رضوان رانا:
کرونا وائرس در حقیقت اس وقت بنی نوع انسان کے لئےسب سے بڑا چیلنج اور آزمائش ہے. کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والا یہ وبائی مرض پوری دنیا کے ممالک اور سپر پاورز کو گھٹنوں پر لے آئے گا۔
اوپر سے سازشی تھیوریز، بائیولوجیکل وار کی سرگوشیوں اور چین امریکہ مڈبھیڑ نے پوری دنیا کو افواہ سازی فیکٹری میں بدل کر رکھ دیا ہے. اوپر سے سوشل میڈیا کی آزادی نے ہر بندے کو ایک نیم حکیم، فلاسفر، دانشور اور تجزیہ نگاری کے بہتے دریا میں ڈبکی لگانے کا پورا موقع فراہم کیا ہے۔ کوئی اسے عذاب سمجھ رہا ہے تو کوئی اسے آزمائش بول رہا ہے. کوئی اس سے بچنے کے طریقے بیان کر رہا ہے تو کوئی اس سے لڑنے اور سامنا کرنے کے گرُ سکھا رہا ہے. جس سے حقیقتاً عام لوگوں کی پریشانیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور ہر بندہ ڈیپریشن اور انزائٹی کا شکار ہے.
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے اور ڈرنے سے کہیں بہتر اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے کیونکہ کرونا وائرس سے نمٹنا اگر ممکن ہوتا تو ہم سے کئی گنا زیادہ ترقی یافتہ ممالک چین، اٹلی، فرانس، امریکہ، سوئٹزرلینڈ، جرمنی اس سے نمٹ چکے ہوتے. اس وقت پاکستان میں مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے اور دنیا میں بھی ہر جگہ سکول بند ہیں، دفاتر بند ہیں، کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں،
ضروریات زندگی کی اشیا ناپید ہوچکی ہیں،ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں اور ان کی استعداد ختم ہوچکی ہے جبکہ ہمارے ملک میں بھی یہی صورتحال ہے اور ہمیں بھی وہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی جو پوری دنیا اختیار کر رہی ہے یا کر چکی ہے کیونکہ کرونا ہمارا رشتے دار نہیں جو ہمارا لحاظ کرتے ہوئے شمال مغربی پہاڑی سلسلے کے اوپر سے ہوتا ہوا بحیرہ ہند میں جا ڈوبے گا یا پاکستان کے اوپر سے گزر کر انڈیا کو تہس نہس کر کے رکھ دے.
اس لئے ضروری ہے کہ عوام کی نقل و حرکت محدود کردی جائے، بوڑھے اور مریض افراد کو خاص طور پر آئسولیٹ کیا جائے تاکہ وہ وائرس سے بچ سکیں۔ ہسپتالوں میں ایسے تمام آپریشنز جن کے بغیر مریض کی جان کو خطرہ نہ ہو، منسوخ کردیئے جائیں اور تمام عملہ کرونا کے متاثرین کیلئے وقف کردیا جائے.
مغربی ممالک میں تو سرکاری عمارات اور پرائیویٹ ہاسپٹلز کو بھی اس مقصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے. ہمارے پاس یہ عمارات اتنی تعداد میں موجود نہیں، خاص کر دیہاتی علاقوں میں تو بہت کم ہیں البتہ پاکستان کے ہر ایک گلی محلے میں ایک یا ایک سے زائد مساجد ضرور موجود ہیں۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ حکومت ہنگامی طور پر ان مساجد کو عارضی طبی امدادی مراکز میں تبدیل کرے کیونکہ انسانی جان سے بڑھ کر کچھ نہیں. انسان ہوں گے تو عبادات بھی ہوں گی اس لئے مساجد میں عارضی انتظامات کرکے انہیں بآسانی پچیس تیس بستروں کے ہسپتال میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام محلے کے لوگوں کی مدد یا ہر محلے کی مسجد کمیٹی کے ذریعے سے ہوسکتا ہےاور ہر گھر سے اضافی بستر وغیرہ لے کر مساجد میں بچھائے جاسکتے ہیں.
علماء سے مشاورت بھی کی جائے اور ان کو اس نیک کام میں سرپرستی کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے مساجد کو بطور عارضی ہسپتال استعمال کرنے سے مساجد میں نماز کا سلسلہ بھی موقوف نہ ہو. اور اس کے ساتھ ساتھ مزارات کو بھی مکمل بند کیا جائے تاکہ وائرس وہاں سے آگے نہ پھیل سکے.
اور اسں نازک موقع پر میری پچیس لاکھ دیوبندی علما کے قائدین، کروڑوں بریلویوں کے لیڈران، لاکھوں فرزندان توحید کے اہلحدیث علماءاور ہزاروں امام بارگاہوں کے منتظمین سے گزارش ہے کہ آگے آئیں اور مسلمانوں کی حفاظت کیلئے زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی تعمیری اور عملی کام کرنے کی کوشش کریں.
مجھے یقین ہے ہم ایک عظیم قوم ہیں جو اس مشکل وقت میں مل کر ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور آخر میں میری حکومت سے بھی اپیل ہے یہ وقت لڑائی، تنقید اور بدلے کا نہیں بلکہ تمام رنجشوں کو بھلا کر ایک ساتھ عوام اور خاص کر غریبوں اور ضروت مندوں کی خدمت کا ہے.
آئیے مل کر آگے بڑھیں اور ثابت کر دیں کہ ہم واقعی ایک عظیم قوم ہیں ۔!!!