دعا عظیمی:
پہلے یہ پڑھیے:
فلسفہ بھالوانہ
جیسے ہی میدان صفا چٹ ہوا، حشر برپا کر کے سب نماز پڑھنے نکل گئے اور سارا حسب دستور ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ طوہاْ کرہاْ آمناْصدقناْ تارا نےاپنی طبعی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان جنگ کو صاف کیا. پڑی ہوئی پلیٹوں کے کشتوں کے پشتے دھوئے، گلاس اور جگا جگ یکا یک ٹھکانے لگائے اور مسلسل بوری بند عورتوں کے متعلق سوچتی رہی۔
”یہ چھٹکی بھی نہ جانے آسمان سے ٹاکی اتار لاتی ہے اب پھر کہیں مگن ہو گئی ہے“ اس نے خود کلامی کی جو بڑ بڑبڑاہٹ کے قریب ترین تھی۔
اس نے اپنے ہاتھوں پہ لوشن لگاتے ہوئے ”گمشدہ“کو آوازیں لگائیں۔
”اے کام چور ہڈی کدھر رہ گئیں“
”سامنے آ اور بتا کہ بوری بند عورت کون ہوتی؟؟؟“ تجسس اس کے من میں کلبلا رہا تھا۔
میڈم صاحبہ کتاب اوندھی کیے خواب کے لمبے سفر پہ نکل چکی تھیں، ہڑ بڑا کے اٹھی ”کیا ہوا تارا؟“
”کون آیا ہے اس وقت؟“
”کوئی نہیں آیا، اپنا فلسفہ پوری طرح بگھار کے سو“
بڑی بہن نے حکم صادر فرمایا .
”کون سا فلسفہ؟“
اس نے آ نکھیں ملیں۔
”اوہو، ایک تو نا مجھے راستے میں بھٹکا کے آگے نکل جاتی ہو“
”اچھا..“…اب اسے یاد آیا کہ تارا کیا پوچھ رہی ہے اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
”پتہ ہے ہمارے ساتھ والے خالی گھر میں ایک پٹاخہ آنٹی آئی ہیں، کل ان سے اتفاقاًملاقات ہوئی“
میں نے ان سے بولا کہ آنٹی! آپ ہمارے گھر آئیں…“ تو کہنے لگیں:
”میں عموماْ لوگوں کے گھروں میں نہیں جاتی“
میں نے کہا:”آنٹی! ہمارے گھر میں زیادہ مرد نہیں ہیں، بس ہم دو بہنیں، ایک ابا، ایک اماں اور ایک چاچو ہیں“۔
”اچھا“ ہنسیں، ”گویا تمہارے گھر میں کوئی بوری بند عورت تو نہیں رہتی“
میں حیران یہ کیا بول رہی ہیں مگر وہ اتنی شستہ، شگفتہ تھیں کہ اچھی لگیں:
کہنے لگیں:” بوری بند عورتوں سے مجھے ڈر لگتا ہے“
”میری ان سے بنتی نہیں“
”ان کا زاویہ نظر بہت محدود ہوتا ہے.“
میں نے پوچھا:” وہ کون ہوتی ہیں ؟“
تو ہنس کے کہنے لگیں:” گھر آنا پھر بتاؤں گی..“
اب تو تارا صاحبہ کے پیٹ میں درد ہونے لگا ”میں نے بھی ان کو ملنا ہے“
”پتہ ہے وہ این سی اے میں پڑھاتی ہیں“
سارا نے گویا شوق کو مزید پنکھا جھلا۔
تارا کا خواب تھا این سی اے میں داخلہ لینا اب تو ملنا واجب تھا۔
اگلے دن ٹرے میں سامان سجائے، افطاری سے پہلے دونوں بہنیں خوب تیار شیار قدم کھسکانے لگی تھیں کہ اماں کی کڑک دار آواز آئی:
”کدھر جا رہی ہو لڑکیو؟؟؟“
”اماں نئی ہمسائی کو افطاری کا سامان دے کر ثواب کمانے جا رہے ہیں“
سارا نے غور سے دیکھا۔
کیا اپنی اماں بھی بوری بند تو نہیں ہو گئیں اور تو کچھ نہیں بس! اماں کپڑے بوری جیسے پہنتی تھیں۔ کہتیں: ”بیٹا، اب اس عمر میں ایسے ہی اچھے لگتے ہیں، اوپر شاوا یہ بڑا سا ململی دوپٹہ“
آنٹی بہت شریر ہیں اس نے دل میں سوچا۔
خیر انہیں وہاں ان کے گھر ہر شے بہت اچھی لگی، نفاست اور نزاکت کا مرقع و مرصع سجا ہوا گھر، مغربی پوشاک پہنے سمارٹ سی آنٹی اور فلسفہ بوری بند پہ لمبی چوڑی ہنستی مسکراتی گفتار، واپسی پہ وہ بولیں:”اب تم نے نہیں بننا ایسی عورت سمجھ آئی نا“
وہ ہنسیں،” جی آنٹی! سمجھ گئے“
ویسے سماجی اقدار کی بوری میں بند ہو جاتی ہیں عورتیں اپنا جوہر اپنی ذات سب کہیں رکھ کے بھول جاتی ہیں۔ جیتے جی خود کو مار لیتی ہیں ان کی ذات یا تو ممتا کا گھی والا ٹین بن جاتی ہے یا شکر کی بوری۔
خیر! عورت کے سارے روپ پیارے ہوتے ہیں۔
”سنو! دل چاہتا ہے اپنے چشمش چاچو کو بھالو بنا دیں“
”ویسے آئیڈیا برا نہیں“
” وہ کہاں مانیں گے“
دونوں ہاتھ ملنے لگیں۔
”مجھے تو لگتا ہے ان کے دماغ میں ایسی ہی آئیڈیل ہو گی..“.
”اس کے لیے ملاقات رکھنی ہو گی…!!!“
مگر خدا کا کرنا کہ اس سے پہلے کہ وہ ملاقات کا بندوبست کرتیں جب وہ عید کے تیسرے دن خود عید کی پارٹی منانے ایک ریسٹورنٹ گئیں وہیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں،
”چشمش چاچو این سی اے والی آنٹی کے ساتھ پائے گئے“
دونوں نے بلا تکلف چیخیں ماریں۔
”چل چھاپہ ماریں“
دونوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے گویا رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو جیسے۔
ایسے کرتے ہیں پیچھے والی کرسیوں پہ بیٹھتے ہیں، پشت کر کے باتیں سنتے ہیں
دونوں نے عظیم کارنامہ چپکے سے سرانجام دیا اور مزے سے بیٹھ گئیں۔
”دونوں آپس میں ہنس رہے تھے“
”لگتا ہے بات پکی ہونے والی ہے“
تارا نے سارا کو ٹہوکا دیا، ان کے دل بلیوں اچھل رہے تھے، حسین آنٹی ان کے گھر کا فرد بن جائیں گی، ان کے پاؤں زمین پر نہیں تھے، یہ ایک خوامخواہ کی رومانی خوشی تھی۔
”آپ بہت حسین ہیں اور حاضر جواب بھی“
چاچو کا ڈائیلاگ بڑی مشکل سے سنائی دیا ۔
ان کا سیروں خون بڑھا۔
”جی! دراصل میرے سر پہ کوئی تاج جو نہیں“ سرگوشی شرارت سے بھیگی ہوئی تھی۔
”میں سمجھا نہیں“
کہنے لگیں:
”میں نے دولہے شاہ کی ٹوپی نہیں سلوائی ابھی تک “
اوہ آئی سی
آپ کا اشارہ….
دونوں نے دل کھول کے قہقہہ لگایا اور چاچو کہنے لگے ,”آپ کی عقل کو داد دیتا ہوں“
”میں نے بھی… “
دونوں نے ایک دوسرے کو داد دی۔
پل بھر میں پانسہ پلٹ گیا، بنی بنائی فلم فلاپ ہو گئی۔
اتنا دکھ شاید ڈائریکٹر، پروڈیوسر کو بھی نہ ہوا ہوگا جتنا اچانک ان دونوں کو ہوا۔
سینڈوچ پھیکے لگنے لگے۔
گھر آتے سمے دونوں بہنوں کے ارمانوں پہ پانی پڑ چکا تھا، وہ دونوں حسن شادی کے خلاف دلائل دے رہے تھے۔
جب کہ یہ اپنے فارمولے فٹ کیے گانے یاد کر رہی تھیں:
ویر میرا کوڑی چڑھیا…… سا نو دے جا وے ویرا واگ پھڑائی
چاچو سہرے والیا..تیرے سہرے تو میں واری آں…