ترکش/ آصف محمود:
کیا ارطغرل محض ایک پروپیگنڈا ہے جس نے مذہبی سوچ رکھنے والوں کو اپنے سراب میں جکڑ رکھا ہے؟
کیا یہ ایک فریب ہے جس کی بھول بھلیوں میں کھو کر مسلم سماج کا جذباتی نوجوان ماضی کی چھائوں میں تھوڑی دیر سستا تا ہے اور عہد موجود کی بے رحم حقیقتوں سے فرار اختیار کرتا ہے؟
کیا یہ Muslim youth کا escape ہے؟
کیا خالصتا آرٹ کے پیمانے پر پرکھا جائے تو اس ڈرامے کا کوئی اعتبار ہے؟
کیا یہ واقعی ہالی وڈ کے معیار کا ڈرامہ ہے؟
پی ٹی وی پر ارطغرل دکھائے جانے کے فیصلے بعد اس طرح کے سوالات کا ایک دفتر کھل چکا ہے اور ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے:
ارطغرل ایک شاہکار ہے ، جس نے دیکھ رکھا ہے وہ جانتا ہے ، جو نہیں جانتا وہ دیکھ کر تسلی کرلے۔
’’ارطٖغرل‘‘ سے میرے تعارف کا عنوان مذہب ہے نہ امت کا شاندار ماضی ۔ میں تو میل گبسن کی Braveheart کے سحر میں مبتلا ہو کر قدیم زمانوں کی تیر و تلوار پر بنی فلموں کی تلاش کے سفر پر نکلا تو ایک شام ’’ارطغرل‘‘ سیزن ون کی پہلی قسط میرے سامنے تھی ۔ دل نے وہیں خیمے ڈال دیے۔
یہ سفر سالوں پر نہیں عشروں پر محیط ہے۔ یہ غالبا 1998کی بات ہے جب میل گبسن کی Braveheart دیکھی۔ اس کے بعد مل گبسن ہی کی Patriot ، رسل کرو کی Gladiator ، انتونیو بینڈرس کی The 13th Warrior، ٹام کروز کی The Last samurai ، ڈینیل لیویس کی The Last of the Mohicans ، جیمز بٹلر کی 300 ، بریڈ پٹ کی Troy، رابرٹ ڈی نیرو کی The Missionاور کرسٹن سٹیورٹ کیSnow White and the Huntsmen سمیت کتنی ہی فلمیں دیکھ ڈالیں ۔
شاید ہی کوئی ایسی فلم ہو جو قدیم زمانوں کی ہو ، جس میں تیر تلوار کی لڑائی ہو اور میں نے نہ دیکھ رکھی ہو ۔’’ ارطغرل‘‘ اس سفرِ شوق کا ، فی الوقت ، آخری پڑائو تھا ۔ پیچھے مڑ کے دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے ، بعض فلمیں بہت کمال کی تھیں اور Braveheart تو بہت ہی اچھی فلم تھی لیکن سچ کہوں ، ان میں سے کوئی فلم بھی ارطغرل کے معیار کی نہیں تھی۔ وہ فلمیں تھیں ، ارطغرل ایک شاہکار ہے۔
یہ ڈرامہ اس لیے شاہکار نہیں ہے کہ اس میں اسلام کی بات کی گئی ہے۔ یہ اس لیے شاہکار ہے کہ اس میں جو بھی کیا گیا ہے کمال فن کے ساتھ کیا گیا ہے۔ معیار اور کمال جہاں ہو گا اچھا لگے گا۔ وہ میل گبسن کی braveheart ہو یا انجین التان کا ارطٖغرل ۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے ارطغرل میں موجود اسلامی تہذیب کے رنگوں کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ آپ اسے آرٹ کی کسی بھی اصول پر پرکھ کر دیکھ لیجیے ، ارطغرل ایک شاہکار ہی رہے گا ۔
ہیرو کو بھی چھوڑ دیجیے ، آپ صرف اس ڈرامے میں جو ولن ہیں ، انہیں دیکھ لیجیے ۔ کرتوغلو سے امیر سعدتین تک ، یہ درجنوں کردار ہیں اور کیا غضب کے اداکار ہیں ۔ ولن کے کردار سے اس سے زیادہ انصاف اور کیا جا سکتا ہے کہ امیر سعدتین کے قتل پر بعض جگہوں پر باقاعدہ جشن کا سا سمان تھا ۔ وہ کیسا ولن ہو گا جو آپ کے اعصاب چٹخا دے اور آپ کئی قسطیں آگے جا کر اس کے قتل کا منظر دیکھ کر دل کو تسلی دیں کہ اس کا انجام قریب ہے۔
اداکاری دیکھ لیجیے، نمایاں کرداروں کی تو بات ہی کیا ، یہاں کسی غیر نمایاں سے کردار ، کسی راہ چلتے چند لمحوں کے کردار کی اداکاری پر انگلی اٹھا نا مشکل ہے۔ چہرے کے تاثرات ، الفاظ کی ادائیگی ، پانچ سیزن کا ایک ایک لمحہ یوں جم کر شوٹ کیا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔
فرانسس بیکن کے مضامین میں سے Brevity میرا پسندیدہ مضمون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بات اختصار کے ساتھ کی جائے۔ ارطغرل ڈرامے کے ڈائیلاگز میں گویا فرانسس بیکن کا یہ مضمون مجسم ہے۔ مختصر ، بامعنی اور انتہائی مہارت سے تراشے ہوئے ڈائیلاگ ۔ بعض جگہوں پر تو ڈرامہ روکنا پڑتا ہے تا کہ ڈائیلاگ کا لطف لے لیا جائے پھر آگے بڑھا جائے۔ لہجے کا اتار چڑھائو بھی ایک نشاط انگیز تجربہ ہے۔ معلوم نہیں اردو ڈبنگ میں یہ معیار کیسے برقرار رکھا جا سکے گا۔ ڈرامہ اگر ترک زبان میں ہی دکھایا جاتا اور ساتھ اردو ترجمہ چلتا رہتا تو شاید زیادہ لطف دیتا۔
اسلامی تہذیب کی رنگ اس ڈرامے میں نمایاں ہیں ۔ چرواہوں کے ایک مسلمان قبیلے کو اگر اپنے دین سے وابستگی پر ناز تھا اور اس نے غیر معمولی جدوجہد سے ایک سلطنت کھڑی کر دی تو ان رنگوں کا موجود ہونا اظہار حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے پریشانی کیسی؟ ڈرامے کا حسن یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے رنگ اس میں نمایاں تو ہیں لیکن غیر محسوس انداز سے۔ کہیں بھی کچھ بوجھل نہیں ہوتا ۔
جب رسول اللہ ﷺ کا نام سن کر ترک ادب سے سینے پر ہاتھ رکھ لیں ، جب باہم الجھتے جنگجو ئوں کو حدیث سنا دی جائے اور برہنہ تلوار لیے برہم جنگجو اس کے احترام اور عقیدت وہیں رک اور تھم جائے ۔ ہالی ووڈ کی فلموں میں سینے پر کراس بنانے یا بھارتی فلموں میں اہتمام سے مندر یا پوجا پاٹ دکھانے سے اگر آرٹ متاثر نہیں ہوتی تو اسلامی تہذیب کے مظاہر سے آرٹ کو بد مزہ نہیں ہونا چاہیے۔
ارطغرل میں آ خر کیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کے دلوں کے تار اس ڈرامے نے ہلا دیے ہیں ۔ پروپیگنڈے کو کبھی اتنی قبولیت نہیں ملتی ۔ حتی کہ مذہبی مشاہیر پر بنی فلمیں بھی اتنی مقبول نہ ہو سکیں ۔ ارطغرل اس لیے منفرد ہے کہ پہلی بار کسی نے جدید دنیا کے آرٹ اور کلچر کے مروجہ معیار کو چھوتے ہوئے اسلامی تہذیب کے کچھ مظاہر پیش کیے ہیں ۔ برسوں کی محنت سے مسلم معاشروں میں ذہنی مرعوبیت کا جو آزار مسلط کیا گیا تھا اس ایک ڈرامے نے اسے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔اور ایسا ادھیڑا ہے کہ کمال کر دیا ہے۔
یکم رمضان سے یہ ڈراما پی ٹی وی پر پیش کیا جا رہا ہے۔ خود بھی دیکھیے ، بچوں کو بھی دکھائیے۔ میں بھی انشاء اللہ آپ کے ساتھ اسے تیسری بار دیکھوں گا۔