ڈاکٹرعاصم اللہ بخش:
ان دنوں غیر معمولی فراغت کا ماحول ہے۔ کچھ دوست کتابیں پڑھ رہے ہیں، چند ایک فلموں پر کمر کسے ہوئے ہیں اور بعض دوست نیٹ فلکس وغیرہ پر مقبول شوز کے سیزن دیکھ رہے ہیں۔
ایسے میں مجھے خیال آیا کہ ایک سیزن میں بھی آپ کو suggest کر دوں۔ اس سیزن کا نام ہے،
”احیائے اسلام کی تحریکیں عہد بہ عہد“۔
دس گھنٹوں پر محیط اس گفتگو میں اسلامی تاریخ میں بپا ہونے والی مختلف تحاریک کی بات کی گئی ہے۔ ان کے خد خال اور مقاصد کا جائزہ لیا گیا ہے، خوارج، شیعہ، سنی، صوفی اور پھر عہد حاضر کی تحاریک پر بھی بات کی گئی ہے۔ میں نے یہ پروگرام سنا۔ مجھے اچھا لگا۔
اس کا سب سے بڑا فائدہ مجھے یہ محسوس ہوا کہ مجھے اپنے بھائیوں کا نقطہ نظر جاننے کا موقع ملا کہ وہ آج جس فکر پر کھڑے ہیں اس کی بنیاد کیا ہے؟ سنی سنائی باتوں کے بجائے ان اصولوں اور اصولوں کو وضع کرنے والے حالات سے آگاہی ہوئی۔ اہم ترین بات یہ معلوم ہوئی کہ بنیادی مسئلہ نیت کی خرابی کا ہے ہی نہیں۔ جبکہ ایک دوسرے کی فکر کے بارے میں کہے یا ان کہے ہمارا اصل خیال یہی ہوتا ہے کہ اس میں کہیں نا کہیں سازش یا نیت کا فتور ہے۔ شاید اسی لیے تمام تر زبانی دعووں کے باوجود ہم عملاً ایک دوسرے سے کھچے کھچے سے رہتے ہیں۔
میری دانست میں اس گفتگو کو سننے کا بہترین منہج یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ وہ حصہ سنیں جو آپ سے متعلق ہو۔ اگر اپ کو محسوس ہو کہ اپ کی فکر کی نمائندگی درست طور پر کی گئی ہے تب ہی باقی گفتگو سنیں تاکہ آپ بیان کیے گئے حقائق اور ترتیب کے متعلق متردد نہ ہوں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اس تجربے سے گزرنے کے بعد آپ ایک مختلف انسان ہوں گے ، یا دیگر کی جانب آپ کا رویہ بدل جائے گا ، تاہم اتنا ضرور ہو گا کہ آپ کی سوچ اب زیادہ معروضی معلومات پر استوار ہو گی۔ اور یہ بات طے ہے کہ معروضیت اور جذباتیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
میں شاید یہ عرض کرنا بھول گیا کہ اس پروگرام کے اسپیکر جناب جاوید احمد غامدی ہیں۔ جاوید صاحب سے چند معاملات میں اختلاف کے باوجود میرا یہ گہرا یقین ہے کہ وہ ایک سمجھدار اور زیرک عالم دین ہیں اور یہ کاوش جس کا میں آپ سے تذکرہ کر رہا ہوں یہ اپنے علمی حوالے سے واقعی ایک گراں قدر شے ہے۔