مرشد

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرجویریہ سعید:
ویسے تو لوگ یونہی ’مرشد‘ ، ’مرشد‘ کہتے پھرتے ہیں۔ کچھ تو خیر”اوقات“ یاد دلانے کو کہا کرتے ہیں۔ اور جو کچھ دوسروں کو واقعی عقیدت میں ”مرشد“ کہتے ہیں، علم نہیں کہ مرشد سمجھتے بھی ہیں یا یونہی کہہ دیتے ہیں۔

ہمیں زندگی میں کوئی مرشد نہ ملیں۔ اگرچہ کئی ہیں جن کے احترام سے دل کا جام لبریز ہے۔ کئی ہیں جن سے ایسی عقیدت ہے کہ سوچتے ہیں کہ ان کا آنچل تھامے رکھیں تو اپنی تمام نالائقی کے باوجود جنت میں جانے کا سہارا مل جائے گا۔

محبت کے معاملے میں تو خاصے اوپن مائنڈڈ اور وارم ہارٹڈ واقع ہوئے ہیں مگر اس خوبی کو کچھ قریبی دوست خوبی ماننے کو تیار نہیں بلکہ نتھنے پھلا کر اور ابرو تان کر فلرٹ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔

سینے میں بائیں جانب جو شے دھڑکتی ہے اس کے مکین، کچھ ناز پرور ستم آشنا ایسی ہیں کہ انہیں کبھی محبت جتانے کو کوئی دلربا خیال یا پھڑکتی شاعری بھیج دی جائے تو ابرو تان کر پوچھتی ہیں،
”پہلے قسم کھاؤ کہ صرف مجھے بھیجی ہے!“
”پہلے یہ بتاؤ کہ مجھ سے پہلے کتنوں کو کہہ چکی ہو؟“
”تمہاری باتوں کا یقین نہیں ہے مجھے۔ وہ جو اپنے گرد جمگھٹا لگا کر رکھتی ہو، ان میں سے اکثر کو تو یہی کہا ہوگا۔“

پس صاحبو! انہی باتوں کی وجہ سے خود اپنے آپ پر سے بھی اعتبار جاتا رہا ہے۔
مگر یہ سب اپنی جگہ اور پیری مریدی اپنی جگہ۔
کتنی ہی شاہزادیوں پر دل آیا ، کتنوں کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھنے کی کوشش کی مگر کسی میں ایسی صلاحیت نہ تھی کہ ہمیں اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرلیتیں۔

قریب تھا کہ مریدی کے ذائقے کی حسرت لیے دنیا سے رخصت ہوجاتے کہ عمر رواں بھی کنارے آلگی ہے اور اس دشمن جاں وائرس نے بھی اچھے اچھوں کو مکان خالی کرنے کا نوٹس بھیجا ہوا ہے۔ اس لیے بھی محسوس ہوتا ہے چل چلاؤ کا وقت ہے شاید۔

خیر تو قریب تھا کہ یہیں حسرت لیے رخصت ہوجاتے کہ ایک محترمہ ہمیں بھی ایسی مل گئیں کہ ہم انہیں اپنا مرشد یا مینٹور ماننے پر مجبور ہو گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمر میں چھوٹی ہیں اور دعویٰ ان کا یہ تھا کہ پسند ہم آگئے ہیں۔ ہم بھی اپنی اسی معمول کی کاروائی کے تحت مل رہے تھے کہ انہوں نے تو چارج ہی سنبھال لیا۔
زندگی میں شاید پہلی مرتبہ کسی نے استانیوں والے لہجے میں ہم سے گفتگو کی۔
لگی لپٹی رکھے بغیر مطلوبہ فیلڈ میں ہمارا تجزیہ فرماتی ہیں،
ہدایات دیتی ہیں۔

پہلی مرتبہ کسی کے آگے ہمیں اپنے منہ سے اپنی ”خوبیاں“ اور ”محنت“ بتانی پڑتی ہیں۔ اور وہ ٹکا سا جواب عنایت کرتی ہیں۔
باقاعدہ پوچھتے ہیں، ”یہ اچھا نہیں کیا؟“ ۔ اور وہ کمال فیاضی سے فرماتی ہیں, ”ہاااااں… اچھا ہے۔۔ یہ ٹھیک ہے مگر۔۔۔۔۔۔ اس کے بارے میں سوچا ہے؟“

اس کے علاوہ بڑے ٹھنڈے لہجے میں پروفیشنل انداز میں ہماری ”غلط فہمیوں“ اور ”خوش فہمیوں“ کی اصلاح بھی کرتی ہیں۔

نہ جانے ہمارے بارے میں پھیلی صحیح غلط خبروں کا اثر ہے یا کچھ ہمارا ہی قصور ہے کہ عموماً ہمارا سامنا کرتے خواتین اور خصوصاً لڑکیاں شرما رہی ہوتی ہیں۔ یا احترام شحترام کررہی ہوتی ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات قریبی لوگ تو چڑھاتے بھی رہتے ہیں۔ اس لیے عرصے بعد اس سادے، ”پروفیشنل“ اور اسٹریٹ فارورڈ قسم کے لہجے اور رویے نے عجب لطف دیا۔
ہم مسکرائے اور اپنی دستار سنبھالنے کی فکر کی۔

مزہ تو جب ہے کہ آپ اپنی برائی بیان کریں اور سامنے والا یہ کہنے کے بجائے کہ
”ارے نہیں! آپ تو اتنی اچھی ہیں۔ یار آپ کو کیا پتہ آپ یہ اور وہ۔۔ آپ کو تو میں ۔۔۔ “
ڈھیلے ڈھالے لہجے میں کہے:
”ہاں! تو ایسا ہے تو اب آپ کو سمجھانا پڑے گا یا آپ نے نفسیات میں خود پڑھا ہوا ہوگا؟“
تو لطف آجاتا ہے۔

ہم مسکراتے ہیں اور دل میں پکا ارادہ کرلیتے ہیں کہ اب تو انہی کے اسکول میں نام درج کروانا ہے۔
مگر یہ نہ سمجھیے کہ انہیں پرواہ نہیں یا rude ہیں۔
اوں ہوں! ایسے ہی تو کسی کو مرشد نہیں بناتے۔

پورا خیال رکھتی ہیں۔ باقاعدگی سے رپورٹ بھی لیتی ہیں۔ ہمارے لیے محنت بھی فرماتی ہیں۔ اور بلکہ ہماری باقاعدگی کی وجہ یہ ہوئی کہ ہمارے لیے ذرا سے کہنے پر چھان بین، معلومات جمع ، یہاں وہاں پوچھ تاچھ سب کرکے رکھ لی۔ اور رپورٹ بھی لیتی ہیں اور بور نہیں ہوتیں۔
ہمارے نکمے پن پر جز بز ہوں تو اس کا اظہار بھی فرماتی ہیں۔

اب مرشد ہو تو ایسا کہ آپ کی ہمت بھی بڑھائے، شاباشی بھی دے، مگر نگاہ بھی کڑی رکھے، فیڈ بیک بھی سچا دے اور خوش فہمی بھی دور کرتا رہے۔
اے کرونا! اب ہم بھی سکون سے مر سکیں گے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں