ڈاکٹرعاصم اللہ بخش:
شغل میلہ اور عمران خان سے اختلاف اپنی جگہ، لیکن میری رائے میں انہوں نے اب تک کرونا وائرس کے چیلنج کو کافی مناسب طور سے ڈیل کیا ہے۔
مثلاً یہ کہ لاک ڈاؤن تو ہوا لیکن وفاقی سطح پر اس کا اعلان نہ کر کے ایک سیفٹی والو ہاتھ میں رکھا ہے تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال کے ہنگام وفاق لاک ڈاؤن کو زیادہ سخت کر سکے یا ایک قدم پیچھے ہٹ سکے۔ اس سے صوبوں کے لیے بھی آسانی رہے گی اور یہ خطرہ بھی معدوم ہو جائے گا کہ امن و امان کی کسی ناگفتہ بہ پوزیشن میں حکومت کی رٹ چیلنج ہونے کا تاثر ملے کیونکہ وفاقی حکومت نے تو لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیا،
اس لیے اگر وہ اسے ریلیکس کرتی ہے تو یہ اس کی کمزوری نہیں بلکہ اس کا اختیار ہے۔ چنانچہ ایک جانب صوبوں کا لاگو کردہ لاک ڈاؤن موجود ہے لیکن دوسری طرف وفاق اس پر وزیراعظم عمران خان کے بیانات کی حد تک ابہام کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔
مزید یہ کہ جارحانہ ٹیسٹنگ کا راستہ اپنانے کی بجائےصرف ضرورت کے تحت ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے ۔ جارحانہ ٹیسٹنگ تو امریکہ جیسے وسائل والے ملک کو لے بیٹھی ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ جارحانہ ٹیسٹنگ کے نتیجے میں عوام میں سراسیمگی پھیلے گی، انتظامی مشینری، پولیس اور فوج کوارنٹین کے بڑھتے دائرے کی مانیٹرنگ کے چکر میں بندھ کر رہ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
کورونا وائرس نے امریکا کو بُری طرح جکڑلیا
کورونا وائرس: 91 فیصد غیرمسلم شکار ہوئے، مسلمان 9 فیصد
ہمارا ناکافی میڈیکل انفراسٹرکچر اس بوجھ کا سامنا کیسے کر پائے گا۔ یوں بھی عملی طور پر کرونا کے حوالے سے ہمارے لیے سب سے اہم چیز شرح اموات ہے، ٹیسٹنگ کا پھیلاؤ نہیں۔ اگر شرح اموات یا شدید نوعیت کی بیماری کے کیسز کی تعداد ایسے ہی رہتی ہے جیسا کہ اس وقت ہے تو پھر خوامخواہ کی ٹیسٹنگ کی ضرودت باقی نہیں رہتی۔
ہاں اگر اس میں اچانک بڑھوتری ہوتی ہے(جس کا امکان زیادہ نہیں) تو اس صورت میں ٹیسٹنگ بڑھائی جا سکتی یے، وفاقی حکومت مداخلت کر کے لاک ڈاؤن کو زیادہ سخت بھی کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں چند عارضی لیکن بڑے کوارنٹین و آئسولیشن سینٹرز کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے۔ ملک میں کرونا کی صورتحال پر روزانہ کی بنیاد پر بریفنگ بھی ایک قابل تحسین عمل ہے۔
بظاہر ایسا لگ رہا یے اپریل کا کم و بیش سارا مہینہ ہی کسی نا کسی صورت میں لاک ڈاؤن چلے گا ۔ ابھی ایک ہفتہ کا اضافہ کیا گیا ہے، غالباََ اس لیے کہ عوام میں بے چینی نہ پھیلے۔ اس دوران سب سے بڑا چیلنج کم آمدنی والے گھرانوں تک راشن یا مالی امداد پہنچانا ہو گا۔ اگر حکومت یہ کام درست طور پر کر لیتی ہے تو یہ اس کا بہت بڑا کریڈٹ ہو گا اور پھر ضرورت پڑنے پر وہ بہ آسانی دو ہفتے مزید لاک ڈاؤن کے لیے جا سکتی ہے۔
محسوس ہوتا ہے کہ اگر شرح اموات چودہ اپریل تک قابو میں رہی تو شاید حکومت رفتہ رفتہ معمولاتِ زندگی بحال کرنے کی جانب پیش قدمی شروع کر دے کیونکہ سچ یہی ہے کہ نادار ہو یا سرمایہ دار، کام چلے گا تو سب چلے گا، ان کے لیے بھی اور ریاست کے لیے بھی۔ وزیر اعظم عمران خان بھی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ معیشت کو چلنا چاہیے۔
ایک اچھا قدم یہ ہے کہ حکومت نے ایسے تمام افراد کو باقاعدہ دعوت دی ہے کہ وہ سامنے آئیں جن کے پاس موجودہ صورتحال کے حوالے سے کوئی حل، دوا، ٹیسٹنگ، ویکسین، مشینری الغرض کسی قسم کا ٹھوس اور قابل عمل پلان موجود ہے ۔ ان کو نا صرف مناسب فورم پر سنا جائے گا بلکہ اس ضمن میں عمل درآمد کے کیے ان کی مالی معاونت بھی کی جائے گی۔
پاکستان کے وسائل اور بالخصوص عمران خان کی حکومت کے اب تک کے ٹریک ریکارڈ کے تناظر میں حالیہ بحران میں حکومتی کارکردگی خاصی مناسب ہے۔
اللہ کرے پاکستان میں شرح اموات قابو میں رہے، اگر ایسا ہوا تو ان شاءاللہ ہم بہت جلد اس چیلنج سے نکل آئیں گے۔ آپ سب بھی یہی دعا کریں کیونکہ نہ تو ہم شدید نوعیت کی میڈیکل ایمرجنسی کا سامنا کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی طویل لاک ڈاؤن کے متحمل ہو سکتے ہیں۔