سمرہ ملک:
وہ کہہ رہی تھی کیا میں منافق ہوں؟
ارسلان نے جب کلاس میں اسے اسائنمنٹ سب سے پہلے جمع کرا تے دیکھا تو فوراً کہا:
” جھوٹی!
تم تو کہہ رہی تھیں، کل رات آٹھ بجے تک کہ کچھ نہیں کیا“
اب یہ کہاں سے نکل آیا، ہاں ؟“
شازیہ، ارسلان کی بات سنتے ہی آگ بگولا ہوگئی۔ اسائنمنٹ سر کو دیتے ہی وہ کلاس سے نکل آئی ۔ وہ وہاں کوئی بد مزگی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اس کے نکلتے ہی ارسلان بھی اس کے پیچھے ہولیا ۔ اس کا راستہ روکتے ہوئے پھر سے سرخ چہرے کے ساتھ گویا ہوا۔
”تم نے مجھ سے جھوٹ بولا , تم جھوٹی ہو۔“
اب شازیہ کا پارہ چڑھ رہا تھا، وہ لحاظ کو خاطر میں لائے بغیر غصے میں بولی:
”تم مجھے منافق کہہ رہے ہو ؟“
اس کی یہ بات سنتے ہی ارسلان کے تیور بدلے، پھر چہرے کا رنگ اور پھر انداز۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی اتنی اچھی دوست اس سے جھوٹ بولے گی، پھر اس کے کچھ کہہ دینے پر بات کو یوں غلط رنگ دے گی۔
”یہ منافقت کہاں سے درمیان میں آگئی ، بات کو دوسری راہ نہ دو۔“
”ارے واہ، ایک تو تم مجھے منافقوں میں سے کہہ رہے ہو اور پھر پوچھتے ہو منافقت بیچ میں کیسے آئی؟“
ارسلان نا سمجھی کے سے انداز میں اس کی طرف بغور دیکھتا رہا۔
ارسلان اور شازیہ ایک سال قبل نکاح کے بندھن میں بندھے تھے۔ وہ اس کا ماموں زاد تھا ۔ دونوں میں ہمیشہ سے ہی دوستی رہی تھی ۔ یونیورسٹی کا سفر دونوں نے ساتھ شروع کیا تھا ۔ ان کے نکاح کا فیصلہ بچپن سے کیا جا چکا تھا ۔ آج یا کل میں ہونا ہی تھا لہذٰا اس وقت میں کردیا گیا تاکہ کوئی پریشانی نا رہے۔ ارسلان اور شازیہ اس رشتے سے بڑھ کر آج بھی بہترین دوست تھے اور یہی ان کے رشتے کا خاصہ تھا۔
ابھی وہ کچھ کہنے کے لیے الفاظ ٹٹول رہا تھا،ان کی ترتیب بنا رہا تھا کہ بات مزید نہ بڑھے، اتنے میں شازیہ بگڑے ہوئے تیور کے ساتھ گویا ہوئی:
”تمہیں نہیں معلوم منافق کون ہوتا ہے؟ منافق وہ ہوتا ہے جو بات کرے تو جھوٹ بولے، جو وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جو امانت میں خیانت کرے ۔ “
”جھوٹ صرف روز مرہ کی باتوں میں تو نہیں بولا جاتا ۔ جھوٹ کی تو بہت سی اقسام ہیں ۔ یہاں تمہارا کہنا ہے کہ میں نے تم سے جھوٹ بولا ۔ جب ہماری بات ہوئی تھی اس وقت تک میں نے واقعی کچھ نہیں کیا تھا ۔ میں نے رات ساری جاگ کر کام کیا ہے اور یقین نہیں تو ارمان سے پوچھ لو۔ صبح یونیورسٹی آنے سے آدھ گھنٹہ پہلے اس کو ای میل کی تھی کہ میری اسائنمنٹ کا پرنٹ لے آئے ۔ تم نے بنا تصدیق کے بھرے مجمعے میں مجھے ذلیل کردیا۔“
”جھوٹی“ کا لفظ طمانچے سے زیادہ بھاری لگا ہے مجھے ۔ میں نے تمہیں روکا تو نہ تھا کہ تم اسائنمنٹ نہ بناؤ اور نہ ہی تم نے ایسا کوئی ارادہ ظاہر کیا تھا، نہ ہمارا اس بارے میں ذکر ہوا تھا کہ تم نے کام کرلیا یا نہیں۔“
ارسلان ہونقوں کی طرح شازیہ کا سرخ چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہ پہلے کبھی یوں غصے میں نہیں آئی تھی۔ وہ اسے بہت کچھ کہہ د یا کرتا تھا اور وہ اس کی باتیں ہوا میں اڑادیتی تھی مگر آج یہ شازیہ بالکل وہ نہیں لگ رہی تھی ۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے سے لفظ نے اسے اتنا غصہ دلا دیا یا وجہ کچھ اور ہے۔
”اب تم سوچ رہے ہوگے کہ اتنے سے لفظ نے مجھے اتنا غصہ کیوں دلادیا ،اتنا بھڑکنے کی کیا بات تھی۔“
”شازیہ! آؤ کہیں چل کر بات کرتے ہیں ۔ سب دیکھ رہے ہیں۔“
ارسلان مصالحت کی کوشش کر رہا تھا اب مگر شازیہ کا غصہ تھا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آرہا تھا ۔
”نہیں، دیکھ رہے ہیں تو دیکھیں بلکہ سن بھی لیں، بات یہیں ہوگی اور ایسے ہی۔ ذرا سا لفظ ! تمہیں اندازہ ہے کہ یہ ذرا سا لفظ کتنا وزنی ہے ؟ منافقت کی تین نشانیوں میں سے کوئی ایک بھی کسی شخص میں ہو تو وہ منافق ہی کہلاتا ہے۔“
”منافقت یہ نہیں کہتی کہ کوئی تھوڑا سا جھوٹ بولے گا تو منافق نہیں، زیادہ بولے گا تو ہوگا، چھوٹے چھوٹے جھوٹ بولے گا تو گناہ گار نہیں ، بڑے بڑے بولے گا تو منافق ٹھہرے گا ۔
منافقت کیا ہے؟ امنات میں خیانت ؟ وعدوں کی خلاف ورزی؟
امانت، کیسی امانت ؟ صرف ایسی جو نقدی ہو یا مالی؟
نہیں، امانت ہر وہ چیز ہے جو دوسرے کو نہیں دینی ہوتی ، جس میں سے خود بھی نہیں لینا ہوتا۔ بس! حفاظت کرنی ہوتی ہے۔ چاہے چھوٹا عرصہ، چاہے تا عمر۔ امانت راز بھی ہوتے ہیں، کچھ ایسی باتیں جو کوئی ہم سے بیان کرے اور ہمیں کسی سے نہیں کہنی ہوتیں۔
وعدے ؟ کیسے وعدے ؟ وعدے کیا صرف یہ ہوتے ہیں کہ ہم کہہ دیں، میں وعدہ کرتا ہوں اس بات کا اور اس چیز کا؟
نہیں، وعدے ہماری باتیں بھی ہوتی ہیں ،ہمارے ارادے بھی ہوتے ہیں، ہمارے اعمال بھی ہوتے ہیں ۔
جھوٹ؟ کیا جھوٹ، صرف غلط بیانی ہوتی ہے؟ کسی سے کچھ کہا اور کسی سے کچھ؟
کسی کو کچھ دکھایا اور کسی کو کچھ بتایا؟
نہیں، جھوٹ ہمارے اعمال بھی ہوتے ہیں،صرف قول نہیں ۔ جھوٹ، دکھاوے کی طرح ہے ۔ کرنا کچھ، سوچنا کچھ ، چاہنا کچھ اور دکھانا کچھ ۔
جھوٹ بولنے والوں کی دعائیں پوری نہیں ہوتیں، جھوٹ بولنے والے فلاح نہیں پاتے، جھوٹ بولنے والے رسوا ہوتے ہیں، جھوٹ بولنے والوں پر کلامِ پاک اثر نہیں کرتا ۔ سب سے بڑھ کر جھوٹ بولنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔
ارسلان! تم جانتے ہو میں اللہ کے قریب ہونا چاہتی ہوں ۔ مجھے اسے پانا ہے ۔ اس کا قرب حاصل کرنا ہے ۔ اور تم !! تم نے میرے ایک عمل سے ناخوش ہوکر بنا سوچے سمجھے مجھ پر اس ذرا سے لفظ کا کتنا بوجھ ڈال دیا ہے۔ تم نے اس ذرا سے لفظ سے میری ساری عمر کی کوششوں کو مٹی میں ملا دیا ہے ۔ مجھے اپنا آپ تھکا ہوا محسوس ہورہا ہے۔
کیا میری تمام تر محنتیں بس یہی تھیں کہ کوئی کسی دن اٹھ کر کچھ کہہ دے گا اور سب ڈھ جائے گا ؟ میں اپنی نظروں میں گر جاؤں گی؟“
شازیہ غصے میں نہیں تھی۔ اس کا چہرہ واقعی تھکان زدہ لگا جیسے ایک بوڑھا چہرہ برسوں کی محنت کے بعد تھک کر ہار جاتا ہے زندگی سے، ویسے ہی جھریوں زدہ، ٹھوکریں اور چوٹیں سمیٹے ہوئے۔
وہ کہہ رہی تھی:
” ہم انسان یہی تو کرتے ہیں ۔ اپنے غصے کے آگے کچھ نہیں دیکھتے، کسی سے بھی کچھ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ یہ نہیں سوچتے ہمارے کہہ دینے کا دوسرے پر کیا اثر پڑے گا ۔ ہمارے ذرا سے عمل سے دوسرے کا کیا بگڑے گا ۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے، طوفان میں کسی کشتی کی مانند ہچکولے کھاتے ہوئے، محںت مشقت کرتے ہوئے، کیا کیا سہہ کر وہ انسان اس مقام پر خود کو پہنچا پایا ہے جہاں وہ چاہتا ہو کہ کوئی اس سے وہ نہ کہے جو نہ سننے کے لیے اس نے اتنی محنت کی۔“
”مگر کیا ہمیں تو اندازہ بھی نہیں ہوتا ہمارے ذرا سے الفاظ کسی کی ساکھ برباد کر رہے ہیں، کسی کی ذات میں دڑاڑیں ڈال رہے ہیں ۔ ایسی ذات جس کو جا بجا بہت سی جگہوں پر آزمائشوں اور مشکلوں سے گزرتے ہوئے پہلے ہی پیوند لگی ہوئی ہے۔ ہم اس ذات میں مزید سراخ کرنے سے باز نہیں آتے کیونکہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا ہمارے یہ ذرا سے الفاظ درحقیقت کتنے وزنی ہیں۔ یہ ذرا سے الفاظ کیا کیا کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمیں بس اپنا غصہ نظر آرہا ہوتا ہے اور سامنے والے کا عمل ۔ نہ ہم وجہ تلاش کرتے ہیں اور نہ ہی موقع دیتے ہیں۔ ہمیں بس کر گزرنا آتا ہے کسی بھی چیز کی پرواہ کیے بغیر۔ “
ارسلان شکست خوردہ سا نظریں جھکائے کھڑا تھا ۔ وہ واقعی بہت غصے میں دھاڑا تھا ۔ اسے اندازہ تھا، اس نے غلطی کی مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ چھوٹے اور بظاہر ہلکے پھلکے دکھائی دینے والے الفاظ کتنی تباہیاں بکھیر سکتے ہیں ۔
وہ اکثر و بیشتر شازیہ سے کچھ نیا سیکھ ہی لیتا تھا مگر آج کا سبق وہ زندگی بھر نہیں بھولنے والا تھا ۔
وہ معذرت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ شازیہ اب اس کے ساتھ چلتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں بات جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس نے پہلے سن لینا مناسب سمجھا ۔
”ہمیں نہیں پتہ ہوتا ارسلان! اگلے بندے نے کتنی محنت سے خود کو کھڑا کیا ہے۔ اس نے اپنے قدموں کو جمانے کے لیے کتنی ٹھوکر یں کھائی ہیں، اس نے اپنی شخصیت کو نکھارنے کے لیے کتنے پل پار کیے ہیں ۔ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم اپنے الفاظ سے کسی کو توڑ دیں، اس کا ٹوٹنا ہمیں نہیں دکھائی دیتا لیکن کیا پتہ وہ ٹوٹ کر بکھرنے کے بجائے اس ضرب سے کرچی کرچی ہوجائے۔ ہر کسی میں اتنا حوصلہ نہیں رہتا کہ وہ نیگٹو کو سن کر، سہہ کر مثبت رہے اور مثبت ہی کرے ۔ کچھ لوگ زندگی سے ہار کر اچھائی اور شخصیت میں بہتری لانےکا ارادہ ترک بھی کردیتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی پوری نیچر سپوائل ہوجاتی ہے ۔ وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں ۔
اسی لیے کہا گیا ہے :
”پہلے تولو پھر کچھ بولو۔“
شازیہ نے تاسف سے ایک لمبی سانس لی تھی ۔ یہ اس کا خود کو پرسکون کرنے کا طریقہ تھا ۔
”شازیہ! میں تم سے معافی چاہتا ہوں ۔ میں نے غصے میں کہہ دیا تھا اب مجھے اندازہ ہے کہ ہمیں ایسے ہی کچھ نہیں کہہ د ینا چاہیے ۔ میں آئندہ احتیاط کروں گا ۔ پلیز نا یار! ہم دوست ہیں اور ویسے بھی ایک سمجھدار دوست دوسرے کو سنبھالتا اور سکھاتا ہے اور میرا وہ سمجھدار دوست تم ہو ۔ چلو اب ناراضگی ختم کرو۔ “
”میں ناراض نہیں ہوں، اور معافی نہ مانگو اس کی اس دوستی میں تو ضرورت نہیں ہے مگر ایک بات کہوں بظاہر معافی مانگنا اور کہنا بہت بھاری کام ہے کیونکہ انسان اپنی انا قربآن کردیتا ہے ۔ مگر بعض اوقات یہ اتنا ہی ہلکا لفظ ہے ۔ ہمارا بہت کچھ بکھیر دینے کے بعد یہ لفظ نہ ہی اذیت سمیٹ سکتا ہے اور نہ ہی ازالہ کر سکتا ہے ۔ وہ تکلیف تو کم ہوجائے گی کہ چلو اس نے معافی مانگ لی ہے اور ہم نے معاف کر بھی دیا مگر اس کا دکھ اور یاد کہیں نہ کہیں دل کے کسی کونے میں سسکتی رہے گی ۔ اس لیے ہمیں اپنے اعمال پر غور و فکر کرنا چاہیے , چیک رکھنا چاہیے تاکہ یہ والی نوبت نہ آئے اور اگر آجائے تو یہ لفظ اپنے اس معنوں اور احساسات کے ساتھ ڈیلیور ہو نا کہ بے معنی اور بے ضرر سا ۔ آئندہ خیال رکھنا۔
اللہ مجھے، تمہیں اور ہم سب کو عقل و فہم کا سہارا لینے والا بنائے۔ آمین ۔“
ایک تبصرہ برائے “”میں منافق ہوں“”
ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا ہے اللّٰہ انیہں کامیاب کرے ۔