عبیداللہ عابد:
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی مہمات کا سلسلہ تیز سے تیز ہورہا ہے۔ اب تک مسلمانوں کی مساجد پر قبضے کرکے انھیں اذیت دی جاتی رہی ہے، گائے کا گوشت کھانے کا الزام عائد کرکے انھیں قتل کیا جاتا، بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
آج جب کہ پوری دنیا سب کچھ بھول کر، سارے کام چھوڑ کر، تمام داخلی۔ خارجی پالیسیاں ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے بچنے اور نمٹنے میں مصروف ہے، بھارت میں کورونا وائرس کو مسلمانوں سے جوڑ کر ان کے خلاف پہلے کی نسبت زیادہ خطرناک مہم چلائی جارہی ہے۔
برطاوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“ نے بھی اپنی فیکٹ چیک ٹیم کی رکن کیرتی دوبے کی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کی ویڈیوز مسلسل سامنے آ رہی ہیں۔
بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق
متعدد غلط اور پرانی ویڈیوز کے ذریعے یہ بات مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ مسلمان ’تھوک کے ذریعے‘ کورونا پھیلا رہے ہیں۔ کئی ویڈیوز میں مسلمان ریڑھی والوں سے پھل اور سبزیاں نہ خریدنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ کچھ ویڈیوز ایسی بھی سامنے آئی ہیں جہاں مسلمانوں پر بھی حملہ کیا گیا ہے اور انھیں مارا پیٹا گیا ہے۔
اس نفرت کی جڑیں دن بدن گہری ہوتی جا رہی ہیں اور اب اسی سلسلے میں ایک نئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔
اس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ گورکھپور کے علاقے سیکری گنج میں ایک مسجد میں اذان دیے جانے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ایک منٹ 50 سیکنڈ کی ویڈیو میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو فرش پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ایک لڑکا بتاتا ہے کہ اذان کے بعد کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور مار پیٹ کی۔
پورا معاملہ کیا ہے؟
بی بی سی نے اس ویڈیو کی مکمل کہانی جاننے کی کوشش کی۔ چونکہ ویڈیو میں گورکھپور کے سیکری گنج علاقے کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے ہم نے سیکری گنج اور گورکھپور کے کچھ مقامی صحافیوں سے رابطہ کیا۔ یہاں ہمیں اطلاع ملی کہ اس طرح کا ایک واقعہ اس علاقے کے بن کٹا گاؤں میں پیش آیا ہے۔
اس کے بعد ہم ویڈیو میں نظر آنے والے شخص تک پہنچے جن کا نام سونو ہے۔
سونو نے بی بی سی کو بتایا:
”اتوار کی دوپہر 1.25 بجے ظہر کی نماز کے لیے اذان دی گئی تھی۔ جیسے ہی اذان ختم ہوئی دو افراد نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آئے۔ اسی وقت تین افراد آئے اور ہمیں گالیاں دینے لگے۔ انھوں نے پوچھنا شروع کیا کہ اذان کیوں دے رہے ہو تم لوگوں کو یہ کرنا منع ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسجد میں داخل ہو گئے اور قرآن پھاڑ کر پھینکنے لگے۔ جھگڑا بڑھا تو وہ لوگ یہاں سے چلے گئے اور پانچ منٹ میں ہی 25 افراد کا ہجوم آ گیا جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ ان لوگوں نے مجھے مارا، میرے بھائیوں کو مارا پیٹا۔ میرے والد بچانے کے لیے آگے آئے تو انھیں بہت مارا پیٹا۔“
مفاہمت کا راستہ کیوں؟
اس مار پیٹ میں سونو کے والد 65 سالہ عظمت علی کو شدید چوٹ لگی ہے۔ ان کے دائیں پیر میں فریکچر ہے اور ان کا سر تین جگہوں سے پھٹ گیا ہے۔
لیکن اس معاملے میں سونو اور اس کے اہل خانہ نے حملہ آوروں کے ساتھ صلح کر لی ہے۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے ایف آئی آر درج نہ کرکے مفاہمت کا راستہ کیوں آپنایا؟
اس سوال کے جواب میں ، سونو کا کہنا ہے کہ ”اس گاؤں میں مسلمانوں کے تقریباً 100 مکانات ہیں، لیکن بیشتر مسلم گاؤں کے شمال کی طرف رہتے ہیں اور صرف چار مسلم خاندان ہی جنوب کی طرف رہتے ہیں۔ باقی ہم مکمل طور پر چاروں طرف سے ٹھاکروں (ہندو کی ایک ذات) سے گھرے ہیں۔ اگر ہم صلح نہیں کرتے اور اگر کل ہمارے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہمارے مذہب کے باقی لوگ اور پولیس تو بعد میں آتی لیکن جو ہوتا اس کا خمیازہ تو ہمیں بھگتنا پڑتا۔“
”بغیر صلح کے تو یہاں رہنا مشکل ہے“
طرفین میں صلح پولیس اور گاؤں کے مکھیا یعنی سربراہ کے سامنے ہوا ہے۔
جب ہم(بی بی سی کی فیکٹ چیک ٹیم) نے پولیس انتظامیہ سے بات کی تو انھوں نے اسے معمولی واقعہ قرار دے کر زیادہ طول نہ دینے کے لیے کہا۔
سیکری گنج کے ایس او جٹاشنکر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ جھگڑا اذان کے لیے ہوا تھا جس میں مسلمانوں کی جانب سے ایک شخص زخمی ہوا ہے۔ ایف آئی آر نہیں درج ہوئی۔ سب کچھ ٹھیک ہے، ہم جا کر دیکھ آئے ہیں۔ 17-18 سالہ لڑکے کو محسوس ہوا کہ لوگ مسجد میں جمع ہوں گے اس لیے آپس میں جھگڑا ہوگیا۔
پولیس کے دعوے کے برخلاف سونو نے ہمیں بتایا کہ مار پیٹ شروع کرنے والے ایک شخص کی عمر 35 سال ہے جبکہ دو کی عمر تقریباً 25 سال ہے۔
بہر حال پولیس نے اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ طرفین نے آپس میں صلح کر لی۔
یہ تو ہوئی بی بی سی اردو پر شائع ہونے والی رپورٹ۔
بھارت میں یہ صورت حال مسلمانوں کے لئے کافی حد تک خوفناک ہے۔ ایسا صرف دور دراز کے علاقوں ہی میں نہیں ہوتا بلکہ ملک کے بھارت کے دارالحکومت دلی سے لے کرملک بھر کے بیشتر علاقوں میں ہورہا ہے۔ جب سے ملک پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی نئی حکومت برسراقتدار آئی ہے، ایسے واقعات میں اضافہ ہورہاہے۔ وزیراعظم نریندرمودی کے بارے میں یہ تاثر زور پکڑ رہاہے کہ یہ سب کچھ انہی کے ایما پر ہورہاہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان طے کرچکے ہیں کہ بھارت کو صرف اور صرف ہندوئوں کی ریاست بنانا ہے۔ یہاں صرف اور صرف ہندو ہی ہوں گے۔ مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں سمیت تمام اقلیتوں کو ہندو بننا ہوگا یا مرنا ہوگا یا پھر ملک چھوڑنا ہوگا۔
کیا یہ طرزعمل دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار ریاست کے لیے مناسب ہے؟
کم ازکم دنیا کی کسی بھی دوسری ریاست میں ایسا طرزعمل دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بنگلہ دیش سوا کروڑ ہندو زندگی بسر کررہے ہیں، پاکستان میں رہنے والے ہندوئوں کی تعداد 80 لاکھ سے زائد ہے، تاہم کبھی کسی ہندو کو ہندو ہونے کی بنیاد پر تنگ نہیں کیا گیا، تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا، ان کے مندروں کو مساجد میں تبدیل نہیں کیا گیا، انھیں قتل نہیں کیا گیا۔ بھارت کو بھی اپنے ہاں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ اسی طرزعمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اسی میں بھارت کی زندگی ہے۔