پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات اپنے مطالبات لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انھیں بھی اگلے سمیسٹر میں پروموٹ کیا جائے اور لاک ڈائون کے دوران معاشی حالات خراب ہونے کے سبب وہ یونیورسٹیوں کی فیسیں ادا نہیں کرسکتے، اس لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن یونیورسٹیوں کو پابند کرے کہ وہ اس عرصہ کی فیس وصول نہ کرے۔
طلبہ وطالبات کا کہنا ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کی آن لائن کلاسز سے مطمئن نہیں ہیں۔ بعض یونیورسٹیوں نے آن لائن کلاسز کا اعلان کرکے کوئی کلاس نہیں شروع کی۔ اگر یہ کلاسز ہوں تب بھی انھیں اٹینڈ کرنا ہر طالب علم کے لئے ممکن نہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعہ ٹوئٹر پر ابھرنے والے ایک ٹاپ ٹرینڈ میں ایک طالب علم عبدالقدیر کا کہنا ہے کہ
لاک ڈائون نے پورے ملک میں کاروبار مکمل طور پر بند کر رکھے ہیں، ہزاروں، لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، ان حالات میں زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنا مشکل ہورہاہے، تو یونیورسٹی کی فیس کیسے ادا کریں؟
ان کا کہنا ہے کہ جب ان دنوں جب ہمارے والدین کا کوئی ذریعہ آمدن ہی نہیں ہے تو پھر ہم یونیورسٹی کی فیس کیسے ادا کرسکتے ہیں؟ کیا ہمارے ادارے اس قدر سنگدل ہیں کہ اس کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ہیں؟
ڈریم پاکستان کے نام سے ایک صارف نے کہا کہ ریاست طلبہ و طالبات کو تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے دے نہ کہ وہ اسی پریشانی میں مبتلا رہیں کہ کیسے ادا کریں گے یونیورسٹی کی فیس؟
ایک صارف نے کہا کہ آن لائن کلاسز ایک ڈھونگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میرا بیٹا ایک یونیورسٹی کا طلب علم ہے، یونیورسٹی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ آن لائن کلاسز ہوں گی لیکن ابھی تک کوئی ایک بھی کلاس نہیں ہوئی۔ فیسیں وصول کرنے کے لئے ڈھونگ رچانے والوں کو شرم کرنی چاہئیے، کیا ان کے سینوں میں دل نہیں ہیں؟ کیا انھیں ذرہ برابر رحم نہیں آتا بے روزگار والدین پر؟
صبا اکبر نے لکھا کہ کاروبار بند ہیں، اب والدین پریشان ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی فیس کیسے ادا کریں گے؟
آفاق احمد خان نے کہا کہ حکومت تعلیم کے نام پر لوٹ مار کرنے والے بے رحم مافیا کو لگام ڈالے۔
ادیبہ محبوب نے لکھا کہ ڈیلی ویجز والے والدین کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے بڑا مسئلہ پیدا ہوچکا ہے، روزانہ کی بنیاد پر آنے والی آمدن رک چکی ہے، ان کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیسیں ادا کریں۔
بنت مشتاق نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا، تعلیم مکمل طور پر مفت ہوتی، یہ ہمارا حق ہے اور یہ حق اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے تاکہ ہم اپنی زندگیوں کو بہتر کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے اس بحران میں ہمیں نہ لوٹیں۔ کچھ تو رحم کھائیں۔
اسی طرح ایک ٹرینڈ #HEC_PromoteToNextSemester کے عنوان سے بھی ٹاپ پر رہا جس میں طلبہ و طالبات کا کہنا تھا کہ ہر طالب عالم کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ آن لائن کلاسز اٹینڈ کرے، اس لئے بہتر ہے کہ انھیں اگلے سمسٹر میں پروموٹ کیا جائے۔
فرح راجپوت نے کہا کہ حکومت یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کے ساتھ سکولوں اور کالجز کے طلبہ و طالبات جیسا سلوک کرے۔ تمام ریگولر اور پرائیویٹ طلبہ و طالبات کو پروموٹ کیا جائے۔ ہماری زندگیوں کو تباہ نہ کیا جائے۔ ہماری زندگیاں امتحانات سے زیادہ اہم ہیں۔
پاکستان کے طلبہ کی بڑی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا کہنا ہے کہ آن لائن کلاسز تعلیم اور مادر علمی کےلیے فقط دھبہ ہیں۔ نہ تو طلبہ کی تعلیمی سرگرمی بہتر ہو گی بلکہ طلبہ کا اخلاقی standered بھی تباہ حال ہو رہا ہے۔ طلبہ کو بہتر انداز سے پروموٹ کیا جائے اور نئی پالیسی مرتب کی جائے۔_
ہمارا تعلیمی نظام مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے اسے مفت تو کر دیا مگر یکساں نظام تعلیم تا حال رائج نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں حکومتی پالیسی انتہائی مایوس کن ہے۔ طلبہ کے طبقے ہر دور میں پس پشت ڈالا گیا ہے۔
مختلف صوبہ جات کا تعلیمی شیڈول اور پروموشنز پالیسی حیران کن ہے۔ مگر اس پہ اگر عمل درآمد کیا بھی جا رہا ہے تو جامعات کے طلبہ کی پرسنٹیج اپگریڈیشن کا شیڈول جاری نہ کیا جانا۔ اوپر سے آن لائن کلاسز کا فرسودہ سسٹم بڑی زیادتی ہے۔