ڈاکٹرشائستہ جبیں:
عاصمہ ایک سرکاری ادارے میں بہت اچھے عہدے پر کام کرتی ہے. اُس کے شوہر سوفٹ وئیر انجینئر ہیں. جب رشتہ طے ہوا تو اُن کے پاس ملازمت نہیں تھی لیکن عاصمہ کے گھر والوں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کو مدنظر رکھتے ہوئے رشتہ طے کر دیاکہ اتنی اچھی ڈگری کے ساتھ ملازمت کے امکانات روشن تھے. شادی سے قبل ہی انہیں ایک بہت اچھے پرائیویٹ ادارے میں ملازمت مل گئی تو دونوں خاندانوں نے شکر ادا کرتے ہوئے شادی کی تاریخ طے کر لی۔
شادی کے بعد ابتداء میں تو کچھ وقت اچھا گزرا لیکن ایک صبح عاصمہ کو معلوم ہوا کہ اس کے شوہر نے اپنی بہت اچھی ملازمت چھوڑ دی ہے. وجہ یہ بتائی کہ باس کے ساتھ جھگڑا ہوا ہے کیوں کہ یہ روزانہ دیر سے دفتر پہنچ رہے تھے. دیر سے پہنچنے کی وجہ یہ تھی کہ صاحب کے بقول اُن سے جلدی اُٹھا نہیں جا سکتا۔
عاصمہ بے چاری اس ساری صورتحال پر ہکا بکا ہو گئی لیکن یہ تو صرف ابتدائی جھٹکا تھا۔ شادی کو تین سال گزر گئے، ایک بیٹا بھی دنیا میں آگیا لیکن وہ کہیں ٹک کے ملازمت نہیں کر پائے۔ وجہ وہی وقت پر دفتر نہ پہنچ سکنا ۔
عاصمہ کے بقول وہ گھر بیٹھ کے فری لانس کر سکتے ہیں، کام کی آفرز بھی آئیں لیکن اپنی غیر ذمہ دارانہ اور لا پرواہ فطرت کی وجہ سے اس پر بھی آمادہ نہیں ہوئے. صحت اور فنٹس کا بہت خیال ہے، یہی وجہ ہے کہ بیوی سے فیس کے پیسے لیتے ہیں اور جم جاتے ہیں، پرندے رکھنے کا بھی شوق ہے جن کی خوراک بھی بیگم صاحبہ کے ذمّہ ہے۔
عاصمہ جب دفتر سے فارغ ہو کر گھر پہنچتی ہے، تب اُن کی صبح ہوتی ہے. آرام طلب فطرت کے مالک ہیں، بیوی کما کے بھی لا رہی ہے اور گھر بھی چلا رہی ہے تو اور کیا چاہیے. ابتدا میں شوہر کے اس اس رویے پر عاصمہ نے بہت شور مچایا، لڑائی جھگڑے ہوئے لیکن وہ اپنے والدین کی پہلی اولاد تھیں جن کی بہت ارمانوں سے انہوں نے شادی کی تھی۔ والدین کی طرف سے چھوٹی غیر شادی شدہ بہن اور بھائی کی زندگی پر ان کی ناکام شادی کے معاشرتی اثرات کی وجہ سے اسے ہر حال میں گزارا کرنے کی تلقین کی گئی۔
سسرال والے معاشی طور پر کچھ مدد کر دیتے ہیں لیکن بیٹے کی لاپرواہی اور بےحسی کا علاج کرنے سے قاصر ہیں. ان حالات میں عاصمہ کے پاس صرف سمجھوتے کی ہی راہ بچتی تھی اور اس نے وہی راہ چُنی.
لیکن وہ اس رشتے اور خاوند سے شدید بددل ہے. وہ کہتی ہیں کہ جب تک مرد عورت کو معاشی طور پر سپورٹ نہیں کرتا، عورت کے دل میں کوئی مقام تو کیا ذرا سی عزت کا بھی مستحق نہیں ٹھہرتا۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے وہ حوصلہ اور ظرف ہی عطا نہیں کیا کہ وہ مال بھی خرچ کرے اور پھر مرد کو سر آنکھوں پر بھی بٹھائے.
علوم القرآن کی کلاس تھی اور اس میں مرد کی برتری والی آیت (الرجال قوامون علی النساء…… وبما انفقو من اموالھم. النساء 4:34)
ترجمہ:مرد عورتوں کے نگران ہیں کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں.
استادِ محترم سے پوچھا گیا کہ کیا آیت کے اگلے حصے سے یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ مرد عورتوں کے نگران ہیں اور نگرانی کا یہ درجہ مال خرچ کرنے کی وجہ سے ہے. تو اگر کوئی مرد مالی کفالت کا اہل نہیں ہے تو کیا وہ بھی نگران کے منصب کا اہل ہو گا؟
استاد محترم کا جواب مختصر لیکن واضح تھا کہ ہونا تو نہیں چاہیے. اگر غیر جانبداری سے دیکھیں تو بھی یہ بات درست لگتی ہے کہ نگران کا کام اپنی زیرِ نگرانی چیز کی ہر طرح سے حفاظت و نگہداشت کرنا، اسے زمانے کے سرد و گرم سے محفوظ رکھنے کے لیے جان ماردینا.لیکن اگر کوئی اپنی نگرانی میں دی جانے والی عورت کو دنیا کے تھپیڑے کھا کر معاش کمانے کی بھٹی میں جھونک دیتا ہے تو کیا اس نے نگرانی کا حق ادا کیا؟
یہ بھی پڑھیے:
شریک حیات سے خوشگوار تعلقات، چندباتیں جاننا بہت ضروری ہیں
اسلام پسند بھائیوں سے میری شکایات
ایک تعلیمی ادارے میں عالمی یومِ خواتین کی تقریب میں ایک مقررہ نے یہی بات برملا بیان کر دی. سربراہ ادارہ جو ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے تھیں اور بزبانِ خود، خود کو عالمہ، مفسرہ، مقررہ اور خطیبہ سمیت سب کچھ قرار دیتی تھیں نے اُس مقررہ کے وہ لتے لیے کہ رہے نام اللہ کا۔
وہی ضد کہ جب قرآن نے کہہ دیا کہ مرد برتر ہے، تو وہ برتر مخلوق ہی ہے چاہے وہ اس برتری کے طور پر جو ذمہ داریاں اسے تفویض کی گئی ہیں پوری کر رہا ہے یا نہیں کر رہا ہے. جتنا عرصہ وہ خاتون اس ادارے میں رہی مقررہ کی علمی کم مائیگی اور جرات پر نوحہ خواں رہیں.
• کہنا اب بھی اتنا ہی ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان سر آنکھوں پر، اس کے آگے کوئی بات اور دلیل ہو ہی نہیں سکتی، لیکن خدارا اس فرمان کی روح کو سمجھیں، جو ذمہ داری، فرائض اور کام بطور نگران آپ کے ذمہ ہیں پہلے اُسے تو بطریق احسن پورا کریں. آپ برتر بھی ہیں، آپ نگران بھی ہیں، لیکن ثابت تو کریں.
11 پر “برتری….. ثابت کیجئے” جوابات
Dr Shaista Jabeen apki ye tehreer bary achy andaz me hmari society ki akaasi krti hy.. Hmaary muaashry ka almiya hi yahi hy k hmari khawateen khud hi apny hakook ky tahafooz ki bjy mardo ky hr achy bury amaal ka tahafooz krti dikhhae deti hen.. Jaha mard ko orat ka nigraan bnaya gya hy whi usy wo responsibilities poori krny ka bhi kaha gya hy lekin koi ek orat bhi awaz uthaye to baki orten usky khilaaf khhri ho jati hen.. Baat to ye hy ky jaha mardo ko apni zimedariuo ka ehsaas nahi wahi khhawateen ko bhi bs khamoshi sy compromise krny ki rah dikha di jati hy.. Shukriya
بہت شکریہ رمشا رضا
AOA.
DR.SHAISTA SHIBA APKI YE THEREER HMRY SOCIETY K BRY M BHT C AGAHI DTI HY.
BETIYA AKSR ASY MJBOR HOTI HY K UN K NA SMNY KOI RSTA BKI RHTA H R NA PCHY.
UNY SRF COMPROMISE K LFZ P CHUP RHNA PR JTA HY. . BITTER REALITY
It’s a bitter reality..Mostly girls spend their lives like that esp in Pakistan
شکریہ نیلم
ڈاکٹر شائستہ جبیں!
بہت خوب! ما شا اللہ بہت ضروری موضوع کوبہترین انداز میں پیش کیا. اللہ تعالیٰ آپ کی بات کا اصل مقصد معاشرے کے مردو خواتین تک پہنچانے میں کامیاب کرے آمین ثم آمین یا رب العالمین 🤲
شکریہ حافظہ سعدیہ مرتضیٰ، اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرمائے.
آپ کی تحریر ھمارے معاشرے کی عکاسی کرتی ھے عورت کو صبر کی تلقین تو کی جاتی ھے لیکن مرد کی تربیت کا خیال نھیں کیا جاتا.
Dear, excellent focused in your’s lines.touching realty of present position in various families.keep it up.stay blessed.
Dear, excellent focused in your’s lines.touching realty of present position in various families.keep it up.stay blessed.
Mashaallah. Very nice column. A heart touching reality. A critical situation which 20%job holder women face. But even then thanks to those husbands who let thier wives to do job. With inlaws support and for sake of her kids she bears it patiently . No doubt Allah with the patients.