ابن فاضل:
تازہ ترین مردم شماری کے مطابق پاکستان کی 61 فیصد آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے. اور شاید 80 فیصد دیہی آبادی کو گیس کی سہولت میسر نہیں. اس طرح تقریباً آدھی پاکستانی آبادی کھانا پکانے اور روزمرہ توانائی کی دیگر ضروریات لکڑی، کوئلہ یا اپلے وغیرہ جلا کر پورا کرتی ہے جس میں سے غالب حصہ لکڑی کا ہی ہے۔ اس کے علاوہ دیہات اور شہروں میں تجارتی اور صنعتی مقاصد کیلیے بھی بڑے پیمانے پر لکڑی جلائی جاتی ہے.
لکڑی کی پیداوار چونکہ ایک سست عمل ہے اور ہم بحیثیت قوم بہت زیادہ شجرکاری کے رسیا بھی نہیں، نتیجتاً جنگلات کا رقبہ دن بدن سکڑتا جارہا ہے جو بہت خطرناک صورتحال ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لکڑی جلانا ایک مشکل اور تکلیف دہ عمل بھی ہے کہ اس کے ساتھ دھواں بہرحال ضرور پیدا ہوتا ہے۔ یہ دھواں جہاں وطن عزیز میں فضائی آلودگی کاباعث ہے، وہی چولہا جلانے والی ہماری بہنوں، بیٹیوں کی صحت کیلئے بھی مضر ہے۔ نیز برتنوں کی کالک ایک الگ مسئلہ ہے۔
جلنا بنیادی طور پر لکڑی اور ہوا میں موجود آکسیجن کا کیمیائی تعامل ہے۔ جب لکڑی کو کھلی ہوا میں جلایا جاتا ہے تو دستیاب آکسیجن کی کثرت کی وجہ سے لکڑی دھڑادھڑ جلنے لگتی ہے اور کچھ ہی دیر میں راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے. البتہ سائنسدانوں نے بہت پہلے یہ بات دریافت کرلی تھی کہ اگر لکڑی کر کسی بند برتن نما چولہے میں اس طرح جلایا جائے کہ اسے بہت نپی تلی مقدار میں آکسیجن ملے تو لکڑی کا کچھ حصہ جلنے لگتا ہے۔ اور اس جلتی ہوئی لکڑی کی حرارت سے باقی لکڑی بہت زیادہ گرم ہوکر مختلف گیسوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ گیسیں پھر تادیر نکلتی اور جلتی رہتی ہیں۔ کیمیائی طور پر اس عمل کو عملِ ایشکافتِ چوب ( wood pyrolysis) کہتے ہیں۔ اور اس برتن نما چولہے کو گیسی چولہا ( gasifier stove ) کا نام دیا گیا۔
فی الحقیقت گیسی چولہا ایسی زبردست ایجاد تھی کہ جس کے استعمال سے دیہی خواتین کی زندگی ایک طرح کا انقلاب برپا کیا جاسکتا تھا۔ اس سے جہاں لکڑی کا استعمال آدھا یا اس سے کم رہ جاتا اور پیسے کی براہ راست بچت ہوتی، وہیں پر خواتین کی لکڑیاں جلانے جیسے تکلیف دہ عمل اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے دھویں سے بھی جان چھوٹ جاتی لیکن اس میں ایک مسئلہ تھا۔ اور وہ یہ کہ جس چھوٹے سے سائز کا چولہا گھریلو استعمال کیلیے درکار تھا اس میں بہت چھوٹے اور ایک جیسے لکڑی کے ٹکڑے چاہیے ہوتے جن کو بنانا بذاتِ خود ایک مشکل اور مہنگا عمل تھا۔ سو صنعتی پیمانے پر تو گیسیفائرز بننے اور استعمال ہونے لگے لیکن گھریلو استعمال تادیر ممکن نہ ہوسکا۔
تاوقتیکہ کوئی چالیس سال قبل لکڑی کے برادہ سے لکڑی کی گولیاں نہ بنا لیں گئیں۔ لکڑی کی گولیاں لکڑی کے برادے اور شیرے کے ملاپ سے ایک چھوٹی سی انتہائی کم قیمت مشین کے ذریعہ بآسانی بنائی جاسکتی ہیں۔ جیسے ہی ان گولیوں کی پیداوار شروع ہوئی گھریلو سائز کا چولہا بننا شروع ہو گیا اور اس میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں جس کی خواتین عرصہ دراز سے منتظر تھیں۔
لہذا دیکھتے ہی دیکھتے یہ چولہا پوری دنیا میں مقبول اور مستعمل ہوگیا۔ ہمارے خطہ میں چین سے لے کر ویت نام اور بھارت سے لے کر سری لنکا اور برما تک سب ملکوں میں بننا اور استعمال ہونا شروع ہوگیا۔ اگر ایک ملک اور اس کے باسی اس انقلابی ایجاد سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے اور ہیں تو وہ ہم پاکستانی ہیں۔
لکڑی کی گولیاں بنانے والی چھوٹی مشین کی قیمت صرف چار لاکھ روپے ہے اور درمیانے سائز کی مشین آٹھ لاکھ روپے کی ہے۔ برادہ سے تیار کرنے پر ان گولیوں کی لاگت اتنی ہے کہ اگر ان کی قیمت فروخت بیس، بائیس روپے رکھی جائے تو بآسانی ایک مشین سے ماہانہ ایک لاکھوں روپے کمائے جاسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آئیں! گلیسی فروٹ کا کاروبار شروع کرتے ہیں
کرونا وائرس سے بچائو، ہینڈ سینیٹائزر گھر میںکیسے تیار کریں؟
کاروبار کا ایک بہترین آئیڈیا جس سے ہر ایک فائدہ اٹھاسکتا ہے
زندگی میں خوشحالی کے لئے خود کو ویلیوایڈیڈ بنائیے
انمول خزانوں کے سوئے ہوئے وارث
دوسری طرف محض ایک کلوگرام گولیوں سے چولہا گھنٹہ بھر مکمل لو میں جلتا ہے جس پر بھرے گھر کا ایک وقت کا کھانا بآسانی پکایا جاسکتا ہے۔ ایل پی جی گیس کے مقابلہ میں اس کی قیمت آدھی سے بھی کم پڑتی ہے. مقامی طور پر تیار شدہ مکمل آٹومیٹک گھریلو چولہے کی قیمت سات سے آٹھ ہزار روپے ہے. جو صرف ایک بار خرچ کرنا ہیں۔ گھریلو کے ساتھ ساتھ حلوائیوں، نان بائیوں اور دیگیں پکانے والوں کیلیے بڑے سائز کے کمرشل چولہے بھی دستیاب ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ گولیاں صرف برادہ سے ہی نہیں، گندم کی توڑی، چاولوں کی پرالی، کپاس کی چھٹیوں، درختوں کے پتوں، خشک گھاس یہاں تک کہ خشک شدہ گوبر سے بھی بنائی جا سکتی ہیں اور وہی نتائج دیتی ہیں. میرے خیال میں اگر ہم اس چولہے کے نظام کو اپنا لیں تو ہر گاؤں میں پانچ دس لوگ گولیاں بنانے اور ان کی ترسیل میں برسرِ روزگار آسکتے ہیں۔ اس طرح فی الحقیقت نہ صرف لاکھوں لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ بہت سے درخت اور لکڑی خوامخواہ جلنے سے بچ جائے گی.اور خواتین کو آلودگی اور مضر صحت دھوئیں سے بھی سے نجات ملے گی۔
نوٹ :اس ضمن میں ہر طرح کا تکنیکی تعاون مہیا کیا جاسکتا ہے۔