خطبہ رمضان اور ہماری ذمہ داریاں

خطبہ رمضان اور ہماری ذمہ داریاں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانَ(185) سورہ البقرہ

تحریر:محمد بلال اکرم کشمیری

ﷲ رب العزت نے انسان کے ذمے جو عبادات فرض فرمائی ہیں ،وہ تین طریقے کی عبادات ہیں ،کچھ عبادات ایسی ہیں کہ جن کا تعلق انسان کے جسم کے ساتھ ہے ،بدن کے ساتھ ہے ان کو بدنی عبادات کہتے ہیں،جیسے نماز ،جیسے روزہ ،اور دوسری قسم کی وہ عبادات ہیں جن کا تعلق مال کے ساتھ ہے ،دولت کے ساتھ ہے ،جیسے زکوۃ ،تیسری قسم کی عبادت جسمانی بھی ہے اور مالی بھی جیسے حج۔تو اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لیے تینوں قسم کی عبادات رکھیں ، صرف جسمانی بھی ،صرف مالی بھی اور جسمانی اور بدنی دونوں بھی ۔

ایسی ہیں کہ جن کا تعلق انسان کے جسم کے ساتھ ہے ،بدن کے ساتھ ہے ان کو بدنی عبادات کہتے ہیں،جیسے نماز ،جیسے روزہ ،اور دوسری قسم کی وہ عبادات ہیں جن کا تعلق مال کے ساتھ ہے ،دولت کے ساتھ ہے ،جیسے زکوۃ ،تیسری قسم کی عبادت جسمانی بھی ہے اور مالی بھی جیسے حج۔تو اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لیے تینوں قسم کی عبادات رکھیں ، صرف جسمانی بھی ،صرف مالی بھی اور جسمانی اور بدنی دونوں بھی ۔

            نبی ﷺ جو ہم سب کے لیے رہنما اور رہبر بن کر تشریف لائے ان کی ایک عادت مبارکہ تھی کہ ہمیشہ نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے اس کا شوق دلانے کے لیے ذہن سازی فرماتے تھے ،آج اگر اپنی عملی زندگی پر نظر دوڑائیں تو ہم زندگی کے اندر جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کو سیکھتے ہیں ،اسے سمجھتے ہیں پھر کرتے ہیں ،یہاں تک کہ گھروں کے اندر اگر خواتین سالن بھی بنانا چاہتی ہیں تو اس کے لیے بھی ایک طریقہ ہے ، ایک سلیقہ ہے ،اس کی ایک ترکیب ہے ،اسی طرح ہم زندگی میں بہت سے کام کرتے ہیں اس میں سے اکثر ،وہ کام زیادہ بہتر طریقے سے ہوتے ہیں جس میں پہلے سے ذہن بنا دیا جائے ،اور اگر اچانک کچھ کرنا پڑ جائے تو وہ بھی ہو جاتا ہے ،لیکن اس معیار کا نہیں ہو تا ،اس لیے آج وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ ہم خاص طور پر نوجوان نسل ، بچیاں اور ہمارے معاشرے کے وہ افراد جو دین سے بظاہر دوری محسوس کرتے ہوں ،ان کی ذہن سازی کی جائے ۔چنانہ نبی ﷺ نے رمضان آنے سے پہلے دو ماہ قبل دعائیں شروع کر دیں ،حدیث کی کتابوں میں وہ دعا موجود ہے اللھم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنا رمضان اے اﷲ ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے ،ابھی رمضان آنے میں دو مہینے ،پھر جب رمضان بالکل قریب آیا تو شعبان کے بالکل آخر میں رمضان سے قبل نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو جمع کر کے رمضان المبارک کے بارے میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا ،اگر آپ اس خطبے کے ایک ایک جملے کو سمجھنے کی کوشش کریں ،تو معلوم ہو گا کہ پورے خطبے میں نبی ﷺ نے ذہن سازی کی ہے ،یہ رمضان ہوتا ہے کیا ہے؟اس میں کرتے کیا ہیں ،کیا فائدہ ہے رمضان میں یہ اعمال کرنے کا ،پورا ایک پروگرام دیا کہ کیا کیا کرنا ہے ، چنانچہ آج کی اس تحریر میں نبی ﷺ نے جن جن الفاظ میں ذہن سازی فرمائی ،انہی الفاظ کو انہی مبارک جملوں کو مضمون میں ترجمہ اور مفہوم کے ساتھ تحریر کرتاہوں۔

 حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں رمضان سے ایک دن پہلے جمع کرکے ایک خطبہ ارشاد فرمایا،نبیﷺ نے اس خطبے میں یہ ارشاد فرمایا یا ایھاالناس قد اضل کم شھر عظیمکم اے لوگوں تم پر ایک عظیم مہینہ ،ایک عظمت والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے ،اور پھر فرمایا،شھر مبارک وہ بابرکت مہینہ ہے فی لیلۃ الف شہر ،اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،یہاں مراد لیلۃ القدر ہے ،اور اس لیلۃ القدر کے حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ ایک روایت میں ہے کہ جب نبی ﷺ نے گزشتہ امتوں کی عمریں بتائی تھیں ،کہ طویل عمریں ہوتی ہیں تھیں اس زمانے میں ،ایک ایک ہزار سال بھی عمر ہوتی تھی ایک ایک بندے کی ،ممکن ہے کہ بعض حضرات کے ذہن میں یہ بات آئے کہ وہ مستند روایتیں ہیں،کہ اتنی طویل عمریں ہوتی تھیں ،اس کا جواب ہے کہ تما م روایتیں ایک طرف اور حضرت نوح ؑ کی عمر کے حوالے سے قرآن کی ایک آیت ایک طرف ،کہ ہم نے نوح ؑ کو ان کی قوم طرف بھیجا اور وہ اپنی قوم میں ٹھہرے رہے ایک ہزار سال 50سال کم ،یعنی ساڑھے نو سو برس ،اس پر صحابہ کرام ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ نبی ﷺ پھر تو ہم اگر ساری زندگی عبادت کرتے رہیں اور امت محمدیہ ﷺ کی عمریں اتنی کم ہیں تو ایسی صورت میں پھر تو ہم ان کی نیکیوں تک نہیں پہنچ سکیں گے ،اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے ان کے یہ شب قدر عطا فرمائی ،خیر من الف شہر کہ یہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،اگر آپ ہزار مہینوں کے سال بنانا چاہیں تو یہ بنیں گے 83سال چار مہینے ،یعنی ایک انسان اپنی زندگی کے اندر ایک رمضان میں شب قد ر پا لے تو اسے 83سال چار مہینے کے برابر نہیں ،خیر من الف شہر اس سے بھی بہتر اس کو بدلہ دیا جائیگا،اور آج اگر کوئی شخص خاص طور پر نوجوان طاق راتوں کے اندر عبادت کر لیں،گزشتہ امتوں کی عبادتوں سے کئی زیادہ عبادت ان شا اﷲ ان کے نامہ اعمال میں موجود ہو گی ،یہ وہ بات ہے جو نبی ﷺ نے فرمائی ،کہ فی لیلہ خیر من الف شھر،کہ اس مہینے میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،

 پھر فرمایا کہ اﷲ نے ایک اس مہینے میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے ،اور رات کو قیام یہ’’ تطوع ‘‘قرار دیا ہے ،’’تطوع ‘‘ کہتے ہیں ایسی نفلی عبادت کو جو سنت موکدہ ہے یعنی تراویح،آج وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے، آج خاص طور پر نئی نسل بچے اور بچیوں کے ذہین میں یہ بات بٹھائی جائے ،گھر کا ماحول بنایا جائے کہ رمضان کا روزہ فرض ہے ،لیکن افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے ہاں بعض گھروں کا یہ حال ہو چکا ہے رمضان کے اندر بھی صبح ناشتہ بھی اسی طرح ،دوپہر کا کھانا بھی اسی طرح لگتا ہے ،رات کا کھانا بھی اسی طرح میز پر لگتا ہے ، پورے رمضان کے اندر تصور نہیں ہوتا کہ روزہ بھی ہے کسی کا،یہ ایمان والوں کے گھر ایسے نہیں ہونے چاہیے،ٹھیک ہے گھرمیں کوئی بزرگ ہے بیمار ہے ،کوئی خاتون ہے بیمار ہے نہیں روزہ رکھ سکتے تب بھی گھر میں ماحول ایسا رکھا جائے ،جس میں سحری کا انتظام موجود ہو،افطاری کا انتظام موجود ہو ،دن بھر میں گھر کے افراد ایک دوسرے کے سامنے نہ کھائیں ،اس سلسلے میں دینی تعلیمات تو یہ ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو یا عورت جو شرعی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اسے تشبہ بی صائمین کرنا چاہیے ،یعنی روزے کی حالت میں روزہ داروں سے مشاہبت اختیار کرنی چاہیے ،جس کو اﷲ نے اجازت دی ہے روزہ نہ رکھنے کی وہ بھی روزہ داروں سے مشاہبت اختیار کرے تاکہ ماحول بنے اس لیے آج وقت کا تقاضا ہے یہ کہ جو نبی ﷺ نے اس خطبے میں ارشاد فرمایا کہ روزہ فرض ہے ،بتایا جائے اس نسل کو بار بار کہ اﷲ نے یہ رمضان کا روزہ فرض قرار دیا ہے ،

 پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ اس رمضان کے اندر کوئی ایک نفلی کام کرتا ہے ،اس کو رمضان کے علاوہ فرض کام کرنے کا ثواب ہوتا ہے ،اس مہینے میں خوب صدقہ خیرات کیجیے ۔آج کے ماحول میں جب کہ کرونا وبا سے ایک کثیر تعداد متاثر ہے ،لہٰذا اس سلسلے میں تو بڑھ چڑھ کر ان کی مدد کی جائے ،اس سے جہاں اﷲ کی مخلوق خوش ہو گی تو وہاں اﷲ بھی خوش ہو گااور ایک ایک نیکی کا اجر 70گنا یا اس سے بھی بڑھ کر عطا کیا جائے گا۔

 پھر نبی ﷺ نے اس خطبے میں ارشاد فرمایا،شہر صبر،یہ رمضان صبر کا مہینہ ،صبرکہتے ہیں کہ تکلیف پہنچنے پر کوئی شکوہ شکایت زبان پر نہ آنے دینا،دوسرا معنی مشائخ اور اکابر بتاتے ہیں کہ گناہوں سے رکنا،یہ صبر کا مہینہ ہے ،انسان اس میں گناہوں سے رک جاتا ہے اور اس کا ثواب صرف جنت ہے ،

                        پھر فرمایا نبی ﷺ نے و شھر مواسات کہ یہ غم خواری کا مہینہ ہے ،دکھ درد کو محسوس کرنے کا مہینہ ہے ،خالی پیٹ انسان کودوسرے کے دکھ درد کا احساس ہو تا ہے ،خود بھوک اور پیاس گرمی کا موسم ہو دوسرے کی بھوک اور پیاس کااحسا س ہوتا ہے ،جب تک انسان کا پیٹ بھرا رہتا ہے اسے دوسرے کا احساس نہیں ہوتا ہے ،

             نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ غم خواری کا مہینہ ہے ،یہ تربیت کا مہینہ ہے ، آپس میں دکھ درد کے احساس کومعلوم کرنے کا مہینہ ہے ،

            پھر فرمایا کہ یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں مومن کے رزق میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ،مومن کے رزق میں اس مہینے میں اضافہ کر دیا جاتا ہے ،لیکن ہمارے معاشرے کے اندر جو رمضان کے اندر خاص طور پر وہ کھانے پینے کی چیزیں جن کا تعلق ضروریات زندگی کے ساتھ ہے جیسے چینی ،گھی ،دالیں وغیرہ ان کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک میلنگ شروع ہو جاتی ہے ۔ ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ نبی ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ جو بندہ زخیرہ اندوزی کرتا ہے لوگوں کا خون چوستا ہے صرف اس وجہ سے کہ میں پیسہ کمالوں اس پر لعنت کی جاتی ہے ،اگر رمضان میں انسان دوسرے انسانوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہو ، تو ایسی صورت میں اس کے رزق میں اﷲ تعالیٰ کبھی برکت نہیں دیتا ،اس لیے آپ حضرات سے گزارش ہے کہ جن حضرات کا تعلق مارکیٹوں کے ساتھ ہے ،کاروباری طبقے سے ہے ،وہ کھانے پینے کی چیزوں سے متعلق قیمتوں کو کم کرنے کی کوشش کریں،لوگوں کی سہولت کے لیے کام کریں اور کوشش کریں کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت کے ساتھ آسانی کے ساتھ لوگوں کو کھانے پینے کی چیزیں مہیا کر سکیں، وہ حضرات تحسین کے لائق ہیں جو رمضان کے اندر دوسروں کے لیے راشن کا انتظام کرتے ہیں،اور ان کے گھروں تک پہنچانے تک کوشش کرتے ہیں ،اﷲ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے ،

            اور پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اس رمضان میں روزہ افطار کرواتا ہے تو اس شخص کو تمام گناہوں کی معافی مل جاتی ہے ،جہنم کی آگ سے آزادی مل جاتی ہے ،اور اس بندے کو روزہ رکھنے والے کی طرح ثواب بھی ملتاہے ،یہاں ایک واقعہ جو ہمارے استاد محترم نے ہمیں سنایا،ان کی زبانی نقل کرتا ہوں،ایک صاحب بہت ہی قابل،بہت ہی سمجھ دار بڑے دین کی فکر رکھنے والے ،کہنے لگے کہ میں کسی کے ہاں رووزہ افطار نہیں کرتا،شروع میں ان کا یہ جملہ کے’’ میں کسی کے ہاں روزہ افطار نہیں کرتا ‘‘تو اسوقت تو میرے ذہن میں بھی یہ بات آئی کہ دوسروں کے گھر پر جاکر عموماً مسالے دار چیزیں وغیرہ کھاناپڑی ہیں جبکہ اپنا ذرا الگ معمول ہوتاہے ،لیکن ان صاحب کا جو لہجہ تھا وہ کچھ اور تھا ،تو جب انہوں نے جوں ہی کہا کہ میں دوسرے کے گھر جا کر افطاری نہیں کرتا،تو میں نے عرض کیا کیوں نہیں کرتے افطاری،کہنے لگے ،غور سے سننے والی بات،کہنے لگے کہ عجیب بات نہیں کہ سارا دن میں روزہ رکھوں،بھوکا پیاسہ رہوں ،اور افطار وہ کرائے اور ثواب وہ لے جائے ،تو ان صاحب کو یہ والی حدیث سنائی میں نے کہا کہ نبی ﷺ نے اس کا جواب دے دیا ،آپ کے سوال کا جواب دے دیا نبی ﷺ نے فرمایا کہ روزہ کھولوانے کو روزہ رکھنے والے کے برابر ثواب ملتا ہے اور روزہ رکھنے والے کے ثواب میں کمی کیے بغیر ،یہ نہیں کہ اس کے حصے میں سے کمی کرکے اس کو دے دیا جاتاہے ،اس کو پورا پورا ثواب ملتا ہے ،

            قارئین کرام ،رمضان کے اندر بھر پور کوشش کیجیے کہ لوگوں کا روزہ افطار کرایئے ،آج وقت کا تقاضاہے کہ گھروں کے اندر ماحول بنایا جائے کہ روزہ افطار کرایا جائے ،لیکن مہنگائی کا دور ہے ،کہاں افطاریاں کروایں،کیسے افطاریاں کرایں،گھرکا پورا ہوجائے تو یہی بڑی بات ہے ،یہ سوال ہے معاشرے کا ،کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جب آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو وہاں ایک صحابی نے یہی سوال کر دیا ،یہ والا سوال بھی اس حدیث میں موجود ہے،صحابی کہتے ہیں کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ ہم میں سے ہر ایک نہیں اتنی چیزیں پاتا کہ روزے دار کو روزہ افطار کروائے،ہم میں سے ہر ایک گنجائش نہیں ہے کہ روزے دار کو روزہ افطار کرائے ،وہ ہی سوال جو آج ہمارے معاشرے کے ذہنوں میں آتا ہے ،اصل میں ہمارے ہاں روزہ کھولوانے کا ایک تصور ،افطار پارٹیوں نے مسخ کر کے رکھ دیا ہے ،روزہ کھولوانے کا تصور جو دین نے سکھایا تھا اسے آج کل کی افطار پارٹیوں نے مسخ کردیا ہے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے ،اگر سمجھنا ہو اس بات کو کہ جب صحابی نے سوال کیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ ہم میں سے ہر ایک تو نہیں گنجائش رکھتا کہ وہ روزہ افطار کرا سکے ،نبی ﷺ نے جوجواب دیا وہ سننے والا ہے ،یہ روزہ کھولوانے کا ثواب اﷲ ایک گھونٹ پانی پلانے،ایک گھونٹ دودھ پلانے ، ایک کھجور کھلانے والے کو بھی پورا ثواب عطا کرے گا ،نہیں ہے ضرورت افطار پارٹیوں کی اتنی زیادہ ،ایک کھجور ،ایک پانی ،سادہ پانی ،روزے دار کوپلا دیجیے روزہ کھلوانے کا ثواب آپ کو مل جائے گا،اتنا آسان ہے دین ،لیکن اس خطبے میں نبی ﷺ کے ان لفاظ کو سننے کے بعد وہ حضرات جو صاحب ثروت ہیں ،جوصاحب استطاعت ہیں،جو بہت اچھی طرح افطا ر بھی کرا سکتے ہیں ،بعد میں کھانا بھی کھلا سکتے ہیں ،وہ کہیں ہاتھ نہ کھینج لیں،کہ ہم نے پڑھا تھا کہ یہ افطار پارٹیاں جو ہیں اس نے روزہ کھلوانے کی حیثیت کو مسخ کردیا ہے ،ایک گھونٹ پانی ،ایک شربت کا گلاس اور ایک کھجور سے بس اسی سے فارغ ہونا چاہیے ،اب صاحب ثروت حضرات ہاتھ نہ کھینچیں،اب نبی ﷺ نے اس خطبے میں صاحب ثروت حضرات کے لیے کچھ اور بھی ارشاد فرمایا ہے وہ حضرات جو صاحب استطاعت ہیں وہ یہ سن کر ایک گلاس شربت اور ایک کھجور پر نہیں آئیں گے ،وہ اس خطبے میں نبی ﷺ کے خطبے کے ارشاد میں ایک اور جملہ سنیں گے ،ایک طرف وہ لوگ جن کے پاس کھلانے کو کچھ نہیں وہ بھی روزہ افطار کرا سکتے ہیں،اور ایک وہ جو کھانا بھی کھلا سکتے ہیں بہت اچھی طرح کئی افراد کی افطاری کراسکتے ہیں وہ یہ جملہ غور سے سنیے گا، نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو رروزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اﷲ میرے عوض کوثر سے اس کو پانی پلائے گاپھر پیاسا نہیں ہو گا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا،اس لیے صاحب ثروت ایک کھجور ،ایک گھونٹ پانی پر نہیں آئیں گے،دونوں کے لیے نبی ﷺ نے الگ الگ تعلیم دی ہے اور یہی دین کی سمجھ ہے کہ انسان دیکھے کہ میرے لیے دین نے کیا حکم دیا ہے اگر میں صاحب استطاعت ہوں تو میرے لیے کیا حکم ہے اگر میرے پاس کچھ دینے کیلیے نہیں ہے تو میں کیسے روزہ افطار کراؤں ،نبی ﷺ کے اس خطبے سے سمجھنا ہوگا،

            پھر ارشاد فرمایا اس خطبے میں کہ اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت ،دوسرا حصہ مغفرت ہے ،تیسرا اورآخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے ۔اور جو حضرات کاروبار سے منسلک ہیں ،فیکٹری مالکان ہیں ان کے لیے خطبہ کی آخری سطر بہت اہمیت کی حامل ہے ۔نبی ﷺ نے ارشاد فرمایاجو شخص رمضان کے مہینے میں اپنے ماتحت ،خدمت کرنے والوں کی ذمہ داریوں میں تھوڑی سے تخفیف کر دیں گے ،جو رمضان میں اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی ذمہ داریوں میں ذرا سی تخفیف کردیں گے ،غفر اﷲ لہ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرما دیں گے اور ان کو جہنم سے آزادی دے دیں گے،میں نے بار بار عرض کیا کہ یہ جملہ ان حضرات کے لیے ہے ،کہ جو حضرات مالکان ہیں ،فیکٹریوں کے اداروں کے ،اور ذمہ داران ہیں اور ان کے ماتحت بہت سے افراد کام کرتے ہیں ،لیکن اس جملے سے معلوم ہو ا کہ جو کام کرنے والے ہیں وہ اپنا رویہ یہ ہرگز نہ بنائیں کہ میں نے کام نہیں کرنا، میرا روزہ ہے ،رمضان کی وجہ سے سارے کام کو ٹھپ کردینے والے ماتحت اچھے طریقے سے سمجھ لیں۔اس لیے ہمارے معاشرے میں یہ جو رواج ہے کہ کام نہیں کرنا اور رمضان کے روزے کو عذر بنانا،یہ درست ہے کہ مالکان کو چاہیے کہ وہ کام میں تخفیف کردیں، دیکھیں کیاپنے ملازم کو مشقت والے کام نہ دیں،اور مشقت والے کام اس وقت میں کر لیے جائیں جو ٹھنڈے ہوں ،اوقات میں تھوڑی سی کمی کیجیے اس سے ہو گیا کیا،ان شااﷲ اﷲ تعالیٰ گناہ معاف کردے گا،اﷲ جنہم سے آزادی دے دے گا۔

            اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس خطبے کی ایک ایک بات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،ہمیں روزہ کھلوانے کی توفیق عطا فرمائے ،ہمیں تروایح پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔امین


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں