حمیرا ریاست علی رندھاوا:
اللہ نے انسان کو بنایا تو فرشتوں نے سجدہ کیا، رب العالمین نے اس کوتمام مخلوقات میں فضیلت عطا کی مگر افسوس انسان نے شکرگزاری کے بجائے سرکشی کی انتہا کردی اور زمین و آسمان کے مالک کو اپنے خلاف کرلیا، انسان نے طاقت کے نشے میں چور ہوکر اپنے جیسے انسانوں پہ ظلم و ستم کی انتہا کردی۔
برما میں انسان زندہ جلائے گئے، نام نہاد مہذب ممالک خاموش رہے۔ یمن اور شام کے بچے ماؤں کے سینوں سے لگے بموں سے اڑا دیے گے، پھر بھی خاموش رہی اقوام عالم ۔ عراقی عوام سسک سسک کے مرتی رہی مگر مہذب اقوام ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھے تماشائی بنی رہی۔ فلسطین کے بے گناہوں کے خون کی ندیاں بہا کر اسرائیل کا ناجائز قبضہ کروایا گیا، فلسطین کی آزادی چھین لی گئی، انسانی حقوق کی پروا کئے بغیر ننھے بچوں کا قتل عام کیا گیا۔
دہشت گردی میں ملوث انڈیا نامی ملک نے کشمیر پر تسلط قائم کیا، اس کے شہریوں کو گھروں میں قید کردیا ، ان سے آزادی اور جینے کا حق چھین لیا ۔ یہ سب کچھ اسی دنیا میں ہوا جہاں ہم سب موجود ہیں۔ بس! فرق یہ تھا کہ یہ سب کچھ دوسروں کے ساتھ ہوا اور ہم خاموش ہوکر صرف تماشا ہی دیکھتے رہے۔ اقوامِ متحدہ اور اس پہ قابض ممالک کی ہر نا انصافی پرہم اپنا دامن بچائے یہ سوچتے رہے کہ ہم تو محفوظ ہیں نا!
پھر پتہ نہیں کیسے جلتے برما کے کسی مسلمان کی چیخوں نے آسمان تک رسائی حاصل کر لی، عراق اور شام کی پتہ نہیں کون سی ماؤں کی صداؤں نے ساری دنیا کے لوگوں پر کرفیو نافذ کرادیا۔ فلسطین کے بوڑھے لوگوں کے اٹھے ہاتھوں نے پتہ نہیں کون سی دعائیں مانگنا شروع کر دیں کہ ایک ان دیکھا کیڑا پوری دنیا کے لوگوں بالخصوص ظالموں اور ظلم پر چپ رہنے والوں پر ٹوٹ پڑا۔
کشمیر میں اپنے اپنے گھروں میں قید لوگ جو اپنے مردے اپنے گھروں میں دفنانے پر مجبور کر دیئے گئے تھے، ان میں سے کسی نے اوپر والے کو پکارا اور پھر رب کے حکم سے ساری دنیا پر کرونا نازل ہو گیا، دیکھتے ہی دیکھتے طاقت کے نشے میں چور ممالک کو اپنے مردے جلانے پڑے اور پھر مجھے برما کے جلتے انسان یاد آگئے، اس بیماری میں مبتلا ممالک کے لوگوں کی لاشوں کے انبار دیکھ کر مجھے شام اور عراق کے بے گناہ یاد آگئے جن کو کوئی بیماری نہیں تھی، بس اپنے جیسے انسانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ، اور امریکا کے ظلم کا شکار ہوئے۔
آج مجھے فلسطین اور کشمیر کے وہ لوگ جو انڈیا اور اسرائیل کے ظلم کا شکار ہیں، بہت یاد آئے کیونکہ آج ہم سے آسمان والا ہماری خاموشی بلکہ مجرمانہ خاموشی اور ظلم کرنے والوں کے ظلم کی وجہ سے ناراض ہے، کسی نے اس کے عرش کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے اور ہمارے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی ہے، یوں ہماری سزا کا آغاز ہو گیا شاید،
مگر اب بھی اوپر والا فیصلے سے پہلے تاریخ پہ تاریخ دیے جا رہا ہے کہ کیا پتہ کب ہم اپنے اعما ل درست کرکے مظلوموں سے صلح کر لیں ، مگر افسوس ہم اس کے اشارے نہیں سمجھ رہے۔
اب بھی وقت ہے اے انسان! سمجھ جا تو، تیری طاقت، تیرے ادارے سب مل کر کرونا کا حل نہیں تلاش نہیں کر سکیں گے۔ یاد رکھ! آسمانوں پہ ایف آئی آر کٹ چکی ہے، بس فیصلہ تیری سرکشی اور توبہ کرے گی۔