حارث عبداللہ:
لیجیے صاحب!!!اب علامہ بدمعاش لونڈوں پر برہم ہیں۔ ہر آئے دن خوامخواہ کی ہاہاکار مچی رہتی ہے۔ ہڑبونگ اور بدتمیزی کا اس قدر اژدھام کہ قاعدے کی بات تک کہنا دشوار ہے۔اب اس اودھم میں کون شریف آدمی علامہ کی ٹوپی،شیروانی بچاتے ہوئے اپنی دستار گنواتا رہے مگر:
کس کی زباں کھلے گی پھر
ہم ہی نہ گر سنا سکے
یادش بخیر سن 2009 محرم کی ایک شب ایک دس سالہ بچے نے T.V پر ایک خطیب کو مجلس پڑھتے سنا اور مداح ہو گیا۔
وہ بچہ میں تھا اور وہ خطیب ”علامہ ضمیر اختر نقوی“
بدن پر تنی ہوئی شیروانی،سیاہ قراقلی کی ٹوپی،بے مثال لہجے میں نفیس گفتگو۔ نستعلیق شخصیت۔ محاورہ مسخر،زبان باندی،کوثر و تسنیم میں دھلی اردو گویا ہاتھ باندھے سامنے کھڑی ہو۔ وہ ڈھنگ،وہ ڈھب وہ انداز،وہ ادا کہ کیا کہنے واہ،وا،واہ،وا
وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ لکھنو کے ہیں۔ بس! پھر کیا تھا علامہ سے تعلق کا ایک دور شروع ہو گیا،اتنا سنا کہ آج کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس نے مجھ سے زیادہ علامہ صاحب کو سنا ہے اور مجھے اس بات کے اعتراف میں کوئی عار نہیں کہ میں نے جن شخصیتوں سے بہت کچھ سیکھا ہے ان میں سے ایک جناب علامہ بھی ہیں۔ خیر! یہ اپنے،اپنے ظرف کی بات ہے،اب اگر کچھ لوگ اپنے دامن میں محض کیچڑ ہی نچوڑنا چاہتے ہیں تو اس میں کسی اور کو کیا دوش۔
رہی بات مشہور ہونے والے عجیب قصوں،غریب معجزوں،نیپال کے جنگلوں اور امروہے کے لڈن جعفری کی تو اس میں بیچارے علامہ ضمیر اختر کا کیا قصور ہے۔ وہ تو کہیے کہ یہ ہمارے روایتی مذہبی فکر کی خامی ہے۔ہماری ”روایتی مذہبی فکر“ اور اس کا پورا Paraphernalia اس قدر ناقص،بھونڈا اور بے تکا ہے کہ اس سے اسی قسم کے پٹاکے اور پھلجھڑیاں برآمد ہو سکتے ہیں۔
اب اس فکر کی خامی کا سزاوار علامہ کو ٹھہرانا آخر کہاں کی ہوشمندی ہے۔ایک ذرا انصاف سے بتائیے کہ بریلی کے شیریں بیان واعظوں سے لے کر دیوبند کے تند زبان خطیبوں تک،رائیونڈ کے مراکز سے لے کر جھنگ کے فتوی ساز کارخانوں تک ،کون ہے جس نے ان نام نہاد غیبی لطائف کی عقدہ کشائی نہیں کی! کون ہے جس نے بھانت بھانت کے لطیفوں کیلیے خام مال نہیں فراہم کیا مگر ان کو تو تقدس اور احترام کی قبائوں میں لپیٹ کر وعظ و ارشاد کی مسندوں پر بٹھایا جاتا ہے اور یہاں آتے ہی پیمانے بدل جاتے ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ علامہ صاحب کا کام اور ان کی خدمات اور کارنامے اس قدر گراں ہیں کہ ان کے سامنے شاید سب ہی ہیچ ہیں۔
یہی کیا کم ہے کہ علامہ ضمیر اختر مٹتے،ڈوبتے لکھنو کی چند آخری یادگاروں میں سے ہیں جن کو دیکھ کر ایک پوری تہذیب،ایک پورا دور روشن ہو جاتا ہے؛اور کیوں نہ ہو آخر پچاس سال سے ممبر عزا پر خطابت کے جوہر لٹا رہے ہیں اور لکھنو سے لے کر انچولی اور رضویہ تک ایک غلغلہ ہے کہ بلند ہی ہوا جاتا ہے۔
اردو کے ضمن میں ”میر حسن(صاحب مثنوی سحر البیان)“ کے دیوان کی تحقیق،کھوج اور اشاعت علامہ کا وہ کارنامہ ہے کہ جس نے اردو شعر و ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔اس پر اردو زبان ان کی مرہون احسان ہے۔
ان کی ہزار سے زائد تصانیف میں سے بیشتر فلسفہ،شعر،ادب،مرثیہ،انیس،دبیر وغیرہ پر ہیں۔ ان تمام موضوعات پر علامہ نے جس دقت نظر کے ساتھ تحقیق کی ہے وہ یقیناً قدر دانوں کیلیے لائق قدر ہے۔
علامہ تو یہ سب کر کے مر جائیں گے مگر اردو ادب کے طلبہ اس سرمائے سے مدتوں مستفید ہوں گے۔
باقی سب چھوڑیے اگر صرف بزم ہائے مرثیہ کے قیام اور میر انیس پر ہی علامہ کے کام کو حساب میں لائیے تو یہ ان پھدکتے چھٹ بھیوں کی کل کمائی سے بڑھ کر ہے۔
بات علامہ کی ٹوپی،شیروانی سے شروع ہو کر کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میرا علامہ نقوی سے مسلکی یا مذہبی عقیدت کا کوئی تعلق نہیں مگر جو بھی ہو اپنے باپ یا دادا کی عمر کے ایک شریف اور بزرگ آدمی کو یوں مذاق اور دشنام کا نشانہ بنانا کوئی کمال نہیں ہے۔ خیر! اب سب کے منہ کیوں کر بند ہو سکتے ہیں،کون ہر ایک کی زبان تھامتا رہے مگر شیش محلوں میں بیٹھ کر پتھر اچھالنے والوں کیلیے یہی کافی ہے کہ:
ہم تو بدنام محبت تھے سو رسوا ٹھہرے
ناصحوں کو بھی مگر خلق خدا جانتی ہے
کون طاقوں میں رہا ، کون سر راہ گزر
شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے
5 پر “علامہ کی شیروانی،ٹوپی اور ہم” جوابات
بخدا کمال کی تحریر۔۔۔۔کئی بار پڑھنے کے باوجود بھی جی نہیں بھرتا،خوبصورت اردو،بے مثال اور لازوال ادبی پیرایہ،،ہاں علامہ لڈن ایک مضحکہ خیز شخصیت ہیں معذرت کے ساتھ انکے متعلق میری رائے نہیں بدل سکتی،وہ کچھ بھی ہوں بڑی شخصیت بہرحال نہیں ہو سکتے۔۔۔مگر تحریر اپنی جگہ بہت ہی زبردست ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔میں نے کئی جگہ تحریر کو شئیر کیا ہے تاکہ لوگ اردو تو دیکھیں!!!!
علامہ نقوی جیسے بھی ہوں فاضل لکھاری کی تحریر بہت زبردست ہے،شروع سے آخر تک تحریر میں ایک لطافت اور طلسماتی کشش ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ رکھتی ہے اور یہ لکھاری کے ماہر فن ہونے کی نشانی ہے۔باقی بدتمیزی اور گالم گلوچ تو کسی کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہیے میں اس سے 100 فیصد متفق ہوں۔
بلکل درست بات ہے کہ اصل خامی تو روایتی مذہبیت میں ہے،ہمارا روایتی مذہبی طبقہ ہر فرقے اور مسلک میں ایسی ہی باتیں کرتا ہے اور عوام بھی یہی کچھ سننا پسند کرتے ہیں۔اسی وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہے۔باقی بہت ہی اعلی مضمون۔
بہت خوب،بہت عرصے بعد ایسا عمدہ اور ادبی کالم پڑھا،قطع نظر مندرجات سے مکمل اختلاف کے پڑھ کر مزہ آیا۔
صاحب آپ کے تو ہم قائل ہو ہی گئے، علامہ صاحب کے نہ سہی۔
ہمیں اپنی نسلوں کو سکھانا ہے کہ اختلاف کا مقصد ہر گز ہرگز نفرت و دشنام طرازی نہیں۔
باقی آپ سے درخواست ہے علامہ صاحب کی کیا کیا خدمات ہیں؟ جو آپ لکھا "ان کی خدمات اور کارنامے اس قدر گراں ہیں”، اس کو طنز نہ جانیئے گا، اپنی تشنگی کے لئے پوچھا ہے۔ منبر و واعظ سے ہٹ کر اگر ہے تو شراکت داری کریں۔