ڈاکٹر جویریہ سعید:
اس تحریر کا پہلا حصہ پڑھیے
آپ بچوں کو کیوں مارتی ہیں؟ اپنا تجزیہ کرنا ضروری ہوگیا
ان شاءاللہ ہم حل اور تجاویز پر بھی جلد لکھیں گے۔ مگر کچھ باتیں جاننا ضروری ہیں۔
اول: یہ جو ہم یہاں مسائل کا تجزیہ اور حل وغیرہ تجویز کرتے ہیں۔ ڈسکشن کرتے ہیں۔ یہ سائکائٹری کی پریکٹس نہیں ہے۔ اسے آپ کائونسلنگ کہہ سکتے ہیں۔ سائکائٹرک مسائل کے لیے آپ کو کسی مستند سائکائٹرسٹ یا سائیکولوجسٹ سے ملنا چاہیے۔ اور باقاعدہ طور پر مدد لینی چاہیے۔
دوم: اگر کوئی مسئلہ کافی عرصے سے چل رہا ہو تو اسے فوری طور تجاویز کی فہرست اور گرما گرم ڈسکشن سے حل نہیں کیا جاسکتا۔
بلکہ فوری طور پر تجاویز کی بھرمار کردینا کئی لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے اور کم از کم غیر موثر تو ضرور ہی ہوسکتا ہے۔ آپ لسٹ پر جلدی جلدی نظر ڈالیں گی۔ اتنے سارے مشوروں میں سے شاپنگ کریں گے یا ونڈو شاپنگ کریں گے اور دو چار روز کوشش کرکے چھوڑ دیں گے۔ آپ خود دیکھ لیجیے مشوروں۔ کی بھرمار کے باجود ہمارے مسئلے حل نہیں ہورہے۔
سوم: سہج سہج چلیں۔ اپنا درست تجزیہ کریں۔ مسئلہ زیادہ گھمبیر ہے، مثلا گھر میں کوئی بہت زیادہ abusive ہے، بچے بہت زیادہ بدتمیز ہوچکے ، بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں، آپ کو خود کو طبی مسائل یا سیریس ڈیپریشن یا اینزائیٹی ہے، تو اس کے لیے باقاعدہ سنجیدہ مدد کی ضرورت ہے۔ انفرادی ہیلپ کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ وہ کہاں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسی باتیں فیس بک اور میسنجرز پر حل کرلینا ممکن نہیں ہے میرے عزیزو! یہاں آپ کی تھوڑی سے غم گساری کی جاسکے گی اور آپ کو درست سمت میں مدد لینے کے لیے رہنمائی ممکن ہے۔ مگر گھمبیر مسئلوں کا سنجیدہ اور کبھی کبھی طویل المدتی منصوبہ بنانا پڑتا ہے۔ جو کہ یہاں ممکن نہ ہوگا تو آپ کو مایوسی ہوگی۔
چہارم: اگر یہ روزمرہ کے مسائل ہیں تو بالکل ہم یہاں تجاویز پیش کریں گے۔ یہاں آپ کے لیے پر خلوص مشورہ یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک یا دو تجاویز پر پوری استقامت سے عمل کریں۔ یہ صرف موٹیویشنل مقولہ نہیں بہت بڑی حقیقت ہے کہ بڑی تبدیلی چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ممکن ہے۔ ہمارا دین بھی یہی سکھاتا ہے اور اکثر تجربے سے بھی ثابت ہے۔
ممکن ہے کہ کچھ بنیادی چیزوں کو تبدیل کر کے، کچھ چھوٹی چھوٹی عادات کو تبدیل کرکے آپ کی زندگی میں مثبت تبدیلی نظر آنے لگے مگر۔۔۔
مگر۔۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔
مگر عین ممکن ہے کہ یہ چھوٹا سا قدم لینا آسان نہ ہو۔ پڑھنے میں وہ ایک جملہ لگتا ہو، مگر جب آپ اس پر عمل کرنے لگیں تو ہوسکتا ہے کہ مستقل مزاجی کے لیے آپ کو محنت کرنا پڑے۔ اس لیے ایک وقت میں ایک یا دو چھوٹی تبدیلیوں سے ابتدا کریں۔ مثلا ہم میں سے کتنے روازنہ کم سے کم ڈیڑھ دو لیٹر پانی پیتے ہیں؟
ذرا پینا شروع کریں۔ پڑھنے میں صرف ایک جملہ ہے مگر عمل کرنے میں وقت لگے گا اگر آپ کو پانی پینے کی عادت نہیں۔
ان باتوں کو ذہن میں رکھیے۔ یہ ”کاونسلنگ“ کا دوسرا دور ہے۔ اس میں سے بھی اپنے عمل کی باتیں چن کر اسی نوٹ بک کے اگلے صفحات پر لکھ لیجیے جس پر آپ نے اپنا تجزیہ نکتہ وار لکھا تھا۔
اللہ تعالی ہم سب کے دلوں کو سکینت عطا فرمائے۔