ڈاکٹرشائستہ جبیں :
گناہ اور غلطی کا مادہ انسان کی سرشت میں شامل ہے. وہ ذاتی مفادات اور دنیاوی مقام و مرتبہ کے حصول کی خاطر غلط کام کرنے سے بھی باز نہیں آتا اور شیطان کے بہکاوے میں آ کر گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے.
جیسے غلطی اور نافرمانی کرنا بنی نوع انسان کی فطرت کا حصہ ہے، ویسے ہی غلطی اور گناہ کا احساس ہونے پر اللہ رب العزت کے حضور پشیمانی کا اظہار کرنے اور معافی طلب کرنے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے گناہوں کی معافی کی نوید بھی سنائی ہے. اگر کوئی گناہ سر زد ہو جائے، چاہے وہ عمداً ہو یا سہواً، احساس ہونے پر فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہیے.
بندے کے لیے کمال درجہ اللہ رب العزت کے سامنے عاجزی اور انکساری میں ہے، اور اس کے لیے ذلت و رسوائی اللہ تعالیٰ کے سامنے تکبر و سرکشی اور اس کے اوامر و نواہی سے سرگردانی میں ہے. استغفار کے لیے وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے بتا یا ہے کہ دن اور رات کی ہر گھڑی توبہ کرنے کا وقت ہے.
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ رات کے وقت پھیلاتا ہے تا کہ دن کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کر لے، اور دن کے وقت ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کر لے، یہ معاملہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک جاری رہے گا.“ (صحیح مسلم)
تمام چھوٹے بڑے گناہوں پر توبہ کرنا لازم ہے، چنانچہ فرمان الہی ہے. و تُوبُوا الی اللہ جمیعا.
ترجمہ :اے مومنو سب کے سب اللہ کے لیے توبہ کرو. (النور 24:31)
پھر ایک اور جگہ توبہ کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا گیا. یا ایھا الذین آمنوا توبو الی اللہ توبۃ نصوحا.
ترجمہ:اے ایمان والو اللہ کے لیے سچی توبہ کرو. (التحریم 66:8)
توبہ کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے، اور چاہے اپنے گناہوں کو جانتاہو یا نہ جانتا ہو سب سے توبہ کرنا ضروری ہے. اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے میں جو کمی کوتاہی رہ جائے، اس پر بھی توبہ کا معمول بنائے. چنانچہ حضرت اغر مزنی سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :” لوگو اللہ سے توبہ کرو، اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو، میں ایک دن میں سو بار استغفار کرتا ہوں.“ (صحیح مسلم)
اہل علم کہتے ہیں کہ اگر گناہ اللہ اور بندے سے متعلق ہے تو پھر توبۃ النصوح (سچی توبہ) کے لیے تین شرائط ہیں. اول: گناہ چھوڑ دے. دوم: گناہ پر پشیمان ہو اور سوم: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے.
اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو اگر کسی کا حق کھایا ہے تو واپس کرے، دل دکھایا ہے تو متعلقہ فرد سے معافی مانگ لے. کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ومن یعمل سوءااو یظلم نفسہ ثم یستغفراللہ یجد اللہ غفورا رحیما.
ترجمہ:جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، پھر وہ اللہ سے بخشش طلب کرے تو اللہ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا.
اللہ کا فضل، کرم اور سخاوت اپنے بندوں کے لیے بہت وسیع ہے. اس کی مخلوق دن رات اس کی نافرمانیاں کرتی ہے، لیکن وہ پھر بھی اس کے ساتھ بردباری کا معاملہ فرماتا ہے.،فوراً انہیں عذاب سے دوچار نہیں کرتا بلکہ انہیں رزق اور عافیت سے نوازتا رہتا ہے اور ان پر ظاہری نعمتیں کم نہیں کرتا، انہیں سُستی اور کوتاہی پر توبہ کی محض دعوت نہیں دیتا بلکہ اس پر ان کے لیے مغفرت اور ثواب کا بھی پیشگی وعدہ کرتا ہے.
اللہ رب العزت بندے کی توبہ پر بہت خوش ہوتا ہے، اور اگر کوئی شخص اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے تو ایسے شخص کے لیے دنیا میں اچھی زندگی اور آخرت میں بہترین اجر کا وعدہ ہے. کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا فرمان ہے کہ :” جس شخص کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ استغفار ہو گا تو اس کے لیے طوبی (یعنی خوشخبری) ہے“. (سنن ابن ماجہ)
خواتین کو آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے خاص طور پر استغفار کی ترغیب دی اور فرمایا :” اے عورتوں کی جماعت! صدقہ دیا کرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو، کیوں کہ میں نے جہنم میں اکثریت تمہاری (عورتوں) کی دیکھی ہے“. (بخاری و مسلم)
مشہور تابعی حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک شخص نے اُن سے قحط سالی کی شکایت کی تو اُنہوں نے اس سے کہا کہ اللہ سے استغفار کرو. پھر ایک اور شخص نے محتاجی کا شکوہ کیا، ایک نے بے اولاد ہونے کا اور ایک نے زمین کی پیداوار میں کمی کی شکایت کی تو انہوں نے سب کو یہی کہا کہ استغفار کرو. لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کئی اشخاص آئے اور ہر ایک نے الگ الگ پریشانی بیان کی، مگر آپ نے سب کو ہی استغفار کا حکم دیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جنابِ حسن بصری نے جواب میں سورہ نوح کی ان آیات کی تلاوت فرمائی.
ترجمہ :پس میں نے کہا کہ تم اپنے رب سے بخشش مانگو کیوں کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے، وہ تم پر بہ کثرت بارش برسائے گا اور تمہیں مال و اولاد دے گا،اور تمہارے لیے باغ بنائے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کرے گا. (بحوالہ تفسیر روح المعانی)
اس وقت پوری دنیا میں وبائی مرض نے جو دہشت پھیلائی ہوئی ہے، ان حالات میں انفرادی اور اجتماعی استغفار کی اشد ضرورت ہے. اپنی بداعمالیوں اور نا فرمانیوں پر نادم ہونے اور اللہ رب العزت کو راضی کرنے کا وقت ہے، کیونکہ جو قوم استغفار کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اُس سے عذاب کو دور کر دیتے ہیں. قرآن مجید میں ارشاد ہے :وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم وما کان معذبھم وھم یستغفرون.
ترجمہ :اللہ تعالیٰ ان کو اُس وقت تک عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں ہے جب تک آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم ان میں موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو اس حالت میں عذاب میں مبتلا کرنے والا نہیں، جب تک وہ استغفار کرتے ہوں. (الانفال 8:33)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ روئے زمین پر عذاب الہی سے بچاؤ کی دو پناہ گاہیں تھیں، ایک تو اُٹھ گئی اور دوسری باقی ہے، لہٰذا اس دوسری پناہ گاہ یعنی استغفار کو اختیار کرو.
اس وقت سے بڑھ کر استغفار اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بے بسی کے اظہار کا کوئی موقع نہیں آنے والا ہے. آئیے ہم سب اللہ رب العزت کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوں اور اپنے طرزِ زندگی پر غور کر کے اس کے حضور اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور نا فرمانیوں پر استغفار کریں، سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے اس ذات واحد سے بخشش طلب کریں.
وما علینا الا البلاغ.
6 پر “استغفار کی ضرورت و اہمیت” جوابات
بہت خوب ڈاکٹر… ہم غفلت کے مارے لوگوں کو اللہ زیادہ سے زیادہ استغفار کی توفیق دے اور اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے…
آپ نے بہت اچھا اور عمدہ کالم لکھا جسکی آجکل سب کو ضرورت ہے..
ماشااللہ! بہت خوبصورت تحریر توبہ اور موجودہ حالات کے متعلق. بالکل صحیح معنوں میں ہمیں استغفار کی اور اپنے اعمال کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے اللہ ہم سب کو استغفار کی اور اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا کرے.. آمین
Behtreen tehreer…aj kal is tehreer ke boht zarort the…dr shaista ap boht acha likhti hein…ainda b is tarah kay unwanaat pay roshni dalti raheya ga…
Ma’sha’Allah buhhttt achaaa likha..aaj Kal is mshkil waqt myn hmain hr waqt astaghfar krty rehna chahyee..Allah hmain maaf kry or is bemari ko hmesha ky lye khatam kr dai. Ameen..sum ameen..Allah bless u..
Ma’sha’Allah buhhttt achaaa likha..hmesha astaghfar krty reh na chahyee..Allah hmain maaf kry or is bemari ko hmesha ky lye khatam kr dai. Ameen..sum ameen..Allah bless u..
Very well written. The sequence of seeking forgiveness and the conclusion carves on the heart and soul . Most wanted article of all times indeed!