دعا عظیمی:
گھر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا. لڑکیاں بالیاں خوشیوں کے گیت گا رہی تھیں۔ بھاگ بھری ادھر سے ادھر بھاگی پھر رہی تھی۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی. ایک طرف لڑکیاں پٹولہ بنی ڈھولک کی تھاپ پر ماہیے اور ٹپے گا رہی تھیں۔ پس منظر میں اونچی آواز میں پنجابی گانا گونج رہا تھا:
سجن لبھیا چن کے لکھاں وچوں
پیار پایا سجن دیاں اکھاں وچوں
وہ دل کی دنیا میں قیامت کی چندگھڑیاں تھیں، شاید چند لمحے جنہیں مٹھی میں دبائے بھاگ بھری کی اندھیری اور بے رونق زندگی قدرے آسانی سےبسر ہو رہی تھی۔
وہ دھڑکتے دل کے ساتھ شاداں کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی جب اچانک اسے وہ نظر آئی تو شاداں نے اس کی گھبراہٹ بھانپ لی اور سوال داغا:
” کیا ہوا ؟“
اس کی پیلی رنگت دیکھ کر سکھی اسے کونے میں لےگئی جہاں عشق پیچاں کے ہرے پتے دیواروں سے سرگوشیوں میں مصروف تھے.
”وہ سوہنی کی مہندی والا ملا تھا ڈیرے سے واپسی پہ“،
اس کے منہ سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کے نکلے، سکھی نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ اس کی جان میں جان آئی. تیرے پاؤں پہ یہ پٹی کاہے بندھی ہے؟ اس کے لہجے میں تشویش بھری تھی. شاداں کو عادت تھی سوالوں پہ سوالوں کی،
”سارے سوالوں کا جواب دیتی ہوں“. اب اطیمنان کی لہر لوٹ آئی تھی…
وہ اسےبڑے پسار میں لےآئی جہاں بھڑولے رکھے تھے اور دوسری طرف بڑے بڑے صندوقچے جیسے کہ بڑے پساروں میں ہوا کرتے تھے۔
اب اس کا دل کرتا تھا کہ وہ سکھی پہ یہ راز نہ کھولے…. لیکن اب کیسے ممکن تھا.. سارا ماحول اسی نے خود بنایا تھا. اس نے ایک بار اپنے سینے پر چُنّی درست کی جیسے راز کو ٹٹولا ابھی تک وہ اسی کے پاس تھا مگر اب افشا ہونے جا رہا تھا…اوپر سے شاداں کو اگلوانے کا سلیقہ بھی کم نہ تھا اسے چپ دیکھ کر وہ بولی:
”مجھے تو نہ بتا، مجھے سب پتہ ہے، اس کا نام شاہ مراد ہے نا اوراس کا گھوڑا بہت خوبصورت ہے اور اس کے بولی ڈاگ سے سب کتوں کی جان جاتی ہے…… بڑاگبھرو ہے وہ“۔
شاداں کو تو بڑی معلومات تھیں… اس کے بولنے سے پہلے وہ سب بتا رہی تھی۔ اب بھاگ بھری حیران کھڑی تھی…
” کیا کہتا ہماری لاڈو کو؟“
میرے پائوں کا کانٹا نکالا اور کہتا کہ ”ہرچودھویں کےچودھویں پانی کی باری ہوتی میری ،تمہاری کھڑکی سےگزروں گا تم درشن دے دینا۔ ”واہ عاشق ہوگیا تمہارا!“
اس نے رشک بھری نظر سے بھاگ بھری کو دیکھا۔ بیچاری اندھی دیکھ تو سکتی نہیں پر ہاتھ بڑا اونچا مارا ہے۔ اسے تو اسی روز شک ہو گیا تھا، یہ کوئی چن چڑھائے گی، اس نے دانائی سے اپنی سہیلی کو سمجھایا
”اس کی باتوں میں نہ آنا“
”پگلی! مجھے معلوم ہے میرے بھائی مجھے جان سے مار دیں گے“، اس نے سہیلی کی تسلی کرائی شکر ہےاتنے میں ان کی تیسری سہیلی تاجوآگئی اور بات کا رخ بدل گیا۔
اور وہ اپنے ہاتھ سے اپنےپاؤں کاذخم سہلانے لگی۔
کیسا انس تھا کسی لمس کا —-
اگر اس کو لکھناآتا تو وہ حرفوں سے ریشم بنتی، اگر اس کی بادامی آنکھوں کا نور سلامت ہوتا تووہ ریشمی رومال پہ اس کا نام کاڑھتی ، مگر اب تو وہ چھنکتی چوڑیوں سے پتہ چلاتی تھی کہ کون سی سکھی آئی ہے اور کون جا رہی ہے۔ خوشبو سے لہجے سے رتوں کے بدلنے کو محسوس کرتی ..
جب وہ پیدا ہوئی اس کے بعد تین سال تک اس کی نظر قائم رہی مگر تیسری برسات کی ایک رات خوب بارش ہوئی۔ وہ اپنے جھولنے میں بے خبراپنی ماں کی چارپائی کے ساتھ سو رہی تھی کہ کچی چھت بارش کا بار نہ سہہ سکی اور نیچے آن رہی جان بچ گئی مگر بھاگ بھری کے لیے زندگی بھر کا اندھا پن بھر لائی۔ سب نے شکر کیا کہ ان کی لاڈو جان سے بچی، سات بھائیوں کی اکلوتی بہن جو تھی . جیسےچاند کو گرہن لگ گیا۔ بہتیرا علاج کی کوششیں کیں. شہر کے ڈاکٹروں کو دکھایا مگر سر کی چوٹ سے بینائی جا چکی تھی… قسمت کا لکھا کون ٹالتا!
بھآگ بھری کے لیے محبتوں کی کمی نہیں تھی، نور نہیں تھا آنکھوں میں، پر دل کی روشنی سے وہ سب ٹٹول لیتی تھی.
پچھلے کتنے سالوں سے وہ ایک ہی عمل مسلسل کرتی آ رہی تھی۔ پورے تیس دن پھولوں کےگجرے بنتی اور ایک ایک رات گنتی۔ جب چودھویں کاچاند جوبن پہ ہوتا وہ پچھلے صحن میں باغوں کی طرف کھلنے والی کھلے پٹ کی لوہے کی سلاخوں سے اپنی صندلیں کلائی باہر نکالتی اور پورے زور سے دیوار کے ساتھ بنی ٹھاٹھیں مارتی کھال میں سارےگجرے اس سمے اچھال دیتی جب اسے بولی کتے کے بھونکنے کی آواز آتی، تھوڑی سی دیر کے بعد پورے ماحول میں ایک عجیب خوشبو پھیلتی اور پھردھیرے دھیرےگھوڑے کی ٹاپوں کی آواز مدھم ہوتی جاتی۔
دل کی دھڑکنیں تیز ہوتیں، رکتیں اور پھر چل پڑتیں، اس کی ساری سکھیوں کو معلوم تھا کہ بھاگ ایسا کیوں کرتی ہے۔ اس کی بھابیوں کو تو یہ ہی بتایا گیا تھا کہ میلے پہ ایک سائیں جی آئے تھے، انہوں نے عمل دیا ہے نور چاننے کے واسطے یا نورپھولوں پہ پڑھ کر پورے چاند کی رات کو جب کھال کا پانی اچھلنے لگے، ہر مہینے اس میں پھول اچھال دے، اس عمل کی برکت سے آنکھوں میں نور اترآئےگا، تاکید تھی کہ عمل میں ناغہ نہ ہونے پائے، پھر یہ بات سارےگاؤں میں اچار کی خوشبو کی طرح پھیل گئی .
سوہنی اس کی سب سے پیاری سکھی کو سب خبرتھی۔ تب وہ سولہ برس کی تھی، جب سوہنی کی شادی پر سارا ویہڑہ رنگ برنگی جھنڈیوں اور پھلجھڑیوں سے سجا تھا، اس نے بھی کھٹے اور پیلے گوٹے کناری والے کپڑے پہنے تھے۔ ایسے بھاگتی پھرتی تھی جیسے کیکلی ڈالتی ہو، اچانک شور اٹھا کہ دولہا کے گھر والے ڈھول باجے کے ساتھ اترآئے ہیں. جنج آ چکی تھی. سب ہی پھول پتیاں اٹھائے بیرونی دروازے کی جانب بھاگے۔ وہ بھی آواز کی لے پر ادھر ہی پہنچی، کچھ افراتفری سی تھی، سوجھ بوجھ کے ساتھ ہی ہار اس نے کسی کو تھمایا تھا مگرمردانہ آواز کا لمس کانوں میں اترا ڈھول کی تیز تھاپ تھی سرگوشی پھیلی:
”آپ کتنے سوہنے او“
اسے لگا جیسے وہ یہ جملہ سننےکے لیے ہی اپنی بے نورآنکھوں کے ساتھ اس پتھریلی زمین پر اتاری گئی تھی ،فرش سے عرش اور عرش سے فرش کی نامعلوم مسافتیں طے ہوتی گئیں، ہونی اپنا رس بکھیر چکی تھی۔
تب پتہ چلا اگر آنکھوں میں روشنی نہ رہے تو بھی خواب ہرے ہی رہتے ہیں۔ حسن کے پانیوں سے دھلے ہوئے محبت کے لمس سے مہکے ہوئے،اس نے بارہا خود کو شاہ مراد کی ان دیکھی آنکھوں میں خود کو ایسے تیرتے ہوئے پایا جیسے کھال کے اچھلتے پانی میں مرتعش چندرما کا عکس، اس نے سفید گھوڑے کی نرم بالوں والی تنو مند پشت پر بارہا ہاتھ پھیرا جس پہ بیٹھ کے انہوں نےمسرتوں کے سفید بادلوں کو چھونے کی کوشش کی، وہ اس کے سنگ محبت کے باغوں میں بہنے والے ملکوتی چشموں سے اٹھنے والی نرم پھوار میں بھیگی ، اس کے من کی اندھی اور بے نور دنیا ایسےہی ان گنت خوابوں کے لمس سےآباد رہتی تھی .دل کا ایک گوشہ سدا مہکتا رہتا۔۔
چودھویں کے درشن دیتے دیتے سترہ برس بیت گئے ان سترہ سالوں میں کیا کیا نہیں بدلا ، پر نہ آنکھوں میں نور اترا نہ پونم کی رات پانی میں یا نور پڑھ کر پھول پھینکنے کا عمل بند ہوا کبھی کبھی کسی مقدس عمل کا تسلسل ویرانوں میں بہار کھلا دیتا ہے۔
ماں باپ کی وفات کے بعد سات بھائیوں اور بھابیوں کی اکلوتی نند اور بھی کمھلا گئی تھی، پھروہ ہوا جو یقین سے باہر تھا ۔ جوان اولاد اور دو بیویوں کے ساتھ شاہ مراد کا رشتہ دہلیز کے اندر اس سلیقے سےآیا کہ بھابیوں کے اصرار پر بھائیوں کو ہاں کرتے ہی بنی۔ کالے بالوں میں پھول سجتے دیکھناعام سی بات تھی مگر سفید بالوں میں شگن ہوتے سارےگائوں نےدیکھے۔ عمل حرکت میں تھا۔ پاکیزہ اورخاموش محبت کا روگ خوشیوں کی ڈولی میں بیٹھ کرحجلہ عروسی تک جا پہنچا۔ چودھویں کے درشن سترہ سالوں بعد خوابوں سے نکل کرحقیقت کی چوکھٹ پرگل پوش تھے، اندھیرنگری میں خوشی کی قیامت تھی۔ قبروں پہ سوکھنے والے ارمانوں کے کھلتے پھولوں نے زندگی کا نیاذائقہ پورےحواسوں کے ساتھ چکھا ۔
شاہ مراد اور بھاگ کے عشق سے پردہ اٹھ چکا تھا۔ شاہ مراد کی آنکھوں میں لاج تھی۔ اسے لگتاتھا اس نے مرد ہونے کاجیسے کےتیسے حق ادا کیا ہے۔ وہ اس کی تیسری بیوی تھی تو کیا ہوا محبوبہ تو پہلی تھی اور عمر سے کیا فرق پڑتا تھا بھلا ۔ محبت ان باتوں سےاوپر نہ ہو تو وہ محبت کیونکر کہلائے۔ لاڈو بھی خوش تھی۔ پر دو راتیں جب شاہ مراد سوکنوں کے ڈیرے پر گزارتا تھا اس کے سینے پہ سانپ لوٹتے۔ دو راتوں کے بعد ایک رات سیج پربھی تو گزرتی تھی. وہ لاکھ سمجھاتی کہ جو ہوا اچھا ہوا، پر جلن کم کہاں ہوتی بڑھتی ہی جاتی، مراد کی محبت کو پل میں کھرا مانتی پل میں کھوٹا، ایسے ہی روز وشب کے شمار میں زندگی کی تسبیح سے ایک ایک دانہ کبھی چاہے کبھی ان چاہے گرتا جا رہا تھا۔ بدلتی رت کے سحر نے ساری فضا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
شاہ مراد شہرسے واپس آیا تو پکارنے لگا:”پارو! اے پارو!!“
”کدھر ہے تو؟“
وہ صحن میں بندھی تاروں سے کپڑے اتارنے میں مگن تھی..
” ایک خبر ہے تیرے لیے“ وہ اسےڈھونڈتے اس کے پیچھے آن کھڑا ہوا ۔
”ایسی کون سی خبر؟“
وہ اسے شانوں سے پکڑ کر بولا،” ڈاکٹر صاحب نے تاریخ بتائی ہے آپریشن کی، اب تیری آنکھیں روشن ہو جائیں گی،“
”سچ؟“
وہ بے یقینی سے بولی، پچھلی بار تو ڈاکٹر صاحب نے ایسا کچھ نہیں بولا۔۔۔ بے یقینی سے کالے خلاؤں کو گھورتے ہوئے بولی :
شاہ مراد نے پیار سے سمجھایا، ”پارو! یہ دوسرا اور بڑا ڈاکٹر ہے.“
”آج کچہری سے سیدھا اسی کی طرف گیا تھا۔“
اتے میں چٹے مرغ نےبانگ دی ،”دیکھا مرغ نے بانگ دی“
”جب مرغ بانگ دیتا ہے ناں تو وہ رحمت کے فرشتے کو دیکھتا ہے“
”شاہ مراد تیری تو ہر بات نرالی ہے“ وہ بیوی تھی اب۔
” ہاتھ منہ دھو“
”ماسی نوری کھانا لے کر آرہی ہے“
”چل جلدی کر“،اس نے ماسی کے کھسے کی چیں چیں سے اندازہ لگایا۔
”تو بھی ساتھ آ ناں“جب وہ پاس ہوتا ایسے ہی لاڈ کرتا تھا. چہلوں کا سلسلہ رکتا کب تھا۔
دعا عظیمی کے مزید افسانے پڑھیے:
دوسری محبت ستارے سے
پھرسرما کے چڑھتے سورج کی آنکھ نے ہسپتال کی کھڑکی سےوہ لمحہ دیکھا، جب بھاگ بھری کی آنکھوں سے پٹی اتری۔ رات ہی رات دیکھنے والی نے روشنی کی صبح کو محسوس کیا۔ خوشی حد سے بڑھ جائےتو غم کی کوئی صورت ڈھونڈ لیا کرتی ہے۔ وہ اب نور بھری تھی آسمان کی نیلاہٹیں اور زمین کا پتھریلا پن سب دیکھنے لگی تھی۔ پر ایک مشکل تھی، خوابوں کی مدھم دنیا میں رہنا اس کو راس تھا۔ ایک فائدہ تھا، اپنے کام کتنی آسانی سے کرنے لگی تھی وہ مگر ایک الجھن تھی، شاہ مراد کا تخیل جس کےساتھ وہ رہتی آئی تھی دھڑام سےٹوٹ چکا تھا۔ جب پہلی بار اس کو دیکھا تو سوچا وہ کون تھا جس کے ساتھ وہ رہتی آئی تھی اور یہ کون ہے جو اس کا محسن بنا پھرتا ہے۔ یک دم خیال کی بجلی کوندی۔ وہ اپنے محبوب کاخیالی بت کیسے ٹوٹنے دیتی، شاہ مراد کا سامنا ہی تو مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس مسئلے کا کیا حل ہو؟ اس نے پچھلے صحن کے پار لگے اک کے پودے سے پتہ توڑا اور چپکے سے سفید زہر اپنی آنکھوں میں ڈال لیا۔ اک کی تاثیر بہت ظالم ہوتی ہے. شدید درد کی لہر اٹھی، بینائی ایک بار پھر شاید اندھیروں میں ڈوب گئی۔
وہ درد لیے بڑے دل کے ساتھ اپنے محبوب شوہر کے لیے مدھانی ڈال کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ تخیل حقیقت سے ٹکرا جائے تو جیت تخیل کی ہونی چاہیے۔ وہ سمجھتی تھی شاہ مراد انجان ہے مگر وہ پہلے تاثر سے ہی بھانپ گیا تھا کہ کلہاڑی خود اس نے اپنے ہاتھوں اپنے پاؤں پہ ماری ہے۔ جس لمحے اس نے اک کا دودھ اپنی آنکھ میں ڈالا تھا وہ دیکھ رہا تھا، اس کا دل چاہا تھا کہ وہ اسے منع کرے لیکن اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ اس کی محبت قائم رہے جیسے وہ چاہےاور بھاگ نے بھی تو اندھا رہنا اسی لیے منظور کیا تھا بند آنکھوں سے ہونے والی محبت بند آنکھوں کے ساتھ ہی سلامت رہ سکتی تھی نا.
چاند کی چودھویں کا طلسم اندھیری رات کے ہر گوشے پرچھار ہا تھا ،عطا تھی، دعا تھی یا زکر نور کی کرامت، جیسے ہی درد ٹھیک ہوا روشنی لوٹ آئی تھی بھاگ بھری کو سیکھنا تھا کہ کیسے ایک پاؤں خیال کے نرم پانی پہ ٹکانا ہے اور کیسے دوسراحقیقت کی خشکی پر ۔ اگر اس نے بت سے محبت کی تھی تو وہ بت ٹوٹ چکاتھا اگر اس نے اپنے پن سے محبت کی تھی تو وہ اس کے ساتھ تھی۔ شاہ مراد چاہت سے بولا:
”اس بار ہم مل کےچودھویں کے درشن کریں گے۔“
13 پر “چودھویں کے درشن” جوابات
دعا عظیمی کا ایک خوبصورت افسانہ۔ دعا محبت اور احساسات کو بہت نزاکت سے بیان کرتی ہیں۔ تشبیہات اور استعاروں کے استعمال سے اپنے خیال اور کہانی میں جان ڈال دیتی ہیں۔ ہمیشہ اسی خوبصورتی سےلکھتی رہیں۔
شہنیلہ ! میں خوش نصیب کہ آپ جیسی سہیلی کی رفاقت نصیب ہوئی.
بہت خوب۔ شاندار۔
انتہائی خوبصورت اور متاثر کن♥️♥️♥️👏👏👏👏👏
ٰآپ کے افسانوں میں محبت اور دانائی آپس میں بغلگیر ہو جاتے ہیں۔۔۔
یہ تو کلاسیکل ہے. بھئی. بہت ہی اعلیٰ. آپ کا قلم جوبن پر ہے. اللہ کریم اور بھی نوازیں.
بہترین افسانہ دعا۔۔۔شروع سے آخر تک افسانے پہ گرفت مضبوطی سے جمائے رکھی آپ نے بہت خوب
خوبصورت افسانہ..محبت کےخوبصورت اور نازک جذبات کا . تصور سے حقیقت تک کا سفر جس میں محبت بالا تر رہی.
عمدہ۔ آخر تک ہاتھ قاری کی نبض پر رہا۔
آپ نے حروف کے پھول بھیجے.
میرے لیے حصول مسرت کی وجہ ہیں. سلامتی کی دعا.
بہت خوبصورت اور دل فریب افسانہ ہے، قلم کی روانی میں بہت حظ ہے، قلم جوان رہے۔
بہت خوب
میرے اچھے قارئین
اگر میں کچھ لکھتی ہوں تو یہ آپ کے ذوق کا کمال ہے.
بہت پیارا افسانہ ۔۔کچھ جملے تو از حد خوبصورت