پاکستان میں ان دنوں ’’ڈونکی کنگ‘‘ نامی ایک فلم کا خوب چرچا ہے. اس میں پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف ترین لوگوں نے حصہ لیا، جن میں جان ریمبو، غلام محیی الدین ، جاوید شیخ،اسماعیل تارا اور حنا دل پذیرشامل ہیں. جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، یہ فلم ایک اندازے کے مطابق نوکروڑ دس لاکھ روپے کا بزنس کرچکی ہے. فلم کا ایک خاص پہلو ہے جس کے سبب ’’ڈونکی کنگ‘‘ شہرت حاصل کررہی ہے، مسلم لیگ ن والے اس فلم کا تذکرہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی طرف دیکھ کر کھی کھی کرتے ہیں، ایسے میں تحریک انصاف والے نظریں جھکا لیتے ہیں. ان کے ذہن کے کسی کونے کھدرے میں یہ خیال موجود ہے کہ جیو فلمز نے اس فلم میں عمران خان اور پاکستان کے ایک اہم ترین ادارے کو نشانہ بنایا ہے. برادرم محمد بلال غوری اس فلم کی کہانی کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’ڈونکی کِنگ‘‘ پاکستان کی پہلی ’’حرکت پذیر‘‘فلم ہے جس میں گدھوں کو گاجروں کے بجائے اقتدار کا خواب دکھایا گیا ہے۔کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے لیکن جب اس کے گھٹنوں میں درد کے باعث انتقال اقتدار کی بات آتی ہے تو اس کے بیٹے کو تاج و تخت سے محروم کرنے کے لئے ایک گدھے کو اس کے مقابلے میں بطور امیدوار کھڑا کر دیا جاتا ہے۔گدھا جس کا نام ’’منگو ‘‘ ہے اور پیشے کے اعتبار سے دھوبی ہے وہ کچھ پس وپیش کے بعد الیکشن لڑنے پر آمادگی ظاہر کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ریاست کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار ہوں مگر وزن 30کلو سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔گدھے کی امیج بلڈنگ کا کام ٹی وی چینلز چلانے والے بندر سنبھال لیتے ہیں۔چالاک لومٹری ’’مس فتنہ ‘‘ جو ’’راج نیتی ‘‘ کے اس کھیل میں بادشاہ گر ہے وہ یہ تاویل پیش کرتی ہے کہ مشکل وقت میں لوگ گدھے کو باپ بنا لیتے ہیں،ہم نے تو صرف بادشاہ ہی بنایا ہے۔بہر حال سیاسی بندوبست کے تحت انتخابات میں گدھے کو کِنگ سلیکٹ کر لیا جاتا ہے۔’’منگو ‘‘ کے راجہ بنتے ہی آزادنگری کے مکینوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں،لاقانو نیت انتہا کو چھونے لگتی ہے،چالاک لومڑی سرکس ماسٹرز کے ایما پر قانون کی دھجیاں اڑانے لگتی ہے۔جنگل کے معزول بادشاہ اور اس کے بیٹے کو نامعلوم مقام پر قید کر دیا جاتا ہے۔جانور اور ان کے بچے لاپتہ ہونے لگتے ہیں، گدھے کو ان حالات کی خبر ہی نہیں ہوتی۔یہاں تک تو فلم حقیقت کے قریب ترین ہے لیکن اس سے آگے ’’ہیپی اینڈنگ‘‘ کی شروعات ہو جاتی ہیں۔ایک دن ’’ڈونکی راجہ ‘‘ کو سرکس ماسٹرز کا کھیل سمجھ آجاتا ہے،وہ اپنی آنکھوں سے جانوروں کواغوا ہوتے دیکھ لیتا ہے ’منگو‘‘ جو ذات کا گدھا ہے اور جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ کبھی نہیں سدھر سکتا،وہ بدل جاتا ہے اور جنگل کے دیگر جانوروں کے ساتھ لاپتہ جنگلی حیات کی بازیابی کے لئےنکل کھڑا ہوتا ہے۔فتنہ فساد کا باعث بننے والی لومڑی ماری جاتی ہے جبکہ سب جانور آزاد ہو جاتے ہیں بادشاہ اور اس کا بیٹا بھی رہا ہو جاتے ہیں۔’’منگو‘‘ تسلیم کرتا ہے کہ وہ بطور مہرہ استعمال ہواجبکہ بادشاہت پر شیر کا حق ہے،شیر بھی وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’منگو‘‘ کو کہتا ہے کہ تم مینڈیٹ لیکر آئے ہو، اقتدار پر تمہارا حق ہے یوں آزادنگری کے سب مکین ایک بار پھر ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس فلم میں عمران خان کی تضحیک کی گئی ہے اور پاکستانی فوج کو نشانہ بنایاگیا ہے؟ بلال غوری کا کہنا ہے کہ ’’ڈونکی کنگ‘‘ ایک غیر سیاسی فرضی کہانی ہے۔ فرضی کہانی کے برعکس حقیقی زندگی میں بھلا یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ کسی گدھے کوعقل آجائے اور وہ سرکس ماسٹرز کا کھیل سمجھ جائے۔لیکن چونکہ گدھے کے سر پر سینگ نہیں ہوتے اس لئے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس فلم میں ان کا مذاق اڑایا گیا ہے حالانکہ یہ فلم تو محض گدھوں کی حوصلہ افزائی کے لئے بنائی گئی ہے تاکہ انہیں حکمرانی کا لالی پاپ دے کر مزید محنت مشقت پر آمادہ کیا جا سکے۔