رضوان رانا:
کراچی کے بعد فیصل آباد ٹیکسٹائل اور گارمنٹس انڈسٹری ہمارے ملک میں ایکسپورٹ حب سمجھی جاتی ہے.
اگر کہا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا کہ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ لاکھوں ورکرز ان ٹیکسٹائل ملوں سے وابستہ ہیں اور اپنا گزر بسر کر رہے ہیں ۔
بلا مبالغہ کئی سالوں سے ان ٹیکسٹائل ملز کے مالکان لاکھوں کروڑوں روپے منافع کما رہے ہیں. ان ملز میں کام کرنے والے یہ مزدور اور مینیجر اپنا خون پسینہ بہا کر شب و روز ان تھک محنت کے ذریعے اپنی بہترین اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی مدد سے ملز کی پروڈکشن اور ترقی میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں.
مگر ہمیشہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی حالات بدلے اور مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا تو ان ٹیکسٹائل ملز مالکان کی اکثریت نے برداشت اور تحمل کا مظاہرہ نہ کیا اور نہ ہی اپنے ملازمین کا ساتھ دیا. کبھی ڈاؤن سائزنگ کے نام پر اور کبھی سلو پروڈکشن کا کہہ کر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا.
یہ بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے کہ ملز مالکان کاروبار منافع کے لیے کرتے ہیں مگر صبر، برداشت ، تحمل اور حکمت عملی بھی کوئی چیز ہوتی ہے. کرونا وائرس نے پوری دنیا کو جہاں عملی طور پر بند کر دیا وہاں دنیا کی معشیت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دی ہے اور پاکستان میں بھی اس کے اثرات بہت گہرے ہیں.انہی حالات سے جڑے ایک واقعہ کا ذکرکروں گا جو چند سال پہلے میرے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا جو کہ فیکٹری کا مالک ہے۔
جیسا کہ بہت سارے لوگ جانتے ہیں 2002 سے 2006 تک لاہور میں گارمنٹس کی بہت سی فیکٹریز ہوا کرتی تھیں جو کہ آہستہ آہستہ کوٹہ کے ختم ہونے اور گارمنٹس آرڈرز کی کمی کے باعث بند ہوتی گئیں۔ انہی فیکٹریز میں سے ایک فیکٹری میرے اس دوست کی بھی تھی جو آرڈرز کی کمی کا شکار تھا مگر اپنی خدا ترس طبعیت کے باعث اپنے ملازمین کو فارغ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ دو تین ماہ تو ان کی تنخواہیں ادا کرتا رہا مگر حالات دن بدن فیکٹری کی بندش کی طرف جا رہے تھے مگر پھر اچانک کچھ ایسا ہوا کہ اس نے مزید ملازمین کو رکھنا شروع کر دیا اور اس کا کام چل نکلا۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے میں نے اس سے پوچھا:” آخر تم نے ایسا کیا مختلف کیا کہ ریسیشن کے دور میں بھی تم بہترین جا رہے ہو؟“ تو اس نے جو بتایا وہ آج اس مشکل وقت میں آپ سب سے شئیر کرنا چاہوں گا۔ اس نے بتایا کہ کام کے برے حالات تھے اور اوورہیڈز کو برداشت کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا اور ہماری فیملی نے اس کام کو بند کرنے اور ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر اسی روز مجھے میرے والد کے ایک پرانے دوست ملے جو بہت بزرگ طبعیت انسان ہیں اور ہمیشہ گھر اور کاروبار ی پریشانیوں میں میری رہنمائی کرتے رہتے تھے۔
انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ جہاں تم نے تین ماہ اپنے ملازمین کو بغیر کام کے تنخواہ دی اور برداشت کیا وہاں ایک دو ماہ اور دیکھو بلکہ ایک کام کرو، کچھ اور لوگوں کو ملازمت پر رکھو. میں ان کی بات سن کر حیران ہوا مگر ان سے محبت اور عقیدت کا ایک رشتہ ہونے کے باعث میں نے ہمیشہ ان کے مشوروں پر عمل کیا تھا تو اس دفعہ بھی میں نے ان کے اس مشورے پر عمل کیا اورہر کھاتے یا ڈپارٹمنٹ میں نئے لوگ رکھنے شروع کر دئیے۔
میری فیکٹری میں کچھ لوگ مجھے پاگل سمجھ رہے تھے اور کچھ چالاک۔ ساتھ ساتھ ہم نئے آرڈرز تو تلاش کر ہی رہے تھے کہ اچانک ہمیں یورپ اور امریکہ سے بڑے آرڈرز ملنا شروع ہو گئے اور ہمارا ڈوبتا جہاز پھر سے بھاگنے لگا۔
میں شکریہ ادا کرنے اپنے والد صاحب کے دوست کے پاس گیا اور ان سے پوچھا:
انکل! اگرچہ آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہی اللہ تعالی نے اپنے خاص کرم کے دروازے کھول دیے مگر آپ نے مجھے مشکل وقت میں بھی اور لوگوں کو رکھنے کا کیوں بولا تھا جبکہ آپ جانتے تھے کہ میں پہلے ہی ملازمین کی تنخواہوں اور بلوں سے تنگ آ چکا تھا تو ان کے جواب نے مجھے حیران کر دیا۔
وہ کہنے لگے: میاں! برخوردار!! جب نئے لوگ آتے ہیں تو وہ اپنا نصیب اور رزق لے کر آتے ہیں اور بعض اوقات ان کے نصیب کی وجہ سے پہلے سے موجود لوگوں کا نصیب بھی کھل جاتا ہے.
ان کا جواب بجا طور پر ان حالات میں ہم سب لوگوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔
پورا ملک 22 مارچ سے بند ہے اور آخری اطلاعات آنے تک لاک ڈاؤن کو 30 اپریل تک بڑھا دیا گیا ہے. رمضان المبارک بھی 24اپریل سے شروع ہو جائے گا تو ان سخت حالات کے پیش نظر میں خاص طور پر ٹیکسٹائل ملز مالکان ، پرائیویٹ سکول اونرز اور ہر طرح کی فیکٹری ، دکان اور مکان کے مالکان سے ہاتھ باندھ کر ایک گزارش کروں گا کہ
خدارا ! اس نازک مرحلے پر بے حسی اور روایتی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں اور کم از کم تین ماہ تک اپنے ملازمین کو برداشت کریں. پرافٹ کمانے کے لیے پوری زندگی پڑی ہے۔ اگر اللہ تعالی نے چاہا تو آپ کاکام ترقیوں کی وہ منازل طے کرے گا جس کی مثال دی جائے گی۔
یاد رکھیں!
شجر سایہ دار بنیں،
آپ کا کاروبار دوڑ پڑے گا
پھل والے درخت بنیں،
آپ کی قسمت کے دروازے کھول دیے جائیں گے
جو درخت، پھل یا سایہ نہ دیں وہ کاٹ دیے جاتے ہیں
ان کااستعمال صرف ایندھن کے طور پر جلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔۔۔!!!
2 پر “قسمت کے دروازے” جوابات
بہت اعلی تحریر ہے رضوان صاحب کی کہ جو یقینناً تجربے اور تحقیق کا مظہر ہے۔
آپ کی مزید تحریروں کا انتظار رہے گا
رضوان رانا صاحب نہ صرف محب وطن باکردار پاکستانی ہیں بلکہ اپنے شعبہ کے ٹاپ پروفیشنلز میں ان کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ان کے تین ماہ تک ملازمین کو برداشت کرنے والے مشورے میں لاجک ہے۔ اب تو اسٹیٹ بنک نے اس معاملے میں بیس کروڑ روپے تک کے سافٹ لان دینے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ صاحبِ مضمون کے جذبہ انسانیت کو سلام