امجد اسلام:
اس تحریر کا ایک حصہ کچھ عرصہ قبل لکھ کر بھول گیا تھا، لاک ڈاؤن کے دنوں میں نوٹ پیڈ میں گھومتے گھومتے نظر آیا۔
سوشل میڈیا پر آج کل اُن لوگوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے، جو مُستحقین کو اِمداد دیتے وقت سیلفی لے کر اَپ لوڈ کر رہے ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ لوگ بھی اعتراض کر رہے ہیں جو فقیر کو دیکھ کر رستہ ہی بدل دیتے ہیں۔
مجھے تصویر پر خفگی سے زیادہ اِس بات پر اطمینان ہے، کہ ایک تصویر کے بدلے کسی کے گھر میں فاقے کی نوبت نا آئے شائد۔
تصویر لینے کی یہ بیماری کورونا سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ تصویر لینے کے لئے ہر کسی کو ایک عدد کیمرے اور ایک ”ثناءاللّہ“ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر تو آپ کو ”ثناءاللّہ“ کا نہیں معلوم، تو فاٹا سے مُنتخب ہونے والے اُس معصوم ممبر کی ویڈیو ایک بار ضرور دیکھئے، جو”ثناءاللّہ، ثناءاللّہ یو تصویر اُوباسہ“ کے نام سے کافی مشہور ہوئی تھی۔ اِس مضمون میں ہم تصویر سے متعلق تمام عناصر کو ”ثناءاللّہ“ سے جانیں گے۔
پشتو زبان کی گلوکارہ نازیہ اِقبال کی طلاق کا حساس معاملہ ہو، مُحلے میں پکڑے گئے چور کی دھلائی ہو، یا پھر صلاح الدین کے ساتھ پولیس کا بیہمانہ رویہ،
سب میں ثناءاللّہ کا کردار اہم رہا ہے۔
وزیر کا غریب بچے یا مزدور کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر سادگی دکھلانے سے لے کر بیمار کی بیمار پرسی تک، جنازے میں شرکت ہو یا لواحقین سے اِظہارِ افسوس، اِن سب میں ثناءاللّہ کا ہونا لازم سے بھی لازمی۔
فاٹا کے اُس نو منتخب رکن جسے تصویر بنانے کا بہت شوق تھا کی طرح ہم سب کو ہر وقت کسی ثناءاللّہ کی ضرورت ہوتی ہیں۔
حج یا عمرہ جاتے ہوئے، طواف کے دوران یا کعبہ شریف کو چُومتے اور ہاتھ لگاتے ہوئے ثناءاللّہ کا نہ ہونا گویا حج یا عمرے کا ایک رُکن قضا ہونے کے برابر ہو۔
کسی غریب یا مسکین کو دس روپے کا نوٹ دیتے وقت، یا کسی بھوکے کو اپنے سے بچی کچی روٹی کا ٹکڑا دیتے ہوئے ثناءاللّہ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
ماں یا باپ کی تیمارداری کرتے وقت، ہاتھ یا ماتھے پر پیار کرتے ہوئے، بھائی، بہن کو تُحفہ دیتے وقت ثناءاللّہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
عید الاضحٰی کے موقع پر مال منڈی میں جانور خریدتے ہوئے، خریدنے کے بعد پیسے دیتے وقت اور قربانی کے موقع پر چُھری سے زیادہ ثناءاللّہ کی مانگ ہوتی ہے۔
نماز ادا کرتے یا قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے وقت بھی اگر ثناءاللّہ کے خدمات حاصل نہ کی گئیں تو گھر والوں اور رشتہ داروں کے نزدیک آپ کا شُمار بے نمازیوں اور گناہگاروں میں ہوتا ہے۔
راستے میں مقدس اوراق، قومی پرچم اُٹھاتے ہوئے یا کسی ضعیف بوڑھے کو سڑک پار کراتے وقت بھی ثناءاللّہ کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
اقرار الحسن کی ٹیم نے ثناءاللّہ ہی کی بدولت ڈیرہ اسماعیل خان یونیورسٹی کے گریڈ اکیس کے پروفیسر کو بے نقاب کیا، ورنہ پروفیسر صاحب تو ”میں نہ مانوں، میں نہ مانوں“ کا عبداللّہ بنا ہوا تھا۔
محبوب سے چُپکے چُپکے مُلاقات میں بھی آج کل ثناءاللّہ کا ہونا بہت ضروری ہوتا جا رہا ہے، اور پھر جب ثناءاللّہ کی خدمات کے عوض مزید ناجائز مطالبات سے تنگ آ کر ”وہ“ خودکشی کرتی ہے، تب ثناءاللّہ کا کام کسی میز، ٹیبل یا سیلفی اسٹیک سے لیا جاتا ہے۔
شادی بیاہ کے موقع پر تو سب سے زیادہ ثناءاللّہ کی مانگ ہوتی ہے، لوگ تو سلامی بھی تب دیتے ہیں، جب ثناءاللّہ کی پوری توجّہ دلہے پر مرکوز ہو، ورنہ آپ کو خالی ہاتھ آئے ہوئے میں لکھا اور جانا جائے گا۔