تحریر و تصاویر: ڈاکٹر محمد کاشف علی:
”اور پھر وہ سانڈ پتھر کا ہوگیا“، جس کو پنجابی زبان کی ہندکو بولی میں ”سنڈا پتھر“ کہا جاتا ہے۔
سترہویں صدی عیسوی کا چل چلاؤ تھا جب حضرت شاہ عبد الطیف معروف بہ حضرت امام بری سرکارعلیہ رحمت نے مارگلہ کی بے انت پہاڑیوں میں نیچے کی دنیا سے رسہ تڑوا کے اپنی جوت جگائی، اس خالق سے لو لگائی جس نے ان کو علم و شعور و آگہی عطا کی، محبت عطا کی۔
تاریخ اور تاریح نویسی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تاریخ واقع ہوتی ہے اور تاریخ نویسی میں روایات و ذاتی پسند و ناپسند تاریخ کے عکس میں بدلاؤ پیدا کر سکتی ہے۔ خاص طور پر جب زبانی روایات پر تاریخ کی عمارت استوار کی جاتی ہے تو تصدیق کے مواقع کم اور کم ہو جاتے ہیں کہ ایک ہی فعل کی مختلف توجیحات بیان کی جاتی ہیں، اپنی اپنی ترجیحات کی بنیادوں پر۔
ایسا ہی کچھ ”سنڈا پتھر“ کے ساتھ ہوا کہ موجودہ دارالحکومت اسلا م آباد کے شمال میں نظر آتے مارگلہ کے پہاڑوں کے پیچے نیلاں بھوتو کی وادی پوشیدہ ہے جہا ں سترہویں صدی میں حضرت شاہ عبدالطیف، خشکی کے امام نے ڈیرہ لگایا اور نیلاں بھوتو کے وسعت انگیز اور پراسرار خاموش جنگلوں میں صوفیانہ روایات کے مطابق بارہ سال تک ریاضت و مراقبہ کی اپنی الگ دنیا بسائی۔
کہنے والےکہتے ہیں کہ وہاں ایک گوجر(تھا تو مویشی پال اب کون جانے کہ نسلی طور پر گوجر تھا یا نہیں۔ مجھے تو یہ داستان ایک گوجر داستان گو نے سنائی تھی تو سچ و جھوٹ بر گردنِ راوی) تھا جو امام صاحب کو روزانہ دودھ پہنچایا کرتا تھا۔ داستانوں میں ہونی ہو کر رہتی ہے تو اس گوجر کی بھینسیں آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے مرنا شروع ہو گئیں مگر وہ امام صاحب کو دودھ پہنچاتا رہا۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس کے سارے مویشی جان ہار گئے اور امام صاحب کو دودھ نہیں پہنچا تو پتا چلا کے موصوف رنجیدہ ہے کہ سب مویشی چلے گئے۔
امام صاحب نے بلا بھیجا اور کہا کہ ندی کنارے کھڑا ہو جائے اور اپنے جانوروں کوایک ایک کر کے پکارنا شروع کردے پر پیچھے مڑ کے نہ دیکھے تو پھر موصوف نے ندی کنارے ایک ایک کر کے جو آوازیں بلند کیں تو پانی سے اس کے گزرے ہوئے جانور برآمد ہونا شروع ہوگئے، مگر تجسس انسان کو کہاں نچلا بیٹھنے دیتا ہے تو بس جب آخری بھینسا ندی سے برآمد ہو رہا تھا تو صاحب نے جیسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ بھینسا پتھر کا ہو گیا۔
تو یہ ہے داستان ”سنڈا پتھر“ کی اور اس گوجر کا نام ’بھوتو‘ تھا جبکہ پانی کو ’نیلاں‘ کہتے ہیں تو اس طرح نام نیلاں بھوتو نے جنم لیا۔
تو جناب اب داستان سے نکل کر چلتے ہیں نیلاں بھوتو وادی کو کہ جس کا آسان راستہ اسلام آباد سے ہو کر گزرتا ہے اور کوئی تیس کلومیٹر زمینی فاصلہ ہے۔ سپر مارکیٹ اسلام آباد سے روزانہ کی بنیاد پر ایک یا دو جیپیں نیلاں بھوتو تک مقامی لوگوں کے لئے چلتی ہیں، مجھے تو اس دن جیپ نہیں ملی مطلوبہ وقت پر کہ شومئی قسمت جیپ آئی ہی نہیں پر مجھے ایک سیمنٹ اور ریت ڈھونے والے فور وھیل ڈالے پر لفٹ مل گئی، اپنا تو کام بن گیا تھا۔
اختصار کو کام میں لایا جائے تو سپر مارکیٹ سے آپ سید پور کے تاریخی گاؤں سے ہوتے ہوئےدامنِ کوہ سے گزرتے پیر سوہاہ بھی پیچھے چھوڑتے خیبر پختونخوامیں داخل ہوجاتے ہیں تو نسبتاً ایک بڑا قصبہ آپ کی راہ میں پڑتا ہے؛ سنگڑا گلی یا سنگڑا گاؤں اور یہاں سے ہی آپ کو سرمئی سڑک کو چھوڑ کر دائیں (مشرقی) طرف اترتے کچ پکے جیپ روڈ کو ہو لینا ہے ۔
یاد رہے کہ سنگڑا گلی تک توآپ کسی بھی سواری کو لے آئیں نہ سواری نے منع کرنا نہ سڑک/راستے نے البتہ سنگڑا سے نیلاں بھوتو تک تو صرف جیپ، فور وھیل ڈرائیو، بائیک یا آپ کی ذاتی ٹانگیں ہی یاترا کو مکمل کرسکتی ہیں کہ سڑک/راستہ جابجا پتھروں سے بھرا پڑا ہے اور جھٹکے اتنے کہ جو بھی کھایا پیا ہو جلد ہضم ہونے کی گارنٹی ہے۔
سنگڑا اور نیلاں بھوتو (چلہ گاہ) کے درمیان کھاریاں کا گاؤں ہے جہاں سے وادی وسعت پکڑنا شروع کرتی ہے۔ یہاں سے ہی نیلاں بھوتو کی ندی آپ کی سنگت اختیار کرتی ہے۔ آپ چلہ گاہ کی طرف جا رہے ہیں اور یہ ندی وہاں کی زیارت کر کے آرہی ہے۔ اگرچہ چلہ گاہ تک جیپ، بائیک وغیرہ چلی تو جائے گی مگر کیا یہ بہتر نہیں کہ کھاریاں سے چلہ گاہ تک کا چار کلومیٹر سے کم کا راستہ اپنے پاؤں پر طے کر لیا جائے کہ آپ فطرت کو اچھی طرح خود میں سمو سکیں۔
کیا آپ چلتی جیپ میں پرندوں کی چہکار سن پائیں گے، کیا بائیک کے شور میں یہ ممکن ہے کہ چیڑ کے درختوں کے ساتھ جو ہوا کا تال میل ہو رہا ہو وہ آپ کی سماعتوں اور یادوں کا حصہ بن پائے؟ کیا آپ اپنی سواری پر بیٹھے بیٹھے بار بار ندی سے اٹکھلیاں کر سکتے ہیں؟ آپ تو آئے ہی یہاں یادوں کی ٹوکری لے جانے کو ہیں تو ٹوکرا تو کچھ بڑا رکھ لیں۔ کھاریاں سے آپ کو کوہستانی دیہاتی ایک دو دوکانوں سے بسکٹ، نمکو بوتل جیسا ”زادِ راہ“ مل سکتا ہے، باقی پانی تو ندی آپ کو دے ہی دے گی۔
ندی اور ندی کے پار کے سر سبز کھیت مل کر ایک نئے جہان، ایک نئی طراوت کی طرف لے جاتے ہیں اور پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر چیڑ ایسے ایستادہ ہیں جیسے کوئی فوج اتر رہی ہو اور چیڑ سے مس کر کے آنے والی ہوائیں آپ کو اپنی مدھر کر دینے والے مہک سے خوش آمدید کہتی ہیں اور اوپر، بہت اوپر کچھ پکھیرو اڑان بھرتے ہیں۔
بس مشینی اور شہری زندگی سی کٹ کر آپ خود کو فطرت کی گود میں پاتے ہیں وہ بھی اسلام آباد و پنڈی جیسےانسانوں سے بسے ٹھسے شہروں کی ہمسائیگی میں، صرف دو تین گھنٹوں کی مسافت پرکھاریاں سے، آگے کا کینوس اور وسیع ہو جاتا ہے اورآپ ندی کے ساتھ چلتے چلتے اس میں اتر ہی جاتے ہیں کہ ایک مقام سے ندی کے اُس پار جانا ہی بنتا ہے اگر تو نیلاں بھوتو جانا ہے۔
اگرچہ ندی میں پتھر رکھے ہوئے ہیں کہ پاؤں ندی میں اتارے بغیر ہی ندی کے پار اترا جا سکے پر یوگی بابا نے ایک نشست میں کہا تھا کہ اگر تو زندگی بھر کے لئے یادیں جمع کرنے کا شوق رکھتے ہو تو وادی کے پانیوں، گل بوٹوں اور راستوں سے میل ملاپ رکھو۔ تو بس پھر نیلاں بھوتو ندی کی گہرائی کوئی اتنا زیادہ بھی نہیں کہ آپ کی ٹانگیں بھی ڈبو سکیں۔
ہاں ندی سے ملاپ، پانی کی ٹھار اور پاؤں میں چبھتے کنکر آپ کی یادوں کا ہمیشہ کے لئے حصہ بن جائیں گے۔ ندی کے اس پار کا راستہ پتا نہیں سندرتا کتنی رکھتا ہے، ہاں البتہ سادگی بس کمال کی ہے، دھیرے دھیرے بل کھاتا راستہ چند گھرانوں والے گاؤں، جانوروں کے باڑوں اور درختوں کی چھاؤں سے ہوتا ہوا آپ کو امام بری سرکار کی چلہ گاہ پہنچا دیتا ہے۔ امام صاحب کا انتخاب تو لاجواب ہے عبادت و ریاضت کے لئے کہ درختوں میں پوشیدہ چلہ گاہ اور ساتھ میں وافر پانی، یکسوئی کے لئے اور کیا چاہیے!
آج وہاں زیارت و عبادت کے لئے ایک عدد مسجد ہے، چلہ گاہ اور تکیہ امام صاحب ہے اور چلہ گاہ سے نیچے ندی و تالاب جہاں مشہورِ زمانہ مچھلیاں ہیں اور بموجب روایات وہ امام صاحب کی مچھلیاں ہیں، کافی تعداد میں بھی ہیں اور جسامت میں اچھی خاصی بڑی بھی ہیں، دیکھ کر منہ میں پانی توبھر ہی آتا ہے پر شکار سختی سے ممنوع ہے۔ یہ مچھلیاں شائد انسانوں کے رویوں کو سمجھ گئی ہیں کہ جتنی بڑی مقدار میں چلہ گاہ کے قدرتی تالاب میں پائی جاتی ہیں اتنی شائد پوری ندی میں کہیں اور جمع نہیں ہوتی۔
شائد یہاں ان کو تحفظ کا احساس ہے یا شائد زائرین کی طرف سے ڈالی گئی خوراک کی تن آسانی انہیں یہاں جمع رکھتی ہے۔ اب چلتے ہیں ’سنڈا پتھر‘ کی طرف، جب میں اپنے سفری رہنما اور داستان گو سے پتھر کے تجسیم شدہ سانڈ کی بات کی کہ مجھے دکھاؤ تو اس کے بقول برسوں قبل اس کو تو سیلاب لے گیا (اگرچہ ایک مقامی نے سیلاب والی بات سے اختلاف کیا اور ایک جسیم و بے ڈھبے پتھر کی طرف اشارہ کر کے اسے سنڈا پتھر بتایا)۔
روایات کی تاریخ بنا لی گئی یا تاریخ روایات میں کھو گئی! سید زاہد حسین بخاری اپنی کتاب ”اہلِ عرفان“ میں جہاں امام صاحب کی کرامات کو قلم بند کرتے ہیں وہاں سنڈا پتھر کا کوئی ذکر نہیں کرتے، خیر سے مذکورہ کتاب بھی تو حوالہ جات کے بغیر ہی لکھی گئی ہے۔
نیلاں بھوتو وادی میں ابھی تک تو کمرشل بنیادوں پر رہائش کا کوئی بندوبست نہیں، ہاں کیمپنگ کی جاسکتی ہے، پانی وافر ہے، کھانا خود بنایا جا سکتا ہے اور اگر مقامی لوگوں کی سنگت دستیاب ہو جائے تو داستان گوئی کا دور بھی چل سکتا ہے۔
زیارتوں کا شوق رکھنے والے کچھ لوگ تو ذرا مختلف راستہ بھی اپناتے ہیں کہ نور پور شاہان امام بری سرکار کو سلام عرض کرتے ہیں پھر اوپر لوئے دندی چلہ گاہ کی زیارت کر کے مارگلہ کے جنگل و کوہستان میں سفر کرتے ہوئے نیلاں بھوتو چلہ گاہ کی زیارت کرتے ہیں اور قیام چلہ گاہ ہی کرتے ہیں اور یہ سب وہ ایک دن میں کرتے ہیں۔ اگلے دن اسی راستہ سے واپسی یا پھر سنگڑا، پیر سوہاوہ سے ہوتے ہوئے اسلام آباد۔ نورپور شاہان سے نیلاں بھوتو والے راستے پر جانے سے پہلے مکمل راہنمائی یا ایک عدد رہنما ساتھ لے لینا چاہیے۔
ایک تبصرہ برائے “نیلاں بھوتو وادی اورامام بری کی مچھلیاں”
بہت شکریہ ہمیں اپنے ساتھ نیلاں بھوتوں لے جانے کے لئے ۔ تصاویر نے تحریر کالطف دوبالا کر دیا۔ زندگی میں موقع ملا تو ضرور جائیں گے وھاں۔