تحریر و تصاویر: ڈاکٹر محمد کاشف علی/
سوات دریا نے زمینی اور تاریخی دونوں دھاروں پے خوب سفر کیا ہے۔ یہ دریا سوات وادی کے شمال میں خود سنورتا ہے اور سنوارنے کا کام اُشو اور اتڑوڑ ندیاں کرتی ہیں جو سوات وادی کے انتظامی مرکز مینگورہ کے شمال میں کوئی سو (100) کلومیٹراوپر کالام میں مل کر سوات دریا کی تخلیق اپنی آبی کوکھ سے کرتی ہیں۔
یہ ندیاں خود ہندوکش کے گلشئیروں، چشموں سے تجسیم ہوتی ہیں۔ اپنے سفر کے آغاز میں یہ دریا شرارتی ہوتا ہے، خوب اٹھکیلیاں کرتا ہے اور بچپنے کی طرح اس میں گہرائی تو نہیں ہوتی ہاں توانائی بہت ہوتی ہے۔
تقریباً 250 کلو میٹر کا سفر کر کے جب یہ دریا چارسدہ کے قریب پہنچنتا ہے تو ایک پختہ مزاج ضعیف کی طرح ہوچکا ہوتا ہیں جہاں اس کی گہرائی تو زیادہ ہوتی ہے البتہ وہ ابتداء عمر کی توانائی جاتی رہتی ہے اور یوں دریائے سوات خود کو دریا کابل میں ضم کر دیتا ہے۔
یہ تو ہوگیا ہمارے سوات دریا کا زمینی سفر تو تاریخی سفر میں بھی یہ دریا بانجھ تھوڑی ہے۔
قدیم ہندو مت کی قدیم مذہبی روایات و مناجات ویدوں میں سوات کا نام ”سواستو“ کے ساتھ مذکور ہے۔ اور یہ وید خود دوسری ہزاری قبل مسیح میں موجودہ پاکستان کی سرزمین میں سنسکرت زبان میں مرتب کئے گئے تھے۔
سکندر مقدونوی کا لاؤ لشکر اور اس کے گھوڑے چوتھی صدی قبل مسیح میں اس دریا کے پانیوں سے سیر ہوتے ہیں۔
یہ دریا بدھ تہذیب کا امین ہے کہ دریا نے بدھ دور دیکھا، آج بھی بدھ سٹوپے اور بدھ ویہار سوات دریا کے کناروں پت جابجا تاریخ و تہذیب کی آب یاری کرتے نظر آتے ہیں۔
اور
اسی دریا کے کناروں پر سوات کے یوسفزئی پٹھانوں نے فرنگیوں اور مغلوں سے رزم آرائیاں کیں۔