جان محمد کاشف:
کس تکرار کے ساتھ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں مسیحائوں اور شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کے لیے سفید جھنڈے تالیاں، گیت اور دیدہ و دل فرش راہ کرنے کے دعوے۔
یا اللہ ! یہ سب کیا ہے؟ یہ کیسا شور ہے؟
ایک وہ شور تھا جب ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر متعلقہ عملہ تنخواہ اور دیگر مراعات میں اضافہ کرنے کا جائز مطالبہ کرتے تھک گئے، پھر انھوں نے مجبوراً ہڑتال کا اعلان کیا تو اس وقت کے وزیراعلیٰ کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔ چنانچہ تکبر کی انگلی ہلا ہلا کر پولیس کو لاٹھی چارج کا حکم دیا اور پلک جھپکنے میں سڑکوں پر، اسپتالوں کے وارڈوں میں، سٹوروں میں غرض جہاں جہاں سے بھی ڈاکٹر ہاتھ لگے پولیس کی نمک ہلال لاٹھیوں نے ٹانگیں، بازو توڑے ،سر پھاڑے، کپڑے اور سفید کوٹ تار تار کئے،
نرسوں کو مرد پولیس اہلکاروں نے گھسیٹ گھسیٹ کر پولیس کی گاڑیوں میں ڈالا۔ یوں ”ہمیں تم سے پیار ہے“ کا عجب عملی مظاہرہ کیا۔ اس وقت کا وزیراعلیٰ آج ڈاکٹروں نرسوں اور دیگر طبی عملہ کے لیے تنخواہیں اور دیگر الائونسز ڈبل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اگر یہ مطالبہ جائز ہے تو اُس وقت ناجائز اور گردن زدنی کیوں تھا؟ جبکہ آج کا مطالبہ کھلی منافق اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں؟ اگر ہوسکے تو اپنے ضمیر سے ضرور پوچھئے۔
دوسری طرف موجودہ حکومت کا طرزعمل بھی قابل رشک نہیں ہے۔ لڑکھڑاتی صحت کی مالک وزیر صحت نے بھی پرانی روش حکمرانی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ وہی پرانے ہتھکنڈے، برطرفیاں ، معطلیاں ، دور دراز تبادلے ، دھمکیاں غرض ہر فرعونی قدم ڈاکٹروں نرسوں اور دیگرطبی عملہ کے خلاف اٹھایا گیا ۔ پرانا طرزعمل تا ہنوز جاری ہے ۔
جب کرونا وائرس سے بھاگ بھاگ کر سب کا سانس پھول گیا تو مسیحا یاد آئے جو کسی بھی قسم کے حفاظتی سامان کے بغیر علاج گاہوں میں دھکیل دیے گئے مگر آفرین ہے ان سفید پوش فرشتوں پر کہ انہوں نے مریضوں کو شفاء سے ہم کنار کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ خود بیماری خرید لی یہاں تک کہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گئے۔
اسپتالوں ، مریضوں ، ڈاکٹروں یا نرسوں پر حملہ کرنے والے کالے کوٹ میں ملبوس ہوں یا لاٹھی چارج والے کالی وردی میں ملبوس، سب کے لیے یکساں توجہ، اخلاص اور تندہی سے مصروف علاج بلکہ مصروف جہاد ہیں۔
شاید ہم اہل چین یا اہل مغرب کی تقلید میں سفید جھنڈے لہرا کر تالیاں بجا کر اور گانے گا کر ماضی کی ظالمانہ روش کا مداوا کرنا چاہتے ہیں مگر پاکستانی اقتدار کے علاوہ روئے زمین پر کہیں بھی ڈاکٹروں اور نرسوں پر تشدد اور نا انصافی نہ ہوتی۔
اگر اہل اقتدار اپنی روش تبدیل نہیں کرتے تو پھر یہی کہنا پڑے گا کہ
یا رب! یہ تیری دنیا میں کیا دیکھ رہا ہوں
انسان میں درندوں کی صفات دیکھ رہا ہوں۔