ڈاکٹرشائستہ جبیں:
آمنہ کے گھر سے جیسے ہی اُن کی رشتہ دار خاتون کی واپسی ہوئی، ان کی بیٹیوں کو گلہ ہوا کہ اماں دیکھیں! آنٹی اپنی بیٹیوں کی لیاقت، ذہانت، خوبصورتی اور سگھڑاپے کے کس قدر قصے بیان کیے جا رہی تھیں، جب کہ ہم بھی جانتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اتنی بھی خوبیوں کی مالک نہیں، جتنا وہ بیان کر رہی تھیں، اور ایک آپ ہیں کہ کبھی کسی کے سامنے ہماری جائز تعریف بھی نہیں کرتیں.
آمنہ نے انہیں سمجھایا کہ بیٹا! ماں کا کام تربیت کرنا ہوتا ہے، اچھی تربیت لوگوں سے ازخود تعریف کا باعث ہوتی ہے،اور وہ اپنی بیٹیوں کی جھوٹی تعریف کر کے انہیں جھوٹ نہیں سکھا سکتیں.
ان کی بیٹیوں کو یہ بات سمجھ تو نہ آئی کہ کیسے جھوٹ سکھایا جاتا ہے لیکن وہ چپ ہو گئیں. آمنہ کی ایک بیٹی انہی رشتہ دار خاتون کی کلاس فیلو تھی. کالج میں ایک مضمون کے عملی کام کے لیے طالبات کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا. آمنہ کی بیٹی اور ان خاتون کی بیٹی ایک ہی گروپ میں کام کر رہی تھیں،
تب بچی کو پتہ چلا کہ آنٹی کی بیٹی بات بے بات جھوٹ بولنے کی عادی تھی اور ٹوکنے پر مزے سے کہہ دیتی تھی کہ کیا ہوا، اک ذرا سا جھوٹ ہی تو ہے، اس سے کیا نقصان ہو گیا۔ تب آمنہ کی بیٹی کو ماں کی بات سمجھ آئی کہ جن گھروں میں مائیں اپنے بچوں کے سامنے اور ان کی تعریف میں مبالغہ کرتی ہیں، وہ بچے بھی لاشعوری طور پر اس قبیح عادت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اتوار کا دن تھا، ایک پڑوسن ہانپتی کانپتی ان کے گھر آئی کہ تمہارے بھائی کے گھر میں لڑائی ہو رہی ہے، وجہ یہ معلوم ہوئی کہ آمنہ کے بھائی کی بہو میکے گئیں اور وہاں سے والدہ کی ناسازی طبع کا بتا کر رات قیام کی اطلاع دے دی۔
آمنہ کی بھابھی اپنی بیٹی کے ساتھ شام کو بازار گئیں تو وہاں بہو بیگم کو اپنی بہن کے ساتھ خریداری کرتے دیکھ کر حیران رہ گئیں، اور اب اسی معاملے کو لے کر گھر میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ آمنہ سر پکڑ کر رہ گئیں کہ اگر بہو کو رکنا تھا تو جھوٹ بول کر ایسا کیوں کیا اور خود کو سسرال میں ناقابلِ اعتبار ٹھہرا لیا۔
یہ محلے کے ایک گھر کا منظر ہے، جہاں شام ڈھلے میاں بیوی کمرے سے نکلے اور میاں نے والدین کو بیوی کی طبیعت میں خرابی کا بتاتے ہوئے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا بتایا۔ گھر سے باہر نکل کر اُن کا رخ بازار کی طرف ہو گیا اور بیوی نے کھلکھلا کر اپنے شوہر سے کہا کہ اگر آپ میری طبیعت کی خرابی کا ذرا سا جھوٹ نہ بولتے تو بھلا اس وقت ہم بازار جا سکتے تھے اور دونوں ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
مریم کی دوست کا فون آیا، وہ یونیورسٹی میں ہونے والے ٹیسٹ کی تیاری مل کر کرنے کے اس کے گھر آنے کی خواہش مند تھی. مریم نے اُسے گھر میں مہمانوں کی موجودگی اور اپنی مصروفیت کا بتا کر معذرت کی اور پڑھائی میں مشغول ہو گئی، بڑی بہن کے ٹوکنے پر کہ جھوٹ کیوں بولا تو مزے سے ذرا سا جھوٹ ہی تو ہے، میرا اس کے ساتھ مل کر پڑھنے کا ارادہ نہیں تھا، کہہ کر کندھے اُچکا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی.
بیٹا شام کو دفتر سے واپسی پر حسبِ معمول والدہ کو سلام کرنے ان کے کمرے میں گیا تو والدہ کو دوپٹہ سے سر باندھے لیٹے دیکھ کر پریشان ہو گیا اور بیوی کو آوازیں دینے لگا کہ چائے بنا کر لائے، والدہ نے یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ تمہاری بیوی گُھلنے ملنے والی نہیں ہے، الٹا سیدھا کام کر کے کمرے میں بند ہو جاتی ہے، اور خاوند کی آواز پر آئی بہو کمرے کے باہر پریشان کھڑی تھی کہ تھوڑی دیر پہلے ہی تو وہ انہیں چائے دے کر، ان کے کہنے پر ہی اپنے کمرے میں گئی تھی، تو اب وہ بیٹے سے اس طرح کیوں کہہ رہی ہیں؟
وقار صاحب کو ان کی بیگم نے بیرون شہر سے آئے کچھ رشتے داروں کی ان سے ملنے آنے کی اطلاع دیتے ہوئے دفتر سے جلد واپسی کا کہا تو وہ بیزاری سے گویا ہوئے کہ بتا دینا میں دفتر سے دیر سے واپس آتا ہوں، خود ہی بھگتا لیجیے گا. ماں باپ کی گفتگو سنتے دس سالہ بیٹے نے باپ سے بے ساختہ کہا بابا! آپ ماما کو جھوٹ بولنے کا کہہ رہے ہیں تو والد نے بچے کو جھڑک کر وہاں سے اٹھا دیا.
ماریہ بہت خوبصورت اور سلیقہ مند لڑکی تھی، اس کی دوست انعم کے گھر پر انعم کے والد کے ایک دوست کی فیملی نے اسے دیکھا تو انعم کی والدہ سے کوائف معلوم کرنا چاہے، انعم کی والدہ نے سب سے پہلے انہیں یہی بتایا کہ وہ منگنی شدہ ہے. بعد میں جب انعم نے والدہ سے اس جھوٹ کی بابت پوچھا کہ ماریہ تو منگنی شدہ نہیں ہے، پھر آپ نے ایسا کیوں کہا؟ والدہ نے بیٹی کو سمجھایا کہ ان کے پوچھنے سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ رشتے کے لیے پوچھ رہے ہیں اور میں اتنا اچھا رشتہ تمہیں چھوڑ کے ماریہ کے لیے کیسے جانے دیتی؟
یہ محض چند مثالیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کسی زہر کی مانند ہمارے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے. والدین، اولاد سے، اولاد، والدین سے، طالب علم، استاد سے، دکاندار، خریدار سے، افسر ماتحت سے، ماتحت افسر سے، حکومتی نمائندے عوام سے ایسے ہی ذرا سا جھوٹ بولنے کی عادت میں مبتلا ہیں اور ہر بات اور ہر معاملے میں جھوٹ کی یہ عادت پختہ تر ہو چکی ہے.
اس عادت بد میں مبتلا ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہماری مذہبی تعلیمات سے لاعلمی اور دوری ہے. والدین جن کے ذمے اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت فرض ہے، وہ بچوں کی دینی، معاشرتی اور اخلاقی بنیادوں پر تربیت کرنے کی بجائے دور حاضر کے فتنوں میں مبتلا ہو کر خود اخلاقی پستی کی راہوں پر چل نکلے ہیں. ان حالات میں بچے کہاں اور کس سے صحیح اور غلط اور جھوٹ وسچ کی تمیز سیکھیں.
اس حوالے سے اگر مذہبی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے. جسے ہم ذرا سا جھوٹ کہہ کر معمولی گناہ سمجھتے ہیں، وہ ایسا گناہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے.
ارشاد باری تعالیٰ ہے :لعنت اللہ علی الکاذبین.
ترجمہ :جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے. (آل عمران 3:161)
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر جھوٹ سے ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے. ارشاد ہوتا ہے. وجتنبوا قول الزور.
ترجمہ :اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو. (الحج 22:30)
اللہ رب العزت نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ وہ جھوٹ بولنے والے کو ہدایت نہیں دیتا. فرمان الٰہی ہے. ان اللہ لا یھدی من ھو کاذب کفار.
ترجمہ :بے شک اللہ تعالیٰ جھوٹے، ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا. (الزمر 39:3)
اللہ رب العزت نے انسانوں کو سچ بولنے اور سچ بولنے والوں کی صحبت میں رہنے کی تلقین کی ہے. ارشاد ہوتا ہے. یا ایھا الذین آمنوا اتقوااللہ و کونوا مع الصدقین.
ترجمہ :اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو. (التوبہ 9:119)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے جھوٹ کو جہنم کی طرف لے جانے والا فعل قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا:
”بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے. ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے. اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف اور ایک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا، بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے. “ (صحیح بخاری)
عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میری ماں نے مجھے بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم وہاں تشریف فرما تھے. وہ بولیں: ادھر آؤ، میں تمہیں کچھ دوں گی. آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ان سے فرمایا :تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟ وہ بولیں: میں اسے کھجور دوں گی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا:
سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا. (سنن ابو داؤد)
جب حدیث مبارکہ کے مطابق ماں کے لیے بچے کو اپنی کسی ضرورت کے لیے جھوٹ بول کر بلانا تک درست نہیں تو کسی بڑے کے ساتھ جھوٹی بات اور جھوٹا معاملہ کسیے کیا جا سکتا ہے؟
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے کہا،”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم! میری ایک سوکن ہے، تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا اگر میں اسے جلانے کے لیے کہوں کہ میرے شوہر نے مجھے یہ چیزیں دی ہیں، جو اس نے نہیں دی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : جلانے کے لیے ایسی چیزوں کا ذکر کرنے والا جو اسے نہیں دی گئیں اسی طرح ہے جیسے کسی نے جھوٹ کے دو لبادے پہن لیے ہوں.“(سنن ابو داؤد)
جھوٹ بولنے سے انسان باطنی طور پر کھوکھلا ہو جاتا ہے اور اس کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے. جھوٹ بولنے سے انسان اپنے کردار کی مضبوطی کھو دیتا ہے اور ناقابلِ اعتبار فرد بن جاتا ہے. بعض لوگ مذاق کے نام پر جھوٹ بولتے ہیں اور اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے.
احادیث مبارکہ میں مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کی ممانعت کی گئی ہے. مزاح کی حس قابلِ ستائش ہے لیکن اس میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں. مزاح میں جھوٹ بولنے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا فرمان ملاحظہ ہو.:
”ہلاکت ہے ایسے شخص کے لئے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے اپنے بیان میں جھوٹ بولے. ہلاکت ہے اُس کے لیے، ہلاکت ہے اُس کے لیے.“ (سنن ترمذی وسنن ابو داؤد)
زندگی کے چند امور ایسے ہیں جن میں جھوٹ بولنے کی معمولی گنجائش موجود ہے لیکن ایسے امور میں جہاں جھوٹ بولنے کی چھوٹ ہے، ہم بڑی بے رحمی سے سچ بولتے ہیں. اگر جھوٹ بولنے سے دو لوگوں میں صلح ہو سکتی ہو تو جھوٹ کا سہارا لیا جا سکتا ہے لیکن ایسے مقام پر عموماً سچ کو اختیار کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے درمیان مصالحت نہ ہو سکے.
غور کیجئے ہمارے اکثر جھوٹ دوسروں کے سامنے اپنی برتری ثابت کرنے یا انہیں جلانے کے لیے ہوتے ہیں. ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ جھوٹ اللہ رب العزت کے ہاں ہمارا مقام و مرتبہ کتنا پست کر رہے ہیں. معمولی سا گناہ سمجھ کر ہم جس دھڑلے سے اس کے مرتکب ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس معمولی گناہ کو تمام گناہوں اور برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے.
سوچئے، سمجھئے، جانیے اور خدارا عمل کیجئے.
یا ایھا الذین قوا انفسکم واھلیکم ناراً.
ترجمہ :اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ. (التحریم 66:6)
3 پر “ذرا سا جھوٹ!” جوابات
بہت اچھی تحریر ہےایک اہم عنوان کے ساتھ.ڈاکٹرآپ ایسی تحریریں لکھتی رہیں جن میں معاشرتی اصلاح کے عمدہ پہلو ہوں قرآن و احادیث کی روشنی میں. اللہ ہم سب کو ان معاشرتی برائیوں سے بچائے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے. آمین
Bhtttt achy Dr… Esy topics zror discuss hony chahiyen.. Jin cheezon ko bht minor ly liya jata hai.. Un py ghor krna chahiye
ا لسلا م و علیکم!بہت عمدہ عنوان آج کی تحر یر کا۔ہما رے معا شرے کی ا صلا ح و بقا سچا ی ہی کے قر ینے میں ہیں۔ا للہ پا ک ہمیں جھو ٹ جیسی لعنت سے با ز ر کھے جس کی وعید قر آن میں کہی مقا ما ت پر دی گی ہے۔جز ا ک اللہ خیرا معا شر ے کی ا صلا ح دین کے کا موں میں سے ا ہم کا م ہے۔
شکر یہ۔۔