رضوان رانا، اردوکالم نگار

تسی مرنا نہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

رضوان رانا:
ہمارے ملک میں چکن تقریباً ہر دوسرا آدمی کھاتا ہے اور پولٹری بزنس ایک بہترین اور منافع بخش کاروبار ہے مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے بھائی لوگوں نے اس کاروبار میں حرام اور چور بازاری کا ایک حیرت انگیز سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

جب میں نے اس بزنس پر کچھ تحقیق کی تو جو کچھ میرے مشاہدے میں آیا، ان میں سب سے دلچسپ لیکن خطرناک بات مرغیوں کا ڈیتھ ریٹ تھا۔ جتنے بھی پولٹری فارم مالکان سے بات ہوئی تقریباً ہر ایک کا یہی کہنا تھا کہ دس سے پندرہ فیصد مرغیاں کسی نہ کسی وجہ مثلاً بیماریوں یا فارم میں کام کرنے والے لوگوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے مرجاتی ہیں۔

ایک چوزے کو تقریباً چالیس تا پنتالیس روز تک سٹیرائیڈز کھلا کر اس کا وزن ڈیڑھ سے دو کلو کیا جاتا ہے، پھر جب اس چوزے کو کنٹرول شیڈ سے نکال کر ٹرک میں ڈال کر دکانوں تک پہنچایا جاتا ہے تو آمدورفت اور گرمی سردی کی وجہ سے اکثر مرغیاں ٹرک میں ہی مرجاتی ہیں۔ بعض اوقات انہیں مرنے سے بچانے کیلئے ٹرک ڈرائیور تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ جلد سے جلد منزل مقصود تک پہنچ کر زندہ مرغیاں ڈیلیور کرسکیں لیکن اس کے باوجود کئی مرغیاں راستے میں مرجاتی ہیں۔

اگر خدانخواستہ کسی علاقے میں کوئی بیماری پھیل جائے تو مرغیوں کے مرنے کی شرح مزید بڑھ جاتی ہے۔ بہرحال پولٹری انڈسٹری میں پندرہ سے بیس فیصد تک مرغیاں دکانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کو پیاری ہوجاتی ہیں.

پیارے پاکستانیو!سوال یہ ہے کہ یہ مری ہوئی مرغیاں کہاں جاتی ہیں؟
اس سوال کا جواب ہی درحقیقت ہمارے معاشرے کا وہ ہولناک پہلو ہے کہ جسے جان کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ملاوٹ ، چور بازاری ، دھوکہ دہی جیسے لفظ چھوٹے لگنے لگتے ہیں۔

اگر آپ اس سوال کا جواب جاننا چاہتے ہیں تو کسی دن اپنے محلے میں مرغی کا گوشت بیچنے والے کی دکان پر صبح سویرے نظر دوڑائیں یا اگر آپ کے گھر کی چھت سے اس کی دکان نظر آسکتی ہے تو صبح سویرے جو ٹرک مرغیاں لے کر آتا ہے، وہ زندہ مرغیاں دینے کے ساتھ ساتھ مردہ مرغیاں علیحدہ سے دکاندار کو کم داموں بیچتا ہے اور یہی دکاندار حضرات بڑی ہوشیاری سے ان مردہ مرغیوں کا گوشت بنا کر اپنے ان گاہکوں کو سپلائی کرتےہیں جو گوشت کا آرڈر فون پر یا روزانہ کی بنیاد پر لکھواتے ہیں جن کے ریسٹورانٹس ہیں جہاں شوارما سے لے کر چکن قورمہ تک تیار ہوتا ہے.

جو گوشت بچ جائے وہ ان غریبوں کو بیچ دیا جاتا ہے جو سالم زندہ مرغی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اور آدھا کلو یا پاؤ گوشت خریدتے ہیں، انہیں عام طور پر مردہ گوشت ہی زندہ مرغی کے گوشت کے ریٹ پربیچ دیا جاتا ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر پاکستانی جتنا بھی چکن کھاتا ہے، اس کا اوسطاً بیس فیصد تک مردہ چکن پر مشتمل ہوتا ہے.

یہ ایک بزنس کا حال ہے، باقی الاماشاءاللہ آٹے سے لے کر لال مرچوں تک ، دالوں سے لے کر گھی کے ڈبوں تک، دودھ سے لے کر مشروب تک اور کھانے والی چیزوں سے لے کر روزمرہ کے استعمال تک کی چیزوں میں ملاوٹ ، ناقص کوالٹی اور غیر معیاری پن کے جو ریکارڈ ہم پاکستانیوں نے قائم کیے ہیں اس کی مثال ملنا ناممکن ہے، حتیٰ کہ ہم نے میڈیکل کے شعبے کو بھی نہیں چھوڑا . جعلی دوائیں ، نقلی ٹیکے اور غیر معیاری آلات جراحی ہر دکان پر دھڑا دھڑ بک رہے ہیں۔

اور ظلم یہ کہ ہمارے پاکستانی لوگ فرماتے ہیں کہ چین میں کرونا وائرس حرام جانور کا گوشت کھانے سے پھیلا. کوئی ان سے پوچھے جناب! جوپاکستانی مردہ چکن کے ساتھ ساتھ کھوتے اور کتے تک کا گوشت کھا جاتے ہیں، انہیں کرونا وائرس کیوں نہیں پکڑتا؟
اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جو دکاندار اور پولٹری مالکان عوام کو حرام گوشت کھلاتے ہیں، انہیں کرونا کیوں کچھ نہیں کہتا؟

یہاں کے ریسٹورنٹس میں حرام گوشت کھلایا جاتا ہے، بنکوں میں کھلے عام سود کا کاروبار ہوتا ہے، ہر دکاندار کم تولتا ہے اور ناقص کوالٹی بیچتا ہے اور اپنے آپ کو اچھا پاکستانی ، سچا مسلمان اور اسلام کا ٹھیکیدار بھی کہلوانا چاہتاہے.

اصل پاپی پن تو یہ ہے کہ شیطان بھی شرما جائے اور بے ساختہ پکار اٹھے کہ بڑی استاد قوم ہے یار!! نوسربازی اور فراڈ کے جو شیطانی اور طوفانی آئیڈیاز اس بیچارے شیطان کے دماغ میں بھی نہیں آتے ہمارے لوگ اس میں بھی ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں.

کرونا وائرس نے پوری دنیا کو خدا یاد کروا دیا ہے اور ہم نےکبھی کرونا سپرے کا جھانسا دے کر اور کبھی سرکاری انسپکشن ٹیم بن کر عوام کو لوٹنا شروع کر دیا ہے.
اب توشیطان بھی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے
اوئے ! پاکستانیو تے وکھرے سائنسدانوں!!!
بس کر دیو پاپیو ! تسی مرنا نہیں؟؟؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “تسی مرنا نہیں؟”

  1. مرزا بابر ممتاز Avatar
    مرزا بابر ممتاز

    سارا پاکستان ان مردہ مرغیوں کو ٹھنڈی مرغی کے نام سے جانتا ہے. بیچنے والے بیچ رہے ہیں اور لینے والے لے رہے ہیں