نیرتاباں:
اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جاؤ جبکہ تم نشے کی حالت میں ہو، (اور انتظار کرو) جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔( النسا، 43)
اس آیت میں شراب کی حرمت کا قصہ ہے۔ ابھی شراب چونکہ مکمل طور پر حرام ہوئی نہ تھی اور ممانعت نہ تھی اس لئے صحابہ کرام میں سے کچھ شراب پی لیتے تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت شراب سے بچتی ہے تو پھر کیا ”اے ایمان والو“ کو ہم سب اپنے اوپر ایپلائے کر سکتے ہیں؟
جی! ہمارے لئے یہاں کچھ بڑے سبق موجود ہیں۔
ایک تو یہ کہ صحابہ نشے کی حالت میں بھی ہوئے لیکن اذان کی آواز آئی تو ہر کام چھوڑ کر نماز کی طرف لپکے۔ ایک ہم ہیں کہ مصروفیت بڑھ جائے، کام کا بوجھ ہو، تھکن یا بیماری آ جائے، کوئی فنکشن ہو، سب سے پہلے جو چیز متاثر ہوتی ہے، وہ نماز ہے یا تو پڑھنے میں سستی۔ مارے بندھے پڑھ ہی لیں تو اوّل وقت کا خیال نہیں۔
نہ یہ پتہ ہے کہ پڑھ کیا رہے ہیں۔ یہی بات آیت میں کہی گئی کہ نماز کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔ کیا ہم سمجھتے ہیں جو بھی نماز میں پڑھیں؟ اوّل تو ہمیں نماز کے معنی ہی نہیں معلوم جنہیں معلوم ہیں وہ بھی پورے دن کا اگلا پچھلا حساب نماز کے دوران ہی کرتے ہیں۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ ایک تو نماز نہیں چھوڑنی ان شا اللہ۔
پھر چونکہ
نماز مومنین پر مقررہ اوقات پر فرض کی گئی ہے۔
تو اوّل وقت کا خیال رکھنا ہے۔
اور یہ کہ نماز کا معنی سیکھنا ہے۔
اور کم از کم ایک نماز دن میں خشوع کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔
اب یہ کیسے کیا جائے؟ دیکھئے، احسان کا درجہ تو وہی ہے جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ سمجھو تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، ایسا نہیں کر سکتے تو یہی گمان کر لو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ خیال دل میں لانے سے بھی تنے ہوئے اعصاب ایک دم ڈھیلے اور ریلیکس ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خشوع کے لئے چھوٹی سورتیں یاد کرنا اور قل ھو اللہ احد کی جگہ بدل بدل کر نئی سورتوں کا انتخاب کافی سود مند رہتا ہے۔
اسی طرح مسنون دعائیں ہیں جن کا ہمیں سکھایا، بتایا نہیں جاتا، جو رکوع اور سجود میں پڑھی جاتی ہیں۔ اتنے پیارے معنی ہیں، اور پھر رٹی رٹائی دعاؤں کے بجائے یہ پڑھنے سے دھیان بنا رہتا ہے۔ ہم ایک کپڑے روز نہیں پہن سکتے، کھانے میں ورائٹی چاہتے ہیں، گھومنے پھرنے کے لئے نت نئی جگہوں پر جانے کا دل کرتا ہے، لیکن نماز جو پہلے دن سیکھ لی تھی، آج بھی ویسی ہی ہے۔ اسی لئے تو ارتکاز باقی نہیں رہتا کیونکہ ٹرین جو اللہ اکبر کے سٹیشن سے چھوٹتی ہے تو پھر السلام علیکم و رحمتہ اللہ پر ہی بریک لگاتی ہے۔
لباس کا انتخاب اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ خواتین کا ریشمی دوپٹہ بار بار سر سے سرکتا ہو، ٹراؤزر رکوع و سجود میں ٹخنوں سے اوپر ہو جاتا ہو، آستینیں پوری نہ ہوں اور دھیان اس طرف رہے کہ بازو چادر کے اندر رکھوں، ایسے میں توجہ نماز سے ہٹ جاتی ہے۔ اسی طرح حضرات کا زیادہ ٹائٹ پینٹ پہننا یا زیادہ کلف شدہ کرتا کہ دھیان اس کی استری خراب ہونے کی طرف جانے لگے۔ صاف ستھرا، ڈھیلا ڈھالا، خوبصورت لباس پہنا جائے، یہی بہتر ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ بھاگتے دوڑتے نماز کی طرف نہ آیا جائے۔ وضو کرتے وقت ہی خود کو پر سکون کر کے نماز کی طرف بڑھنے کی کوشش ہو۔ mindfulness کا بہت چرچا ہے آج کل۔ یعنی جو بھی کرو اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہو۔ پھر چاہے وہ روٹی کا نوالہ چبانا ہے، یا کھانا پکانا۔ جو کریں، اسی کی طرف دھیان ہو۔ اس کی پریکٹس روز مرہ امورِ زندگی میں کی جائے اور وضو کرتے وقت سے ہی mindful ہوا جائے۔
یاسمین مجاہد کی ایک بات نماز کی مد میں یاد آئی۔ کہتی ہیں کہ
نماز میں آپکا دھیان وہیں ہو گا جہاں آپ کا دھیان نماز کے باہر ہوتا ہے۔ وہ بچے ہوں، جاب ہو، شاپنگ اور کپڑوں کی ڈیزائننگ ہو، محبوب کے میسجز ہوں، وہ جو بھی ہو۔۔۔ تو بالکل جیسے صفائی کرتے وقت پہلے ہر چیز کو اس کی جگہ پہنچا کر اس کے بعد جھاڑو پونچھا کیا جاتا ہے، اسی طرح نماز کے علاوہ اپنی عمومی زندگی میں بھی فوکس کی تبدیلی پر غور کرنا ہو گا۔