جیسا کہ پبلک ٹرانسپوٹ کی کمی بھی کاروبار کا ایک موقع بن گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب نائجیریا میں ایک اوبر کی طرح موٹرسائیکل سواری فراہم کرنے والی کمپنی اوکادس ابھری ہے جس کا اب کثرت سے استعمال ہونے لگا ہے جو ماضی میں اتنی قابل اعتبار نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ اب بالکل اوبر کی طرح آپ اس کے ڈرائیور کو ٹریک کر سکتے ہیں۔

ملک کے لوگ مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں لیکن انھیں حکومتی سطح پر کرپشن اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے بارے میں پریشانی ہے۔

نائجیریا کی ایک اور کمپنی کے بانی چیزوبا انیوہا نے کہا کہ نائجریا کے لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کن ملکوں سے سرمایہ کاری حاصل کی جا رہی ہے، کیا شرائط ہیں اور یہ پیسہ کون خرچ کرے گا؟ انھوں نے کہا کہ ماضی میں دوسرے ممالک ان کے قدرتی وسائل اور خام مال سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔

بیرونی دنیا سے آنے والوں کے لیے لاگوس اور ابوجا مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے اچھی جگہیں ہیں۔ یہ دونوں بڑے شہر ہیں جہاں سکول بہت اچھے ہیں، کھانا بہت اچھا ملتا ہے اور اس کے علاوہ نائٹ لائف بہت اچھی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہاں آباد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ یہاں کسی کو جانتے ہوں جس پر آپ اعتماد کر سکیں۔

یہاں غیر ملکی آسانی سے پہچانے جاتے ہیں اس لیے وہ آسانی سے ہدف بھی بن جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا ضروری ہے کہ احتیاط کی جائے اپنے گرد و پیش اور لوگوں سے ہوشیار رہیں۔
(بشکریہ بی بی سی اردو)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں