جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی سیکرٹری جنرل دردانہ صدیقی

”منافع خور وزیراعظم کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں“

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جماعت اسلامی حلقہ خواتین پاکستان کی سیکرٹری جنرل محترمہ دردانہ صدیقی سے انٹرویو

انٹرویو/ شبانہ ایاز، صائمہ افتخار:
جماعت اسلامی پاکستان کا حلقہ خواتین (خواتین ونگ) ملکی سطح پر کسی بھی سیاسی، مذہبی جماعت کا سب سے بڑا منظم گروہ ہے۔ محترمہ دردانہ صدیقی اس بڑے گروہ کی سربراہ ہیں۔ واضح رہے کہ جماعت اسلامی میں مردوں اور خواتین کارکنان کا امیر ایک ہی ہوتا ہے جبکہ سیکرٹری جنرل دو ہوتے ہیں۔ مردوں کا الگ اور خواتین کی الگ۔ جماعت اسلامی نے حلقہ خواتین کی سیکرٹری جنرل کو امیر جیسے ہی اختیارات دیے ہوتے ہیں۔

محترمہ دردانہ صدیقی نہایت متحرک خاتون رہنما ہیں، ان کی ملکی حالات پر کسی بھی دوسری خاتون رہنما سے زیادہ گہری نظر ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کی موجودہ صورت حال پر ان سے مکالمہ کیا گیا جو نذرقارئین ہے:

سوال : موجودہ حکومت کے پہلے ڈیڑھ سال کی کارکردگی آپ کی نظر میں کیسی رہی ہیں؟
دردانہ صدیقی : حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی تبدیلی کا نعرہ سوائے ایک سراب کے کچھ نہ تھا۔جوڑ توڑ کر کے حکومت سازی کرنے والوں کے پاس نہ کردار تھا، نہ صلاحیت،نہ ویژن تھا،نہ سنجیدگی تھی اور نہ ہی کوئی ہوم ورک تھا جس کا خمیازہ آج عوام بری طرح بھگت رہے ہیں۔

صرف معاشی کارکردگی کا جائزہ لیں تو جولائی 2018 میں ڈالر 115 روپے کا تھا جو کہ اب 167 روپے تک بڑھ چکا ہے، جس کے نتیجے میں روپے کی قیمت کم اور مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ معاشی خودمختاری کا نعرہ لگانے والوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے انتہائی سخت شرائط پر قرضے حاصل کئے۔

موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 46.2 ارب ڈالر تھا جو کہ 105 ارب ڈالر تک بڑھ گیا۔ یہ سو فیصد سے زائد کا اضافہ ہے۔ ان قرضوں پر عائد سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضہ لیا گیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر بہتر کرنے کے لیے بیرون ملک ذرائع سے امداد لی گئی مگر ان شرائط پر کہ ان افراد کو سود کی بڑی شرح اس پر حاصل ہوگی اور یہ کہ یہ حاصل شدہ رقم کسی ترقیاتی کام میں استعمال نہیں کی جاسکتی۔

نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں شرح سود کم مگر پاکستان میں بہت زیادہ ہے،ساری دنیا میں پٹرول کی قیمتیں کم مگرپاکستان میں سابقہ قیمتیں ہی برقرار ہیں۔ تمام اشیائے ضروریہ پر ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔ان سارے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان ناصرف قرضوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے اور ہم نے اپنی آزادی و خود مختاری کو گروی رکھ دیا گیا ہے بلکہ آٹا چینی، تیل،گوشت، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔

مرے پر سو درے کے مصداق مہنگائی کے بڑھنے میں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کا بڑا کردار ہے جس پر نہ صرف حکومت قابو پانے میں ناکام رہی بلکہ آٹے اور چینی کے بحران نے تو اس کی قلعی کھول دی کہ اصل منافع خور تو وزیراعظم کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں۔

سوال : احتساب اور انصاف کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کچھ ڈلیور کر سکی؟؟

دردانہ صدیقی : احتساب کے حوالے سے حکومت کی توجہ اپنے سیاسی مخالفین پر زیادہ رہی مگر ”احتساب سب کا“ کے نعرے کا کوئی پرسان حال نہیں کیونکہ ایسے بہت سے افراد جن کے بے لاگ احتساب کی ضرورت ہے تحریک انصاف کے سائے میں فروکش ہیں۔ مزید یہ کہ جن لوگوں کے خلاف بھرپور طریقہ سے احتساب کی مہم شروع کی گئی تھی ان کے خلاف بھی احتسابِ کا کوئی منطقی انجام عوام کے سامنے نہ آ سکا۔

اس وجہ سے اس مہم کو سیاسی انتقام کا نام بھی دیا گیا۔انصاف کی فراہمی کے حوالے سے عدالتی نظام میں مقدمات چلانے کی رفتار،طریقہ کار اور معیار میں بھی کوئی بہتری نہیں آ سکی۔ مقدمات کی طوالت اور انصاف کے حصول کے انتظار میں ضعیف ہو جانے والے غریب، آج بھی انتظار کی سولی پہ لٹک رہے ہیں۔

”قلندرانہ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے پاس ہے کون آ س پاس تو دیکھو“

سوال:”کرونا وبا،لاک ڈاؤن کے حوالے سے آپ کیا کہتی ہیں؟
دردانہ صدیقی : جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وائرس سے بچاؤ کا موثر طریقہ سماجی فاصلہ ہے کیونکہ یہ ایک سے دوسرے میں منتقل ہونے والی اور بہت تیزی سے پھیلنے والی وبا ہے لہذا اس سے تحفظ کا تقاضا ” لاک ڈاؤن“ ہی ہے مگر سب کچھ بند کر دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے. بند کرنے کے نتیجے میں جو معاشی مسائل جنم لیں گے ان پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے.

جن اداروں کو کھولنے کی ضرورت ہے انہیں پورے حفاظتی اقدامات کے ساتھ کھولنا ہوگا لیکن اتنے بڑے مسئلے کے حل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے اور مشاورت کرنے اور مل کر کام کرنے کی ضرورت تھی مثلا تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان، پارلیمنٹیرینز، رفاہی تنظیمیں، علماء، ڈاکٹرز، طلبہ اور اساتذہ کو اعتماد میں لیا جاتا۔

جماعت اسلامی نے تو روز اول سے اپنے تمام ہسپتالوں،ڈاکٹرز اور والنٹیرز کے ساتھ تعاون کی پیشکش حکومت کو کی تھی۔ صوبائی سطح پر تو مشاورت کی حد تک سب کو بٹھایا گیا مگرعملاً صوبائی حکومت نے 8 ارب روپے کہاں اور کیسے خرچ کئے؟؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ عوام تو یوں ہی بے یارو مددگار کھڑے ہیں۔ چین سے جو میڈیکل ایڈ کا سامان آیا وہ کہاں گیا؟؟ڈاکٹر، پیرا میڈیکل اسٹاف اور اسپتال ہنوز اس کے منتظر ہیں۔

وفاقی حکومت نے احساس پروگرام کے تحت اربوں روپے کا پیکج کا اعلان کیا مگر ساتھ ہی اپنے قومی و صوبائی اسمبلی کے نمائندگان کو ہدایت کی کہ اس کے ذریعے اپنے انتخابی حلقہ کو مضبوط کریں۔ خدارا اس وقت تو سیاست چھوڑ دیں قوم کا اور ملک کا خیال کریں، آپ پی ٹی آئی کے سربراہ نہیں ملک کے وزیراعظم ہیں۔ چیف جسٹس کا ازخود نوٹس اور عدالت عظمی کا انتباہ حکومتی افراتفری کا گواہ ہے،جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی اللہ کے فضل وکرم اور عوام کے بھرپور اعتماد سے اپنے ایک لاکھ کارکنوں کی جان خطرے میں ڈال کر اب تک 1 ارب روپے سے 36 لاکھ ضرورت مند خاندانوں کی مدد،راشن اور میڈیکل ایڈ کی مد میں کر چکی ہے۔

ضرورت مندوں کی عزت نفس کا تحفظ کرتے ہوئے ان کو ہر ممکن مدد بہم پہنچائی جا رہی ہے جب کہ اسپتالوں میں PPEs, گلوز،ماسکس،سینیٹائزرز کے علاوہ دس وینٹی لیٹرز بھی فراہم کیے گئے گئے ہیں۔ الخدمت اور جماعت اسلامی کے تمام ہسپتالوں میں کرونا آئسولیشن وارڈزاس مشکل گھڑی میں عوام کو طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ اصل وجہ جماعت کی قیادت اور کارکن کا اخلاص اور عوام میں ذیلی سطح تک نفوذ ہے۔ تنظیمی نیٹ ورکنگ ہے جس کے ذریعہ ہم نے وارڈز اور یونینز کی سطح پر خدمتی کمیٹیاں قائم کی ہیں جو اپنی آبادی کے متعلق تفصیلات کا علم رکھتی ہیں۔ ضرورت مندوں کی فہرست سازی کرکے ان کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ تعاون کی پیشکش کے باوجود حکومت ان مخلص کارکنان اور اس نظام سے استفادہ نہیں کر سکی۔

ہمارے ڈاکٹرز گروپ کے ایک بھائی اس جہاد میں حصہ لیتے ہوئے شہید بھی ہوئے۔کل کراچی میں ہمارے ورکرز پر فائرنگ بھی کی گئی جس میں ایک کارکن شہید اور پانچ زخمی ہیں مگر ہم آج بھی ملک و قوم کی خدمت کے لیے پرعزم ہیں۔

سوال: کروونا وائرس کی وبا کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے بند ہیں ہیں۔ جماعت اسلامی تعلیم اور تعلیمی اداروں کے حوالے سے سے ہمیشہ متحرک رہی ہے۔ موجودہ حالات میں میں جماعت اساتذہ، طلبہ اور طالبات کی کیسے رہنمائی کرتی ہے؟

دردانہ صدیقی : تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے تعلیم کا عمل تو متاثر ہے مگر انٹرنیٹ کے اس دور میں اس کے ذریعے گھر بیٹھے اساتذہ اور طلبہ و طالبات اپنے تعلیمی عمل کو جاری رکھ سکتے ہیں اور کئی مقامات پر ایسا ہو بھی رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے تعلیمی ادارہ جات میں بھی یہی کوشش کی جارہی ہے۔ آن لائن کلاسز اور دیگر ایپلیکیشنز سے استفادہ کرتے ہوئے کلاسز کنڈکٹ کروائی جارہی ہیں نیز ہمارے پروگرامز بھی آن لائن جاری ہیں ہیں۔

الحمدللہ جماعت اسلامی تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر دونوں جگہ نوجوانوں میں کام کے حوالے سے متحرک رہی ہے اور اللہ تعالی کی جانب سے وطن عزیز کو دیے گئے اس سرمائے کو نظریہ پاکستان کے مطابق پروان چڑھانے میں مصروف عمل ہے۔ پاکستان کو باصلاحیت قیادت فراہم کرنے اور پاکستان کا مستقبل سنوارنے میں جماعت اسلامی ہمیشہ مصروف ہے۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں ماضی اور حال کی طرح مستقبل میں بھی پاکستان کو بہترین قیادتیں میسر آئیں گی۔

موجو دہ حالات میں بھی اساتذہ اور طلبہ کا کردار پاکستان کے نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لحاظ سے اہم ہے۔عملی طور پر پاکستان کو آج جس طرح کی اخلاقی، معاشی، سیاسی اور نظریاتی کرپشن کا سامنا ہے اس کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف نعروں اور تقریروں سے متاثر نہ ہو۔ حقائق کی روشنی میں کمزوری کی پرکھ ہونی چاہیے۔آج مسائل میں گھری ہوئی قوم کے مسیحا کا کردار ادا کریں۔ کرونا کے مسئلے کا شکار قوم کی عملی مدد اور رہنمائی میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں ۔الخدمت کی جانب دست تعاون بڑھائیں۔

سوال : ملک میں غربت اور بیروزگاری عروج پر ہے عوام کی فلاح کے لیے حکومت کے فوری اقدامات کیا ہونے چاہئیں؟؟کیا ملکی معیشت میں بہتری ممکن ہے؟

دردانہ صدیقی : ملکی معیشت میں بہتری بالکل ممکن ہے مگر اس کے لیے پالیسیوں میں تبدیلی ناگزیر ہے۔عالمی مالیاتی اداروں کے نمائندگان سابقہ حکومتوں میں بھی معاشی ذمہ داریوں پر براجمان تھے، جن کی وجہ سے پاکستان بے شمار وسائل رکھنے کے باوجود قرضوں کی دلدل میں دھنستاچلا گیا۔ وہ لوگ آج کی حکومت میں بھی موجود ہیں۔ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے investors کو incentives دئے جائیں۔ ترقیاتی پروجیکٹس شروع کیے جائیں اور جن کی منصوبہ بندی کی گئی تھی ان پر عمل درآمد کیا جائے اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔

سودی نظام سے نجات حاصل کی جائے،اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اور ورکنگ موجود ہے اور اس ضمن میں پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی قرارداد بھی جمع کرواچکی ہے اور توجہ بھی دلاچکی ہے۔ جب اللہ اور اس کے رسول سے جنگ ہوگی تو کیسے اس کی رحمت آئے گی۔ آج ہم مسائل کی دلدل میں دھنس گئے ہیں۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے،قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔

عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لے کر سب کو onboard لے کر مسائل کے حل کی طرف پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ سب سے پہلے اپنی صفوں میں بے لاگ انصاف واحتساب پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے نمائندے پارلیمانی فورم پر اور اس کے باہر بھی حکومت کو مخلصانہ تجاویز دے چکے ہیں۔انا کے خول سے باہر نکل کر تمام افراد سے آگے بڑھ کر ہاتھ ملانے کی ضرورت ہے۔

سوال: سوشل میڈیا کے حوالے سے معاشرے میں کچھ بگاڑ بھی آیا ہے اس پر آپ کی سیر حاصل رائے کیا ہے؟
دردانہ صدیقی : سوشل میڈیا جدید ذرائع ابلاغ میں سے ایک موثر ذریعہ ہے۔ دیگر ذرائع کے مقابلے میں اس کے استعمال کا اختیار افراد/تنظیموں کے پاس ہے بہ نسبت دیگر ذرائع ابلاغ کے کہ وہ ادارہ جات کے اختیار میں ہوتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ اس اختیار کا استعمال آپ کیسے کر رہے ہیں ہیں غالب اکثریت اخلاقی اباحیت ، غیرمصدقہ فیک نیوز پوسٹ کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ عموما ً ایک دوسرے کو مطعون کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ منفی پروپیگنڈے کے ذریعے افراد کی ذہن سازی کی جارہی ہے یہاں تک کہ انتخابی نتائج تک پر اثرانداز ہونے کی کوشش نظر آتی ہے۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے معاشرے میں کافی بگاڑ آیا ہے.بڑے بچوں کے پاس تو لیپ ٹاپ اور موبائل موجود ہوتے ہیں.چھوٹے بچے بھی ضد کرکے والدین سے موبائل لے لیتے ہیں. گھر میں وائی فائی موجود ہو تو ہر چیز بچوں کے سامنے اوپن ہوتی ہے. اس چیز کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ موبائل اور لیپ ٹاپ پر سوشل میڈیا کو کیسے استعمال کر رہے ہیں، ہر وقت اور ہر کام کی نگرانی مشکل ہے.

بچے سوشل میڈیا سے تعلیم میں مدد ضرور لیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی جنسی بے حیائی اور بگاڑ پر مبنی مواد سرعام دستیاب ہے. جس کو بچے بلا روک ٹوک استعمال کرتے ہیں. جو والدین زیادہ پڑھے لکھے نہیں، وہ تو بالکل اپنے بچوں کو روک ٹوک کی پوزیشن میں نہیں ہوتے. نتیجے کے طور پر بچے اخلاقی حدود پار کرکے قبل از وقت بلوغت کے مراحل طے کرنے لگے ہیں. بچوں کی معصومیت اور جوانوں کا شرم و حیا چھن چکا ہے. اور نوجوان نسل کی پاکٹ میں شیطان ہر وقت دستیاب ہے جو پورے پرکشش ماحول کے ساتھ اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اوربچے نہ چاہتے ہوئے بھی اس دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں.

جماعت اسلامی سوشل میڈیا کا استعمال معاشرے کے اجتماعی شعور کی بیداری تعمیری سوچ اخلاق اور عمل کو پروان چڑھانے کے لئے کر رہی ہے۔ حالیہ کرونا آگہی اور بچاؤ مہم میں اس ضمن میں رجوع الی اللہ کی پروگرامات مزید رمضان المبارک کے لئے اس عنوان سے بھرپور منصوبہ بندی اور تیاری ہے۔ حالات کے پیش نظر ابلاغ کا غالب اور موثر ذریعہ یہی ہے لہذا اس کے مثبت استعمال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ کے کے توسط سے تمام قارئین کو جماعت اسلامی کی ویب سائٹ اور فیس بک پیج jamaatwomen سے استفادہ کرنے اور اپنے وقت اور ذہن کا بہترین استعمال کرنے کی دعوت دوں گی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں