عبیداللہ عابد:
کورونا وائرس سے ہونے والے نقصانات کے تناظر میں دنیا کے بعض ممالک نے کورونا فنڈ قائم کیا ہے جس کا بنیادی مقصد کورونا وائرس/لاک ڈائون سے متاثر ہونے والوں کی مدد کرنا ہے۔ بھارت میں بھی یہ فنڈ قائم ہوا۔ بھارت کی نریندر مودی حکومت نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں ایک سال کیلئے 30 فیصد کمی کردی جبکہ ترقیاتی فنڈز پر دو سال کی پابندی عائد کردی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کورونا بحران سے نمٹنے کیلئے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں 30 فیصد کٹوتی کی جائے گی۔ اس سلسلے میں خصوصی آرڈیننس جاری کیا گیا۔ مودی کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ دو سال کیلئے ممبرز آف پارلیمنٹ لوکل ایریا ڈویلپمنٹ سکیم کے فنڈز روک دیے جائیں گے، اس فنڈ کے 7900 کروڑ روپے ریلیف فنڈ میں دیے جائیں گے۔
بھارت کے وزیر برائے ماحولیات و اطلاعت پرکاش جاویدکر کے مطابق انڈیا کے صدرمملکت ، نائب صدر، ریاستوں کے گورنرز نے بھی اپنی تنخواہوں میں رضاکارانہ کٹوتی قبول کی ہے، یہ سارے پیسے بھی ریلیف فنڈ میں جائیں گے۔
یادرہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے بھی کورونا فنڈ قائم کیا، انھوں نے اپنی سات ماہ کی تنخواہیں اس میں جمع کرائیں۔
پاکستان میں بھی وزیراعظم عمران خان نے کورونا فنڈ قائم کیا ، انھوں نے یا ان کی کابینہ کے کسی رکن نے اس فنڈ میں کسی قسم کا کوئی حصہ ڈالنے کے بجائے عام پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالیں۔ دوسری طرف پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
بھارت کی یہ بات پاکستان کی نسبت اچھی ہے کہ وہاں کی حکومتیں پاکستانی حکومتوں کی نسبت اپنی قوم سے زیادہ محبت کرتی ہیں۔ پاکستان میں جس قدر معاشی حالات خراب ہورہے ہیں، اس تناظر میں ضرورت اس امر کی تھی کہ صدر ،وزیراعظم ، وفاقی کابینہ کے تمام ارکان، سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، صوبائی کابینائوں کے ارکان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اپنی تنخواہوں کا کم ازکم 50 فیصد اگلے ایک سال تک کورونا فنڈ میں جمع کراتے۔ تاہم افسوس ناک امر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت بھی عوام کو دینا کچھ نہیں چاہتی، صرف لینا ہی چاہتی ہے۔
جب وزیراعظم عمران خان نے حکومت قائم کی تھی اور انھوں نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں ملکی خزانے کی جو حالت بتائی تھی، اس وقت بعض حلقوں نے کہا تھا کہ صدر ،وزیراعظم ، وفاقی کابینہ کے تمام ارکان، سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، صوبائی کابینائوں کے ارکان اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اگلے پانچ سال تک بغیر تنخواہ کے کام کریں تاکہ قوم جان لے کہ اب کوئی اس کی خاطر قربانی دینے والی حکومت قائم ہوئی ہے۔ محبت کے دعوے ہر کوئی کرتا ہے لیکن محبت لفاظی نہیں عمل منگتی ہے۔
جس طرح انڈیا کی حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے صدر، وزیراعظم سے لے کر ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں 30 فیصد کٹوتی کرنا شروع کردی ہے، پاکستان کی عمران خان حکومت بھی ایسا کرسکتی تھی اور کرسکتی ہے۔ تاہم پاکستان میں ایسا کلچر نہیں ہے، یہاں اوّل و آخر قوم ہی کو قربانی کی بھینٹ چڑھایاجاتا ہے۔ کبھی ملک کا قرض اتارنے، کبھی ڈیم بنانے اور کبھی کورونا متاثرین کی امداد کے نام پر فنڈ اکٹھا کیا جاتا ہے لیکن عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ سارے کا سارا اکٹھا کرنے والے حکمران ہی ہڑپ کرلیتے ہیں۔ سنا ہے کہ آج کل سندھ حکومت بھی یہی کام کررہی ہے۔ کم ازکم تحریک انصاف کے ذرائع تو یہی کہہ رہے ہیں۔
عمران خان قوم سے قربانی لینے والا کلچر ختم کرنے آئے تھے اور خود قربانی دینے کا کلچر متعارف کرانے آئے تھے لیکن اب وہ خود ذاتی طور پر قربانی دینے سے انکاری ہیں حالانکہ وہ لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں لیکن قربانی مانگتے ہیں اس عام پاکستانی سے جو بے چارہ چند ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے، آج کل تو اس کی روزی روٹی کا سارا سامان بند ہے لیکن اس کے باوجود اس سے قربانی کا تقاضا کیا جارہاہے۔
یہ بھی پڑھیے:
سندھ کی ایک بیٹی پکارتی ہے!!!
وزیراعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ قوم کا پیٹ ان کی تقریروں سے بھرجائے گا، ایسا ہرگز نہیں ہے،قوم مسلسل سوچ رہی ہے کہ آخر عمران خان مسلسل قوم سے مختلف فنڈز میں حصہ ڈالنے کو کہتے ہیں لیکن خود لاکھوں روپے تنخواہ وصول کرنے کے باوجود فنڈ میں ایک پائی بھی دینے کو تیار نہیں، اپنے ساتھیوں کو اپنا تن من دھن اس قوم کی خاطر قربان کرنے کو نہیں کہتے، آخر ایسا کیوں ہے؟