شاہد خان آفریدی-1

شاہد خان آفریدی کا ایک بیان، پورے انڈیا میں لگ گئی آگ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان:

ہفتہ کے روز پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد خان آفریدی آزادکشمیر پہنچے، وہاں انھوں نے لاک ڈاﺅن سے متاثرہ خاندانوں میں راشن تقسیم کرناتھا، اس سے پہلے وہ وزیرستان سے بلوچستان، خیبر سے کراچی تک راشن بانٹتے رہے۔ ہفتہ کے روز وہ آزادکشمیر کے مختلف علاقوں میں پہنچے، وہاں انھوں نے مختلف تقاریب سے خطاب بھی کیا۔ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شاہد آفریدی نے چند ایسے جملے کہے جنھوں نے پورے بھارت میں آگ لگادی۔

اگر آگ صرف سوشل میڈیا پر ہی لگتی تو نظر انداز بھی ہوسکتی تھی، لیکن جس طرح بھارت کے مین سٹریم میڈیا کے اداروں میں آگ کے الاﺅ بھڑکے، اس نے بہت سوں کو حیران کردیا۔ حالت یہ ہے کہ یہ آگ آج بروز پیر کے روز بھی بجھنے نہیں پائی۔

سب سے پہلے بھارت کے ہر ٹی وی چینل نے شاہد آفریدی کے بیان کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا ۔اس کے بعد طویل دورانیہ کے پروگرام کیے۔

آخر شاہد آفریدی نے ایسا کیا کہہ دیا کہ پورے بھارت میں آگ لگ گئی؟ آئیے! جانتے ہیں:
انھوں نے کہ
”ایک بہت بڑی بیماری اس وقت دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے لیکن اس سے بڑی بیماری مودی کے دل ودماغ میں ہے۔ وہ ہے مذہب کی بیماری، مودی مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس نے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج جمع کردی ہے، جبکہ ہمارے پورے پاکستان کی فوج سات لاکھ ہے لیکن مودی کو یہ نہیں پتہ کہ ہماری سات لاکھ فوج کے پیچھے بائیس تئیس کروڑ کی فوج کھڑی ہے“۔

”ہم سب اپنی فوج کے ساتھ ہیں، میں اپنی پاک فوج کو سیلوٹ کرتا ہوں اور ان کے شہیدوں کو، خاص طور پر جو لوکل لوگ ہیں، جس طریقے سے لوکل کمیونٹی پاک فوج کا ساتھ دے رہی ہے، اس پر میں ان کو سلام پیش کرتاہوں“۔

آپ ذرا اس گفتگو کے ہر جملے کا اچھی طرح سے جائزہ لیں، شاہدا ٓفریدی نے پاکستانی فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا ہے بس! اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک حقیقت بیان کی ہے کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج جمع کررکھی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

لیکن یہ حقیقت سن کر بھارت کا انتہاپسند طبقہ آگ بگولا ہوگیا، اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی۔ جیسے ہی آفریدی نے تقریر ختم کی، بھارتی ٹی وی چینلز نے اس اندازمیں بریکنگ نیوز دی جیسے بھارت پر آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ مجھے تو ایسے لگا جیسے بھارت میں کوئی نائن الیون جیسا واقعہ پیش آگیا ہو۔

بھارتی نیوز اینکرز نے انتہا درجے کی سنسنی اور نفرت کے ساتھ یہ بریکنگ نیوز دی اور پھر مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت اگلنے والوں کو ٹی وی پر بلا لیا۔ اس تقریر کے فوراً بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نے انتہائی غلیظ الفاظ میں اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان اور شاہد آفریدی کا تذکرہ کیا۔

انھوں نے اپنے ان بھارتی کھلاڑیوں کو مخاطب کیا جو ’ آفریدی فاﺅنڈیشن‘ کے لئے مہم چلا رہے ہیں کہ وہ شاہدآفریدی کی اصلیت دیکھیں۔اس کے بعد ایسے تمام کھلاڑیوں نے بھی شاہد آفریدی اور پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہوئے اپنے آپ کو ’آفریدی فاﺅنڈیشن‘ سے علیحدہ کرلیا۔

ریٹائرڈ بھارتی میجر جنرل گگن دیپ بخشی ایک ٹی وی پروگرام میں خوب آگ بگولا ہورہے تھے۔ وہ اپنی گفتگو میں سارا زور صرف اسی بات پر لگارہے تھے کہ اب پاکستان پر چڑھائی کردینی چاہئے۔ ان کے علاوہ کئی تجزیہ نگاربھی بڑی دور دورکی کوڑیاں لارہے تھے۔

ایک تجزیہ نگار کا کہناتھا کہ پاکستانی فوج شاہد آفریدی کو یہاں لائی ہے اور انھیں استعمال کررہی ہے۔ بعض نے کہا کہ پاکستانی فوج اگلے وزیراعظم کے طور پر شاہد آفریدی کو تیار کررہی ہے۔ساری رات ایسے ایسے بچگانہ تجزیے سننے کو ملے کہ ہنس ہنس کے برا حال ہوگیا، اور کامیڈی کا کوئی دوسرا پروگرام دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس سارے معاملے میں کوئی بھارتی ٹی وی چینل پیچھے نہ رہا، ہر ایک نے45، 45 منٹ تک شاہدآفریدی کے چند جملوں پر اپنی بھڑاس نکالی۔

ان پروگراموں میں غیظ و غضب سے بھرے ہوئے چہرے دیکھ کر ہر ایک کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ بھارت کی کما ن ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو نفرت اور عدم برداشت سے بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف آئے روز بھارت میں بیان بازی ہوتی رہتی ہے لیکن پاکستانی قوم اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی، نہ ہی اس کے پاس ایسے نان ایشوز پر دھیان دینے کا وقت ہوتاہے۔

ہمارے ہاں کبھی کسی ایسے نفرت انگیز بیان پر پینتالیس منٹ کا پروگرام نہیں ہوا۔ لیکن ہماری طرف سے جب بھی بھارت کے خلاف چند جملے کہے گئے، وہ ایک چنگاری ثابت ہوئے جس سے ہر بار بھارت ایک بارود کے ڈھیر کی طرح بھک سے اڑا اور وہاں ہر طرف آگ لگ گئی۔ بھارتی انتہاپسند ہفتہ کے روز سے اس قدر زیادہ پاگل ہورہے ہیں کہ آج پیر کے روز بھی شاہد آفریدی کے خلاف ٹرینڈز ٹاپ پر ہیں، وہاں ایسی ایسی ٹویٹس لکھی جارہی ہیں کہ مغربی قومیں بھی بھارتیوں کی باتیں سن کر خوب محظوظ ہوتی ہوں گی۔

اگر شاہد آفریدی نے نریندر مودی کے خلاف کوئی بات کہی بھی ہے تو کوئی انوکھی بات نہیں کہی، خود بھارت کے اندر سے اس سے بھی زیادہ سخت باتیں کہی جاتی ہیں۔ آپ ارون دھتی رائے کے مضامین پڑھ لیں، ان کے لیکچرز سن لیں۔ آپ نیوز اینکر رویش کمار کی باتیں سن لیں۔ حیرت کی بات ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی بھی آفریدی کی باتوں کو برداشت نہ کرے، گوتم گھمبیر ، ہربھجن سنگھ اور یووراج سنگھ نے احمقانہ ٹویٹس کیں۔

ہربھجن سنگھ نے کہا کہ ”ہمارے ملک اور وزیراعظم کا مذاق اڑانے والے آفریدی اب میرے دوست نہیں رہے، میں اور یوراج سنگھ انسانیت کے ناتے ان کی فاﺅنڈیشن کو سپورٹ کررہے تھے، وہ بجائے اس کے کہ ہمارا شکریہ ادا کرتے الٹا پشت پر وار کرنا شروع کردیا، میں اب انہیں کبھی سپورٹ نہیں کروں گا اور نہ ہی ان کیلیے کوئی ویڈیو یا سوشل میڈیا پوسٹ کروں گا“۔

دوسری جانب یوراج سنگھ نے کہاکہ ”مجھے آفریدی کے اپنے وزیراعظم کے بارے میں کمنٹس پر مایوسی ہوئی، میں نے ان کے کہنے پر انسانیت کے ناتے چیریٹی اپیل کی تھی مگر اب ایسا نہیں کروں گا“۔

اب پتہ نہیں کہ ہربھجن سنگھ اور یوراج سنگھ انتہاپسندوں کے دباﺅ میں آکر شاہد آفریدی سے دوستی توڑنے پر مجبور ہوئے یا ان کے اندر بھی انتہاپسندی نے ڈیرہ ڈال دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر شاہد آفریدی کے چند الفاظ نے پورے بھارت میں آگ کے الاﺅ کیوں بھڑکادیے؟
اس کا بہت سیدھا سا جواب ہے کہ بھارت کی حکمران جماعت’بھارتیہ جنتا پارٹی ‘ انتہاپسندوں، دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے جس نے پورے بھارت کو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف شدید نفرت کی آماج گاہ بنادیا ہے۔

بی جے پی کے ایک ایک فرد میں مسلمانوں کے خلاف شدید ترین نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہی جذبات اس نے بھارتی قوم کے ایک بڑے حصے میں بھر دیے ہیں۔ چنانچہ جب بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کو کہیں اقتدار حاصل کرنا ہوتاہے، وہ وہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے الاﺅ بھڑکاتی ہے اوراپنے مذموم مقاصد پورے کرلیتی ہے۔

حالیہ دنوں میں، بھارت میں کورونا وائرس کے علاج کے دوران مسلمان مریضوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایاگیا، پہلے مسلمان مریضوں کو ہسپتال میں الگ وارڈ میں رکھاگیا، پھر ان کا علاج کرنے سے انکار کردیاگیا۔ اس امتیازی طرزعمل پر پوری دنیا بھارت پر شدید تنقید کررہی ہے۔

بھارت: کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز

دوسری طرف بھارتی حکمران کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے انتہائی احمقانہ طرزعمل اختیار کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں کورونا وائرس پھیلتا جارہا ہے، اس میں مبتلا افراد بھی تیزی سے موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں بھارتی حکمرانوں کے خلاف غم وغصہ بڑھتا جارہاہے کہ وہ بیماری پر قابو پانے کے لئے کچھ خاص نہیں کررہی ہے۔ ایسے میں ضروری تھا کہ کسی نہ کسی بنیاد پر پاکستان کے خلاف جذبات بھڑکائےجائیں تاکہ لوگ اپنی بیماری، اپنے پیاروں کا غم بھول جائیں اور پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا کی گولہ باری کا تماشہ دیکھنے میں لگ جائیں۔

بھارت: کورونا وائرس کے ہاتھوں بڑھتی ہوئی شرح اموات

اب بھارتی قوم پر آہستہ آہستہ نریندر مودی اور ان کی پارٹی کا طریقہ واردات واضح ہوتا جارہا ہے۔ شاہد آفریدی کے چند جملوں پر جس طرح بھارتی حکمران جماعت اور اس کا میڈیا بھڑک اٹھا، اس پر خود بھارتیوں کی بڑی تعداد نے شدید بے زاری کا اظہار کیا۔

ایک بھارتی شہری نے یوگندر سنگھ نے کہا کہ ” آپ لوگوں کو بس یہی نیوز ملتی ہیں کیا؟ کہیں اور دھیان دو“،
ابھی نیو شکلا نے کہا کہ ”تم زہر اگلو تو ٹھیک، وہ کچھ کہہ دے تو تمھیں دقت ہوتی ہے بلڈی فول“
اسی طرح بھارتیوں کی بڑی تعداد اپنے حکمرانوں کو اصل کاموں پر دھیان دینے کو کہہ رہی ہے۔

آخر میں ایک پاکستانی نوجوان کا تبصرہ بھی سن لیجئے ۔ شاہد آفریدی کے خلاف دھواں دھار تجریے کرنے والے بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہناتھا کہ
پاکستانی فوج آزادکشمیر میں شاہد آفریدی کو اس لئے لارہی ہے کہ اس کی آزادکشمیر پر گرفت کمزور ہورہی ہے۔

اس پر آزادکشمیر ہی سے ایک من چلے نے جملہ کسا:
” اگرپاک آرمی کی گرفت کمزور ہے تو آجاﺅ ایک بار پھر چائے پینے“۔( اس کا اشارہ بھارتی پائلٹ ابھینندن کی طرف تھا، جو گرفتار ہوا، اس نے یہاں پاکستانی فوج کی مہمان نوازی سے خوب لطف اٹھایا تھا بالخصوص یہاں کی چائے کی تعریف کی تھی)

یہ تو خیر تفنن طبع کے لئے ایک بات تھی۔ میں اصل بات جو کہنا چاہتی ہوں، وہ یہ ہے کہ بھارتی بااثر گروہ کو اپنے باپوﺅں کی باتوں پر دھیان دینا چاہئے، ان پر عمل کرناچاہئے تاکہ یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکے۔
بھارتیوں کے باپوگاندھی نے اکتوبر1947 میں کہاتھا کہ
’ ’ اگرکشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ ملناچاہتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انھیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے سے روک نہیں سکتی“۔

اس لئے
بھارت کو چاہئے کہ جو اخراجات وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور اسے مضبوط بنانے پر لگا رہا ہے، وہ روپیہ پیسہ اپنے ہاں غربت ختم کرنے پر لگائے، لوگوں کی صحت بہتر بنانے پر لگائے، ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے پر لگائے۔

عصر حاضر کی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ آپ کسی خطے پر قبضہ کرنے کے لئے جو کچھ بھی کرلو، وہاں قبضہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگربھارتیوں کو بھی اپنی معیشت کا کباڑا کرنے کا شوق ہے تو مقبوضہ کشمیر کو اپنا بنانے پر خوب خرچ کیجئے لیکن آخر کار وہ آپ کا نہیں ہوسکتا۔ پھر آپ کو گاندھی کی بات یاد آئے گی، لیکن اس وقت کیا فائدہ پچھتانے کا ، جب چڑیاں کھیت چُگ چکی ہوں گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں