ارطغرل، ڈرامہ

آپ ارطغرل دیکھیے!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

آمنہ مفتی:

پی ٹی وی پر ارطغرل کی کھڑکی توڑ نمائش جاری ہے اور لوگوں کو پی ٹی وی کا سنہرا زمانہ یاد آنے لگا ہے۔ جب اس دور کے مقبول ڈراموں کو دیکھنے کے لیے سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ بقول شخصے، پی ٹی وی کا مردہ گھوڑا زندہ ہو گیا ہے مگر ’یہ جینا بھی کوئی جینا ہے ببوا؟‘

تاریخ خود کو دہراتی ہے مگر بہت عجیب طرح سے۔ سڑکیں تو آج بھی ویران ہیں مگر اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ پی ٹی وی کی ٹی آر پیز اور یوٹیوب سبسکرائبرز بے تحاشا بڑھ رہے ہیں مگر اس کے پیچھے پی ٹی وی کی ذاتی قابلیت کی بجائے مانگے کی ضیا ہے۔

ٹی وی، فلم اور سٹیج کے لیے موضوعات کا انتخاب کرتے ہوئے، تاریخ ایک ایسا گودام ہے جہاں سے چنے ہوئے موضوعات شاز ہی ناکام ہوتے ہیں۔ باکس آفس، ٹی آر پیز اور سٹیج کی آمدن، سب گواہ ہیں کہ تاریخ سے زیادہ دلچسپ موضوع کوئی نہیں ہوتا۔

’انارکلی‘ امتیاز علی تاج کا ڈرامہ، آج بھی اسی شوق سے سٹیج کیا جاتا ہے۔ کہانی، مکالمے اور انجام معلوم ہونے کے باوجود لوگ فقط اس لیے دیکھنے جاتے ہیں کہ اس بار جو اداکار شیخو، بنا ہے وہ کیسا نظر آتا ہے، انارکلی کی چھب کیا ہے اور مہابلی کا سر پر غرور کیسے تنا ہوا ہے۔

ہالی ووڈ کی تاریخی فلموں کا ذکر شروع کر دوں گی تو کالم بجائے خود ایک انسائیکلو پیڈیا بن کر رہ جائے گا۔ دور کیوں جائیں، پی ٹی وی کے بنائے ہوئے تاریخی ڈراموں کا ہی ذکر کر لیجیے۔

کون ہے جسے ’آخری چٹان‘ اور ’شاہین‘ جیسے لافانی ڈراموں نے دیوانہ نہ بنائے رکھا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ ’آخری چٹان‘ کی آخری قسط تھی اور شام سے بتی غائب تھی۔ ہم سب لد لدا کے ایک کزن کے گھر ڈرامہ دیکھنے پہنچے تو وہ عین ڈرامے کے درمیان ٹی وی سکرین کے آگے دونوں ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہو گئے کہ مجھ سے ملنے تو نہ آئے تھے، ڈرامہ دیکھنے آئے تھے، لو اب دیکھ لو ڈرامہ!

پی ٹی وی کے تاریخی ڈراموں پر نظریاتی اور تحقیقی لحاظ سے جتنی مرضی نکتہ چینی کی جائے مگر ان پر کی گئی محنت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پرویز مشرف صاحب کے دور میں میڈیا انڈسٹری بنا۔ ڈرامہ پی ٹی وی نامی اکیڈمی سے نکل کر میڈیا کی منڈی میں آ گیا۔ آگے جو ہوا، وہ مجھ سے زیادہ آپ جانتے ہیں۔ وہی جو ہر منڈی میں ہوتا ہے۔ ڈرامہ سستے، بھڑکیلے کپڑے پہنا کر شوکیس میں کھڑا کر کے دو دو ٹکے کو بیچا گیا۔

یہ دور ٹی وی سے وابستہ لوگوں کے لیے خوشحالی بھی لے کر آیا مگر ہمارے میڈیا کے سیٹھ دور اندیش نہ تھے۔ کلاسیک اور تاریخ کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ آج بھی کسی بھی ڈرامہ چینل کے کانٹینٹ ڈیپارٹمنٹ میں کسی بھی ادیب کے بارے میں سب سے ’گندی بات‘ یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ تو کلاسیک اور تاریخ پر لکھنا چاہتے ہیں۔

مومنہ درید، سیما طاہر، بابر جاوید اور چند ایک دوسرے پروڈیوسرز نے جان جوکھم میں ڈال کر چند ایک تاریخی ڈرامے بنوائے بھی تو غیر تربیت یافتہ ٹیم اور تاریخ کے غلط دور کو چننے کے باعث فلاپ بھی ہوئے اور فی قسط، اتنی زیادہ لاگت بھی آئی کہ جلد ہی توبہ تائب ہو کر، حلالہ، طلاق ، دوسری شادی، ساس کی سازشوں اور ساجن کی سہیلی پر ڈرامہ بنا کر دنیا کی نعمتوں سے مالا مال ہوئے۔

بیچ میں ایک دور ایسا آیا کہ ’میرا سلطان‘ نے مقامی میڈیا کو کچھ جھنجھوڑا کہ بے خبر سوتا ہے کیا؟ یہ بدیشی مال اپنی منڈی بنا گیا تو تم کہاں جاؤ گے؟ ’مور محل‘ بنایا گیا لیکن بری طرح فلاپ ہوا، جس کی واضح وجوہات تھیں مگر بوجہ خوف فساد خلق ’میں نہیں بتائوں گی۔‘

’گھگھی‘ اور ’آنگن‘ کے بعد یوں لگتا ہے کہ تاریخی ڈراموں کا باب پاکستان میں تو فی الحال بند ہو گیا۔ آج کسی پروڈیوسر سے تاریخی ڈرامے کا نام لیجیے تو وہ جن نظروں سے دیکھتا ہے انھیں احاطہ تحریر میں لانا میرے بس سے باہر ہے۔

ارطغرل ابتدا نہیں ہے۔ یہ سلسلہ کئی برس سے جاری ہے۔ ڈرامہ ایک صنعت بنا تھا تو اسے ایک صنعت ہی کی طرح چلانا چاہیے تھا۔ آج کے کیبل ٹی وی کو ویب سے بھی خطرہ ہے۔

بین الاقوامی منڈی میں مقبول ڈرامہ مقامی ڈراموں کی نسبت سستا مل جاتا ہے۔ مہنگے، سودیشی ڈرامے کی جگہ سستا اور ناظرین کو مسحور کر دینے والا بدیشی ڈرامہ چینل کو مرغوب ہے، اسی میں اس کا فائدہ ہے۔

ہم اپنی مقامی منڈی ہی کو قابو نہ کر سکے۔ دیکھنے والے کو تماشا چاہیے۔ دس سال میں ناظرین کی ایک نئی نسل جوان ہو جاتی ہے۔ وہ نسل پچھلی نسل سے ذہین ہوتی ہے۔

اپنے ہی پرانے ڈراموں، ہندوستانی فلموں اور سوپ کی نقل کب تک دیکھی جائے گی؟ ارطغرل کی کامیابی آپ کی کامیابی نہیں ہے۔ ناظرین نے آپ کا مال رد کر دیا ہے۔ انھیں جو دیکھنا تھا وہ کوئی اور بنا رہا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنی منڈی ہاتھ میں رکھ کے دنیا کے ناظرین کو بھی متاثر کیا جاتا مگر ہوا یہ کہ ہمارے حاکم اعلی ہی نے کہا، آپ ارطغرل ڈرامہ دیکھیے!

رہی ڈرامے کی مقامی صنعت اور اس سے وابستہ لوگ تو پروڈیوسرز کے لیے تو ’ادھر ڈوبے ادھر نکلے‘ والی کیفیت ہو گی مگر ہنر مند، اپنے انگوٹھے کٹوا بیٹھے ہیں۔

تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے، ہمارے کرگھے بند اور بدیشی ملیں چالو،
’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔‘(بشکریہ بی بی سی اردو)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں