حکیم نیاز احمد ڈیال
[email protected]
روزے کی روحانی اہمیت کی طرح طبی افادیت بھی مسلمہ ہے۔قدیم ماہر اطباء اور جدید طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ روزہ رکھنے سے مختلف امراض میں مبتلا مریض بیماریوں سے مکمل شفایاب ہوجاتے ہیں جبکہ کئی ایک بیماریوں کے اثرات میں کمی واقع ہوتی ہے اور مریض بتدریج صحت مند ی کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے۔ دوران روزہ بدن انسانی میں جمع شدہ ایسے زہریلے مادے جو بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں، انہیں میٹابولزم استعمال کر کے توانائی میں تبدیل کرکے جسم کے لیے مفید بنا دیتا ہے۔
روزہ رکھنے سے کولیسٹرول، یورک ایسڈ، شوگر، یوریا، کریٹینائن اور دوسرے بہت سارے عناصر کی بڑھی ہوئی مقداریں متوازن ہوجاتی ہیں اور اس مریض کی اس بیماری سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ دوران روزہ سحر و افطار میں سادہ، ہلکی پھلکی اور گھریلو غذاؤں کا استعمال کر کے ہی روزے کے بہترین طبی ثمرات سے مستفید ہواجا سکتا ہے۔
جدید میڈیکل سائنس کے نظریہ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ”شوگر کا مرض لبلبہ کے فعل میں نقص واقع ہوجانے سے پیدا ہوتا ہے“۔ لبلبہ“ اینڈو کرائن سسٹم کے دیگر اعضاء کے ساتھ مل کر اپنے افعال سر انجام دیتا ہے۔ پینکریاس یا لبلبہ ایک لمبوترا غدود ہے جو پسلیوں کے نیچے بائیں جانب واقع ہوتا ہے۔ یہ دو طرح کے ہارمونز خارج کرتا ہے۔”انسولین“اور”گلوکو کان“۔ ان دونوں ہارمونز کا کام خون میں شوگر لیول کو متوازن رکھنا ہوتا ہے۔
”انسولین“خون میں شوگر کی مقدار کو کم جبکہ”گلوکوکان“ شوگر میں اضافہ کرتا ہے۔ یوں جب انسولین اور گلوکوکان کی افزائش میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے تو شوگر کی علامات سامنے آنے لگتی ہیں۔
یوں شوگر کا مرض پیدا ہونے کی صورت یا تو انسولین کی افزائش میں کمی بنتی ہے یا پھر گلوکوکان کی مقدار میں زیادتی،یا پھر مذکورہ ہارمونز میں سے کسی ایک کی افزائش میں کمی یا زیادتی سے خون میں گلوکوز کا لیول خراب ہونے سے شوگر کے اثراتِ بد انسانی صحت کو متاثر کرنے لگتے ہیں۔
اسی طرح شوگر کے حوالے سے فطری طرز علاج کے مطابق شوگر کو پانچ اقسام میں بیان کیا جاتا ہے:
معوی شوگر:
یہ شوگر ایسے لوگوں کو لاحق ہوتی ہے جن کی انتڑیوں میں خرابی پیدا ہو کر انتڑیوں کی کار کردگی متاثر ہوجائے۔ معوی شوگر کے مریض کے پیٹ میں نفخ،اپھارہ، بدبو دار ریح کا اخراج،مستقل قبض کی علامات اور مزاج میں بے چینی وبے سکونی شامل ہیں۔مذکورہ اسباب کا خاتمہ کردینے سے شوگر کی علامات بھی ختم ہوجاتی ہیں۔
معد ی شو گر:
یہ شوگر معدہ خراب ہونے کے باعث پیدا ہوتی ہے اور اس میں بد ہضمی، تبخیر، گیس،تیزابیت،جلن وغیرہ کا احساس رہتا ہے۔معدے کے امراض کا علاج کرنے سے ہی معدی شوگر سے بھی نجات مل جاتی ہے۔
جگریِ شوگر:
جگر کے افعال میں نقص پیدا ہوجانے سے بھی شوگر کی علامات سامنے آنے لگتی ہیں،اس میں جگر کی سوزش، جگر کا بڑھ جانا،جگر کا سکڑ نا،ہیپاٹائیٹس اور یرقان کے کامیاب علاج کے بعد جگری شوگر سے چھٹکارا میسر آجاتا ہے۔
دماغی شوگر:
ذہنی مسائل جیسے سٹریس، ڈپریشن،ٹینشن اور اینگزائیٹی کی وجہ سے بھی شوگر میں اضافہ سامنے آنے لگتا ہے۔ذہنی تناؤ اور اعصابی دباؤسے جان چھڑا کر دماغی شوگر کی علامات سے بچا جا سکتا ہے۔
بانقراسی شوگر:
لبلبہ کی کار کردگی میں خرابی واقع ہوجانے شوگر کی علامات کا سامنے آنا جنرل یا بانقراسی شوگر کہلاتا ہے۔ مسلسل اور غیر ضروری چکنائیوں اور مرغن غذاؤں کے بے دریغ استعمال سے لبلبے کی انسولین کے افراز کرنے کی صلاحیت متاثر ہونے سے جسم کو مطلوبہ مقدار نہ ملنے سے جسم میں شوگر کا لیول بڑھ جاتا ہے۔
بانقراسی شوگر کے اثرات سے بچاؤ کے لیے چکنائیوں،مٹھائیوں،بازاری مشروبات،میدے سے بنی مصنوعات، چاول، بادی، مرغن غذاؤں اورسہل پسندی سے پرہیز بے حد لازمی ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر لوگ شوگر کی ہر طرح کی علامات کو کو بانقراسی شوگر ہی تصور کرتے ہیں۔
نوٹ:۔ مختلف علامات کے تحت ظاہر ہونے و الی شوگر کے اسبا ب دور کردینے سے شوگر کی علامات کا خاتمہ راقم کے تجربات میں لاتعداد بار آچکا ہے۔ شوگر کے مریضوں کو اپنے معالج کے مشورے سے روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ معالج اپنے مریض کی بدنی کیفییت،مرض کی نوعیت اور مریض کی حالت کو بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔
تاہم پھر بھی عام قارئین کے لیے گزارش ہے کہ ایسے افراد جو انسولین باقاعدگی سے لگاتے ہوں انہیں چاہیے کہ روزہ رکھنے کی صورت میں انسولین لگانے سے اجتناب کریں کیونکہ دوران روزہ بدن میں گلوکوز کا لیول کم ہونا فطری امر ہے جبکہ انسولین بھی یہی کام سر انجام دیتی ہے۔ بحالت روزہ انسولین لگانے سے جسمانی شوگر لیول غیر ضروری حد تک کم ہونے کا احتمال ہوسکتا ہے جس سے مبتلا مرض کی زندگی کو خطرہ بھی پہنچنے کا اندیشہ ہوگا۔
اسی طرح شروع کے روزوں کے دوران میں اپنی شوگر کا لیول مانیٹر کرتے رہیں جونہی شوگر لیول متوازن ہوجائے تو شوگر کی ادویات بھی وقتی طور پر ترک یا مقررہ مقدار میں کمی کردینی چاہیے چونکہ دوران روزہ انسانی بدن کا خود کار نظام بدنی رطوبات اور فاسد مادوں کو قابل استعمال بنا کر ان سے توانائی حاصل کرنے لگتا ہے۔ جس سے شوگر کی بڑھی ہوئی مقدار مناسب ہوجاتی ہے۔
شوگر کے مریضوں کو چینی،جام، چٹنیاں،بازاری مشروبات،پیکڈ پھل،ٹافیاں،چاکلیٹس،کیک، مٹھائیاں،چاول، مٹھاس والی بیکری کی مصنوعات، چکنائی سے لبریز خوراک اور مربہ و خمیرہ جات کے استعمال سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
سحری میں سادہ روٹی کو روغن زیتون، روغن بادام،تلوں کے تیل یا سورج مکھی کے تیل سے چپڑ کر دہی میں زیرہ سفید حسب ذائقہ اور گنجائش کے مطابق استعمال کریں۔ شوگر میں وٹامن بی اور تھایا مین کی کمی واقع ہونے سے اعصاب کی سوزش اور خون کی نالیوں کا سکڑاؤ ہونے لگتا ہے۔ دہی میں زیرہ سفید ملا کر کھانا تھایا مین کے حصول کا بہترین قدرتی ذریعہ ہے۔
اسی طرح افطاری میں وٹامن سی سے بھرپور غذاؤں اور مشروبات کا استعمال کرنا بھی بدنی قوت مدافعت میں اضافے کے ساتھ ساتھ شوگر کے اثرات بد سے بھی حفاطت سے رہتی ہے۔ اس سلسلے میں لیموں کی شکنجبین دیسی شکر سے تیار کردہ یا ہلکی نمکین بھی فائدہ مند ثابت ہوگی۔
اسی طرح 6 سے 7عددآلو بخارا، 5 سے 7 عناب اور ایک چمچ انار دانہ دن بھر پانی میں بھگو گر شام کو مل چھان کر حسب ضرورت پانی کا اضافہ کر کے (بغیر میٹھا اور برف ڈالے)روزہ افطار کریں۔ اس قدرتی مشروب کے استعمال سے لا تعداد طبی و بدنی فوائد میسر آئیں گے۔ افطار ڈنر میں دیسی مرغی، بکرے کا گوشت یا پرندوں کا گوشت پتلے شوربے والا یا یخنی بنا کر چپاتی کے ساتھ لازمی استعمال کریں۔
شوگر کے مریضوں میں اعصابی کمزوری سب سے نمایاں علامت پائی جاتی ہے۔بعد ازافطاری حسب ضرورت دودھ میں آسگند ناگوری ایک سے دو گرام پکا کر دودھ پینے سے فوری توانائی مل جاتی ہے۔ اسی طرح دودھ پتی میں مناسب مقدار میں دار چینی،ادرک اور ایک چھوٹی الائچی پکا کر بطور چائے پینا بھی جسمانی نقاہت کو فوری زائل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
اگر جسم قبول کرتا ہو تو کافی ایک کپ پی لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں تاہم گرم مزاج والے افراد کو تلخی محسوس ہو سکتی ہے۔اعصاب و عضلات، دل ودماغ اور اعضائے رئیسہ کو تقویت دینے کے لیے دو گولیاں حب جواہر کا استعمال بھی بہترین نتائج کا حامل ثابت ہوتا ہے۔ روز مرہ خوراک میں گرل کیا ہوامٹن یا دیسی مرغ کا استعمال بھی بہترین غذا ہے۔
ادرک، لہسن، پودینہ اور انار دانہ ہم وزن گرائنڈ کر کے بطور رائتہ بھی افطاری کے مزے کو دو بالا کر سکتا ہے۔دن بھر بھیگے ہو ئے مغز بادام 20,15 دانے چبا کر کھائیں یہ بھی د ن بھر کی کمزوری دور کرنے اور جسم کو فوری توانا کرنے کے لیے بہترین قدرتی غذ ا اور دوا ہے۔ سونے سے قبل جو یا گندم کا دلیہ، تازہ پھل (پپیتہ بہترین ہے) یا دودھ میں روغن بادام حسب ضرورت لازمی ملا کر پیا جائے۔
شوگر کے مریضوں کے لیے ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ دوران رمضان روز مرہ معمولات اور خورو نوش کی عادات کو ہی عام دنوں میں بھی جاری رکھا جانا چاہیے۔کیونکہ دوران روزہ سامنے آنے والی بدنی کیفیات یہ ثابت کرتی ہیں کہ آپ کے بدن کو بار بار اور بسیار خوری کی نہیں بلکہ کم اور اعتدال کے ساتھ خوراک کی ضرورت ہے۔
اگر صحت مندی زیادہ کھانے سے مربوط اور مشروط ہوتی تو دوران رمضان مریضوں کی کثیر تعداد بغیر ادویات کے بھی تن درست وتوانا نہ رہتی۔ یہ بات ہم نے لاتعداد قارئین کی دی گئی معلومات کی روشنی میں کی ہے جو مختلف اوقات میں اپنی بدنی حالت ہمارے ساتھ ڈسکس کرتے رہتے ہیں۔
لہٰذا ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شوگر سمیت تمام خطرناک بیماریاں بار بار اور بسیار خوری کا نتیجہ ہیں۔ ہم آج بھی اپنی خور ونوش کی عادات اور روز مرہ معمولات میں اعتدال اور توازن پیدا کرکے موجودہ دور کے موذی، مہلک اور خطر ناک امراض کو شکست فاش دے سکتے ہیں۔
صحت و مرض کے حوالے سے مسیحائے انسانیت حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ”معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز ہر دوا کی بنیاد ہے اور ہر جسم کو وہی کچھ دو جس کا وہ عادی ہے“۔ اسی طرح فرمایاکہ”معدہ حوض کی مانند ہے جس میں سے نالیاں چاراطراف جاتی ہیں، اگر معدہ درست ہو تو رگیں تن درستی لے کر جاتی ہیں اور اگر معدہ خراب ہو تو رگیں بیماری لے کرجاتی ہیں“۔
سرور کونین ﷺ کے فرمودات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری بیماری یا تن درستی کا دارو مدار ہماری روز مرہ خوراک اور خورونوش عادات پر ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی خوراک میں مقدار کی بجائے معیار کا دھیان رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ اگر ہماری خوراک معیاری،متوازن اور ملاوٹ سے پاک ہو اور ہم اعتدال کے دائرے میں رہتے ہوئے کھانے پینے کی روش اپنالیں تو خاطر خواہ حد تک بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجائیں گے۔